ہمارا ذاتی ڈیٹا، سیاسی پارٹیوں کا فائدہ
کلیدی معلومات اکھٹا کرنے کے لیے غیر قانونی ذرائع کا استعمال!
زعیم الدین احمد حیدرآباد
جیسے جیسے 2024 کے انتخابات قریب آرہے ہیں، ویسے ویسے سیاسی پارہ بھی چڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم سیاسی پارٹیوں کی مہم پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی جیت کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے غیر قانونی طریقوں کا بھی بلا خوف و تردد استعمال کرتے ہیں، ہم آج اس پر بھی ایک نظر ڈالیں گے کہ کس طرح سیاسی پارٹیاں، فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کے ڈیٹا سے فائدہ اٹھاتی ہیں، ان کے ذاتی ڈیٹا تک بالواسطہ طور پر رسائی حاصل کرتے ہوئے ان کو رجھانے کی کوششوں کرتی ہیں اور ٹارگیٹ بنانے کی اس مہم میں وہ اکثر غیر قانونی طریقے اختیار کرتی ہیں جب کہ اس پوری مہم کو انجام دیتے ہوئے انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی ہے۔
انتخابات کے دوران امیدوار اور سیاسی پارٹیاں اپنی مہمات میں کسی مخصوص سماجی گروہ یا مذہبی گروہ کے ووٹروں تک پہنچنے اور ان پر اثر انداز ہونے کے لیے مخصوص مراعات یا فلاحی اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں، گویا وہ ان پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ٹارگٹ آؤٹ ریچ کا یہ ایک مروجہ طریقہ کار ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سیاسی پارٹیاں اس مخصوص سماجی گروہ کو اپنی طرف راغب کرسکیں، اسی کو ’ووٹ بینک کی سیاست‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس اصطلاح کا استعمال کبھی مسلمانوں کو بد نام کرنے کے لیے کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ہر طبقے کے لیے استعمال ہونے لگا ہے، جہاں پارٹیاں مخصوص سماجی گروپوں کو ان کے ووٹوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کے سامنے مخصوص قسم کے فلاحی اسکیموں کا خاکہ پیش کر کے ووٹوں کی اپیل کرتی ہیں۔
بہر حال، حالیہ دنوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے آبادیاتی ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا ہے اور ڈیٹا کو بھی وہ قابل اعتراض اور غیر قانونی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ذرائع ہیں جن سے یہ پارٹیاں ڈیٹا حاصل کر رہی ہیں۔ غیر قانونی طور پر سرکاری ڈیٹا بیس نقد لگا کر حاصل کیا جا رہا ہے، ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جو سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آن لائن ’سروے‘ کے نام پر ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اور موبائل ایپس کے ذریعے جو ڈیٹا جمع ہوتا ہے اس کو بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ ان سارے ذرائع سے سیاسی پارٹیاں ووٹروں کی بہت سی ذاتی معلومات نکال لیتی ہیں اور اپنی ٹارگیٹڈ مہم چلانے کے لیے ووٹروں کی 360 ڈگری پروفائلز بنا لیتی ہیں۔ یہ سارا ڈیٹا مشکوک ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔
حال ہی میں الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے لاکھوں شہریوں سے موجودہ حکومت کے اقدامات پر رائے اور تجاویز طلب کرنے کے لیے حکومت کے پاس موجود اکاؤنٹس کا استعمال کیا ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ سب سے پہلے اور سب سے اہم سوال یہ کہ حکومت کو عوام کے فون نمبرات کیسے اور کہاں سے حاصل ہوئے؟ امیدوار اور پارٹیاں اپنے انتخابی فائدے کے لیے ذاتی ڈیٹا جیسے فون کے کنٹیکٹس وغیرہ تک کیسے رسائی حاصل کر رہے ہیں؟ کیا یہ پرائیویسی کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟
