حمیرا علیم
آٹھ مارچ ویمنز ڈے۔ عورت مارچ اور اس میں شریک خواتین کے ہاتھ میں موجو اوٹ پٹانگ پلے کارڈز اور ان پر درج نعروں پر الگ الگ تبصرے۔ یہ سب دیکھ دیکھ کر میں اکتا گئی ہوں۔ کیا ہے یہ سب؟ ہر کوئی اپنی اپنی دکان چمکا رہا ہے۔ میں ایک عورت ہوں۔ مجھے مجھ سے بہتر اور کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے۔ میں پیدا ہوئی تو والدین دکھی ہو گئے کیونکہ انہیں بیٹی نہیں جہیز کی لسٹ نظر آ رہی تھی جو انہیں اس کی شادی پر پوری کرنی تھی۔ پھر میرا ایک بھائی پیدا ہوا تو میری ماں جو ایک عورت ہے اس نے بیٹے کو زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی۔ ’’لیگ پیس بھائی کے لیے ہے تم کوئی دوسری بوٹی لے لو‘‘
’’ بھائی کو اسکول یونیفارم چاہیے، تم اگلے سال لے لینا‘‘
’’ اٹھو بھائی کو پانی پلاو وہ گرمی میں تھکا ہارا کرکٹ کھیل کر آیا ہے‘‘
لیکن کبھی کسی نے یہ نہ کہا
’’تم لیگ پیس کھا لو بھائی کوئی اور بوٹی لے لے گا‘‘
’’ تمہارا یونیفارم پھٹ گیا ہے اس لیے تم یونیفارم لے لو بھائی کو اگلے سال دلا دیں گے۔‘‘
میں کالج سے تھکی ہاری آتی تو کوئی بھائی سے نہ کہتا
’’ بہن کو ٹھنڈا پانی پلا دو۔ اس کے لیے کھانا گرم کر دو‘‘
سارا دن میں کام کرتی اور بھائی آرام۔ میرے دل میں یہ پہلی گرہ بچپن ہی میں پڑ گئی کہ لڑکے لڑکیوں سے افضل ہیں۔ وہ چاہے کچھ نہ بھی کریں پڑھائی میں فیل ہو جائیں، غنڈہ گردی کریں، نکمے پھرتے رہیں، شوق کریں ان کے لیے سب جائز ہے لیکن لڑکی شریف ہو، باکردار ہو، پڑھی لکھی اور سلیقہ شعار ہو تب بھی خاندان کے لیے ایک بوجھ ہے۔
ذرا بڑی ہوئی تو فلموں و ڈراموں میں دیکھا کہ سسرال کا ہر ظلم زیادتی سہ کر بھی چپ رہنے والی عورت ہی اچھی عورت ہے۔ جو عورت اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے وہ بدترین ہے۔ چنانچہ دل میں ٹھان لیا کہ نیک پروین بنوں گی۔ مجھ سے پوچھے بغیر ہی میری شادی کر دی گئی۔ میں نے سر جھکا دیا کہ ’’ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی مرضی نہیں پوچھی جاتی۔‘‘
شوہر ٹیپیکل مرد ملا جو گھر کی روٹی کو باسی سمجھ کر باہر منہ مارنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ لیکن اگر اس کی بے توجہی سے عورت بھٹک جائے تو وہ گناہگار ہوتی ہے۔ سسرال والوں کی خدمت شوہر کی لا تعلقی سب کچھ سہا حتی کہ مار بھی۔ جی ہاں! مار بھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ضرور میں نے ہی کچھ ایسا کیا ہو گا کہ شوہر کو ہاتھ اٹھانا پڑا۔ شاید میرا ہی قصور تھا۔ شوہر نے مجھے شادی پہ ایک گولڈ چین دی تھی کہیں گر گئی مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ شام کو دیکھا تو گلے میں نہ تھی۔ میں بہت پریشان ہوئی۔ سب سے پہلے ساس کی نظر پڑی۔
