حالات میں تبدیلی کا کوئی مختصر مدتی حل نہیں،صبر کےساتھ طویل جدوجہد درکار

موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانان ہند کے لیے امیر جماعت اسلامی ہند کا چھ نکاتی لائحہ عمل

نئی دلی : (دعوت نیوز ڈیسک)

مسلمانوں کو داخلی کمزوریوں پر قابو پانے، ’خیرامت‘ کا کردار کرنے اور برادران وطن کے ذہنوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے بھارتی مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ عزم و حوصلے کے ساتھ کریں اور اس بات کو یاد رکھیں ہمارے مسائل کا کوئی مختصر مدتی حل نہیں ہے بلکہ ہمیں صبرواستقلال کے ساتھ ایک طویل مدتی حل کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ویڈیو خطاب میں، امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا، ’’انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ فرقہ پرست قوتوں نے بے شرمی وڈھٹائی کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کے زہر کو عام کرنے کے لیے عدالتی نظام کو ، بیوروکریسی اور میڈیا کو اور ہر جمہوری ادارے کو آلودہ اور کرپٹ کیا جارہا ہے ۔ تنگ نظر سیاسی و نظریاتی نظریاتی مفادات کی خاطر پورے ملک اور ملک کے سارے اداروں کی بلی چڑھائی جارہی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو اندازہ نہیں ہے کہ کیسی خطرناک آگ ہے جو اس ملک میں بھڑکائی جارہی ہے۔ یہ آگ صرف مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ ملک کے ہر طبقہ کو بھسم کرکے رکھ دے گی۔ اس کی ہلاکت خیزیاں بہت جلد نمایاں ہوجائیں گی اور ہر ایک کو احساس ہوجائے گا کہ کیسے عفریت اور راکشس کو اس ملک میں پروان چڑھایا گیا۔‘‘
امیر جماعت نے کہا کہ ان حالات پر مسلمانوں میں غم ، غصہ اور شدید بے چینی پائی جاتی ہے جو فطری بات ہے اور ایمان کی علامت ہے۔ مسلمان جہاں اپنے لیے پریشان ہیں وہیں ان کی پریشانی ملک اور اس کے مستقبل کے لیے بھی ہے۔ وہ ان حالات پر پریشان ہیں جو ہر طبقے کی زندگی کو مشکل بنارہے ہیں۔ وہ اس بات کے لیے پریشان ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے وہ کیسا ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔تاہم مسلمانوں کو مایوس یا خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عزم اور ہمت کا مظاہرہ کیا جائے اور درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مسلسل کام کیا جائے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی مسلمانوں کو اس طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 1857 کے بغاوت سے لے کر ہندوستان کی آزادی، ملک کی تقسیم اور دیگر بہت سے آزمائشی مرحلے ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں، اور اللہ کے فضل سے ہم نے ان چیلنجوں کا سامنا کیا اور ان پر قابو پایا۔
جناب سعادت اللہ حسینی نے مسلم امّت کو یاد دلایا کہ ہمیں اپنی طاقت سے آگاہ ہونا چاہیے جس کی جڑیں ہمارے دین اور اس کی عظیم تعلیمات اور اصولوں میں مضمر ہیں۔قرآن کے مطابق ایمان کی علامت یہ ہے کہ اہل ایمان چیلنجوں سے گھبرایا نہیں کرتے بلکہ انہیں دیکھ کر ان کا ایمان واعتماد اور بڑھ جاتا ہے :وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَۙ- قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ-وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا۔ ’’ اور سچے مومنوں کا حال اُس وقت یہ تھا کہ جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔(الاحزاب آیت 22)
امیر جماعت نے کہا کہ دنیا میں کوئی کمزور وبے حیثیت گروپ کو پریشان کرنے میں اپنی قوت کو ضائع نہیں کرتا۔ آپ کا دین اور اس کے اصول آپ کی عظیم طاقت ہیں اور یہی چیز برائی کے علم برداروں کو چین لینے نہیں دیتی۔ آپ اپنی اس طاقت کو محسوس کریں۔ ان شاءاللہ یہ حالات ہماری طاقت کو بڑھائیں گے اور ہم مزید مضبوط وطاقتور بن کر نکلیں گے۔ اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارے حالات کا کوئی مختصر مدتی حل نہیں ہے۔ ہمیں مشکلات اور چیلنجوں کے ایک دور سے گزرنا ہے ۔مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے ایک طویل معیادی و دیر پا حل پر اپنی توجہات کو مرکوز کرنا ہے۔