2019 کے لوک سبھا انتخابات سے بہت سی پارٹیاں اور امیدوار بہت سے غیر قانونی طریقوں میں ملوث پائے گئے۔ 2019 میں اس وقت کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے راجستھان میں جاری انتخابات کے تناظر میں یہ کہا تھا کہ "سرکاری اسکیموں کے استفادہ کنندگان جو کہ ہر غریب گھر میں موجود ہیں، ان کی ساری تفصیلات ہمارے پاس موجود ہیں” اور یہ سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے "نہ صرف ہدف ہیں بلکہ وہ ہمارے ووٹر ہیں”۔
اسی طریقے سے ایک سیوا میترا ایپ ہے۔ اس ایپ کو ایک پرائیویٹ آئی ٹی گرڈز پرائیویٹ لمیٹڈ نے تیار کیا ہے۔ اس نے تلگو دیشم پارٹی کے لیے انتخابی سروے کیا ہے۔ اس سروے میں اس نے بائیو میٹرک معلومات، پولنگ بوتھ کی سطح کے ووٹر کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ووٹروں کی پروفائلنگ میں پارٹی کی مدد کی۔ اس کے ذریعے اپریل 2019 میں ہونے والے عام انتخابات سے ٹھیک پہلے کمپنی نے 7.8 کروڑ شہریوں کے آدھار ڈیٹا تک غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کی۔ یہ رسائی کیسے کی ہوگی؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ اس پر تلنگانہ پولیس نے ڈیٹا چوری کا مقدمہ بھی درج کیا ہے۔
مہاراشٹرا بی جے پی کی ضلعی یونٹ کے ممبروں سے کہا گیا کہ وہ 2019 کے عام انتخابات سے پہلے انتخابی مہم چلانے کے لیے یونین اور ریاستی سطح کی ترقیاتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کریں۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارٹی کے ممبروں کو یہ ہدایت دی تھی کہ 22 کروڑ سے زائد ایسے خاندان ہیں جنہوں نے مودی حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے مختلف اسکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے، ان تک پہنچیں اور انہیں 2019 کے عام انتخابات میں بطور حمایتیوں کے تبدیل کریں۔
2021 میں انتخابات کے لیے اتر پردیش میں بی جے پی نے ریاست کی جانب سے چلائے جانے والے فلاحی اسکیموں کے استفادہ کنندگان تک رسائی حاصل کی، اس نے کہا کہ یہ ہمارا سب سے بڑا ووٹ بینک ہے۔
2023 میں بیجو جنتا دل نے بھونیشور میں سرکاری اسکیموں کے ذریعے زمینات تقسیم کیں تاکہ اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا جا سکے۔
متعدد پارٹیوں نے بجلی کے بلوں اور پانی بلوں کے ذریعے ووٹروں کے مخصوص گروپوں تشکیل دیے تاکہ ان کی 360 ڈگری سماجی و اقتصادی پروفائلز بنائی جاسکے۔
2024 میں آل انڈیا ترنمول کانگریس نے اپنے ٹویٹر X ہینڈل پر اسکرین شارٹ پوسٹ کرکے مغربی بنگال میں اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی ذاتی تفصیلات تک رسائی حاصل کرنے کا انکشاف کیا۔
اگرچہ ہمارے ملک میں ٹارگیٹڈ مہمات کے لیے آبادیاتی ڈیٹا کا استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جب سیاسی پارٹیاں ذاتی ڈیٹا کو، جو کہ سرکاری ملکیت ہوتی ہے، اس تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں تو اس سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ امیدوار اور سیاسی پارٹیاں غیر سرکاری تنظیمیں ہیں، اس لیے ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی سرکاری ملکیت کو بغیر اجازت استعمال کریں۔ سیاسی پارٹیوں کو افراد کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ کیوں عوام کسی ایک مقصد کے لیے اپنا ڈیٹا دیتے ہیں جیسا کہ کسی اسکیم کے لیے، لیکن سیاسی پارٹیاں اسے بالکل مختلف مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو کہ غیر قانونی ہے۔