ہمارے مسائل کے حل کے دو پہلو ہیں ۔ پہلا، بیرونی حل۔ ہمیں اس ملک کو یہاں کے سماج اور اس کے ذہن کو بدلنے کی سنجیدہ اور مسلسل کوشش کرنی ہے۔ لوگوں کو اس جذباتی و ہیجانی کیفیت سے باہر نکالنا ہوگا جو شرپسند سیاستدانوں نے پیدا کردی ہیں۔ ان کے ذہنوں کو حقیقی مسائل پر سوچنے کے لائق بنانا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مگر حل یہی ہے۔ ہمیں ایک لمبے عرصے تک صبر کے ساتھ محنت کرنی ہے۔
دوسرا پہلو داخلی ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہے۔ ہمارے اندر تعلیم کم ہے، معاشی حالت دگرگوں ہے،بصیرت اور بصیرت مند قیادت، نصب العین اور اتحاد کی کمی ہے۔دوسری طرف جذباتیت ہے۔ کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو ہم غیض وغضب اور جھنجھلاہٹ کی پوری قوّت سے اٹھتے ہیں، ایک دوسرے پر لعن طعن کا طوفان برپا کر دیتے ہیں اور چند دنوں بعد ٹھنڈے ہو کر پھر اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ کسی ٹھوس کام پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ یہ ایسی کمزوریاں ہیں جو ہمارے پیروں کی بیڑیاں ہیں۔ یہ حالات ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اپنا سنجیدہ احتساب کریں اور ان کمزوریوں کو دور کرکے ایک طاقتور اور با اثرقوّت بنیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم دشمنوں کے لیے نرم چارہ بنے رہیں گے۔ لہذا ہم سب یہ طے کریں کہ اپنے اپنے مقام پر اپنے دائرہ اثر پر توجہ مرکوز کریں گے اور ٹھوس تبدیلی لانے میں اپنا رول ادا کریں گے۔ ہم سب مل کر اپنے مقام پر اگر چند چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلسل کام اور محنت کریں گے تو انشاء اللہ اسی کے نتیجہ میں تبدیلی آئے گی ۔امیر جماعت نے اپنے ویڈیو پیام میں بھارتی مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل کے طور پر چھ نکات تجویز کیے:
(1) اپنے مقام پر برادران وطن کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کریں۔ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں۔
(2) اپنے مقام پر مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ انہیں تعلیم میں آگے بڑھائیں، ان کی معیشت کو بہتر کریں اوران کی کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ دیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے اخلاقی و دینی حالت کو بہتر بنائیں۔
(3) کوشش کریں کہ مسلمان سماج میں ’خیر امت‘ کا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔ اپنے مقام پر تمام لوگوں کے لیے، تمام کمزوروں کے لیے وہ رحمت بنیں اور باقی لوگ انہیں ایک اثاثے کے طور پر دیکھیں۔
(4) مذہب، ذات اور برادری سے قطع نظر تمام کمزوروں اور مظلوموں کے لیے انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ہم ظلم کی مخالفت اور مزاحمت کریں لیکن پرامن طریقے سے۔
(5) سوشل میڈیا کی طاقت کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اسے مایوسی پھیلانے اور ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے کا پلیٹ فارم نہ بنائیں۔ اس کا استعمال ملک کو درپیش حقیقی مسائل پر لوگوں کو بیدار کرنے اور اسلام کے بارے میں شعور پیدا کرنے اور امت کو ہمت دینے کے لیے کریں۔
(6) آنے والے انتخابات ملک کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہمیں امن اور انصاف پسند لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لوگ اس الیکشن میں بڑی تعداد میں شرکت کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو درست سمت میں ادا کریں۔
آئیے! ہم ان مشکل وقتوں کو ایک نئے دور کے آغاز میں تبدیل کریں۔ آئیے ہم غصے اور مایوسی کو تعمیری توانائی میں تبدیل کریں، جو ہمارے موجودہ حالت کو بدلنے میں ہماری مدد کرے گی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024