قانون کیا کہتا ہے؟
2019 میں اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا، یہ ایک رضاکارانہ ضابطہ اخلاق تھا لیکن یہ اس مسئلے کا مناسب حل کرنے میں ناکام رہا۔ ای سی آئی کے موجودہ قواعد اور ضابطہ اخلاق نئے دور کی ڈیجیٹل مہم کے تناظر میں کافی نہیں ہیں، یہ قوانین اور ضوابط طاقت سے محروم ہیں یعنی بغیر پنجوں اور بغیر دانتوں والے چیتا کے مانند ہیں۔ 19 مارچ 2024 کو ای سی آئی نے ایک اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ یعنی ضابطہ اخلاق جاری کیا، اس میں بھی سیاسی پارٹیوں کو ووٹروں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کے طریقوں اور ذرائع پر کچھ روک نہیں لگائی گئی ہے۔ یہ سیاسی خبروں کی جانب داری اور ان کی جیت کے حوالے سے کی جانے والی تشہیر پر روک لگاتی ہے، وہ بھی انتخابی مدت کے دوران۔ فی الحال یہ ایک بہت بڑا خلا ہے جسے ریگولیٹ کرنا ضروری ہے، لیکن ECI اس خلا کو پُر کرنے بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔
سرکاری اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی کرنے والی سیاسی پارٹیوں پر قانونی چارہ جوئی کے لیے ڈیٹا پروٹیکشن قانون سازی بھی کی گئی جسے ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ، 2023 ڈی ہی ڈی پی اے کہا جاتا ہے، تاہم یہ ایکٹ ابھی تک نافذ نہیں ہوا ہے، اب تو یہ ایکٹ 2024 کے عام انتخابات تک نافذ نہیں ہوسکتا، جس سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ افراد کا قیمتی ذاتی ڈیٹا پھر ایک بار انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے من مانی طور پر استعمال کیا جائے گا، ای سی آئی نے شاید سیاسی پارٹیوں کو اس کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
اگر ڈی پی ڈی پی اے ایکٹ نافذ العمل ہو بھی جاتا ہے تو اس میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں، جیسے ڈیٹا کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس ایکٹ میں مرکز میں جو حکومت ہوگی اس کو اس سے مستثنیٰ کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے، مرکزی حکومت کو یہ اختیار ہوگا کہ حکومت کی مختلف اسکیموں کے ذریعہ جمع ہونے والے ڈیٹا کو راز داری اور نگرانی کے تحفظات سے بھی مستثنیٰ کرے۔ مثال کے طور پر اس ایکٹ کے سیکشن 7 کے مطابق ڈیٹا رکھنے والا، فرد کی اجازت کے بغیر اس ڈیٹا کو استعمال کرسکتا ہے۔ خاص طور پر، سیکشن 7 (b) کے مطابق ریاست کو ووٹرز کے ذاتی ڈیٹا پر کارروائی کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، کیوں کہ اس فرد نے پہلے کبھی اس ڈیٹا کی پروسیسنگ کے لیے اپنی رضا مندی دی ہوئی ہوتی ہے۔
جب کوئی پارٹی ریاست یا مرکز میں حکومت بناتی ہے تو وہ مختلف اسکیموں یا خدمات کے ذریعے افراد کے ذاتی ڈیٹا کو بڑی مقدار میں جمع کرسکتی ہے اور اپنے قبضے میں رکھ سکتی ہے۔ ڈی پی ڈی پی اے انہیں مزید اس ذاتی ڈیٹا پر کارروائی کرنے، اسے استعمال کرنے یا تیسرے فریق کو یا حکومت سے وابستہ افراد کے ساتھ ‘بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے’ انتخابات میں پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، لازمی بات ہے کہ ایسے ڈھیلے ڈھالے قانون و ضوابط سے برسرِ اقتدار پارٹی کو فائدہ اٹھانے اور انتخابات میں ٹارگیٹڈ مہم چلانے کے لیے کھلی چھوٹ حاصل ہوگی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024