’’بہو! وہ چین کہاں گئی جو اسجد نے تمہیں دی تھی؟‘‘ غور سے میرے گلے کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
میں کچن میں روٹیاں پکا رہی تھی۔ گلے پہ ہاتھ مارا تو سانس رک گئی۔
’’یا اللہ خیر! امی یہیں کہیں ہو گی شاید گر گئی ہے‘‘
’’ گر گئی ہے یا اپنی ماں کو دے آئی ہو‘‘ طنزیہ لہجے میں تیر برسایا گیا۔
’’ اونہہ میرے ماں باپ کو کیا ضرورت ہے اس معمولی سی چین کی۔ اللہ کا شکر ہے آپ سے زیادہ امیر ہیں ۔‘‘
دل تو بہت چاہا کہ جواب دوں مگر دل میں سوچ کر ہی رہ گئی۔ آفس سے آتے ہی ساتھ ساس نے اسجد کے کان میں صور پھونک دیا۔ انہوں نے مجھے آواز دی۔
’’صومعہ!فورا ادھر آو۔‘‘
بھاگی بھاگی لاونج میں گئی۔ ساس سسر نندیں دیور سب موجود تھے۔
’’جی کچھ چاپیے ہے آپ کو۔ کھانا تیار ہے میں لگاتی ہوں ابھی‘‘ میں نے ایفی شینسی دکھائی ۔
’’ پہلے یہ بتاؤ چین کہاں ہے تمہاری؟‘‘ غصہ سے پوچھا گیا۔
میں نے کن انکھیوں سے سب کو دیکھا سب مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ ’’وہ۔۔۔ کہیں گر گئی ہو گی۔میں ڈھونڈتی ہوں ابھی۔‘‘ چٹاخ ۔۔۔اس سے پہلے کہ میں بات پوری کرتی میرے گال پہ ایک تھپڑ پڑا۔ اتنے سارے لوگوں کے سامنے میری پیشی اور پھر فوری سزا۔۔۔
میں نے ایک نظر سب کے چہروں پہ ڈالی۔ساس کی فاتحانہ نظریں، نندوں کی طنزیہ نظر دیور اور سسر کی استہزائیہ نظر۔ اف خدایا صرف ایک چین کے لیے اتنی بے عزتی۔
’’گر گئی یا ماں کو دے آئی ہو؟‘‘ اسجد دھاڑے۔
’’ مگر میں تو پچھلے دو ماہ سے امی کی طرف گئی ہی نہیں ۔اور چین تو آج ہی کہیں گری ہے‘‘ میں ممنائی۔
چٹاخ۔۔۔۔
’’ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ بجائے اپنی غلطی ماننے کے زبان چلاتی ہے۔ دفع ہو جاو کھانا لگاو مجھے بھوک لگی ہے‘‘ میں جو چاہ رہی تھی کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جاوں فوراً کچن کی طرف بھاگی۔ مجھے رونا نہیں آرہا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا غلطی میری ہی تھی۔ اسجد کا کیا قصور مجھے چین کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔
مگر چیزیں تو گم ہو ہی جاتی ہیں ٹوٹ جاتی ہیں۔اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ سب کے سامنے بیوی کو تھپڑ مار دیا جائے۔پھر کسی نے اسے روکا بھی نہیں۔
دماغ نے احتجاج کرنے کی کمزور سی کوشش کی۔
’’ نہیں! نہیں! ان کی کیا غلطی اسجد نے ان سے پوچھ کر تھوڑے ہی تھپڑ مارے تھے۔‘‘ میں نے تاویل دی۔
پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔
’’صومعہ ادھر آو‘‘ ساس کی آواز آتی۔
سب صوفوں پہ بیٹھ جاتے اور میں کسی کے جی کے نالائق بچے کی طرح سامنے سر جھکائے کھڑی ہو جاتی۔
’’یہ ٹرالی میں سے فلم کی سی ڈی تم نے اٹھائی ہے؟‘‘
’’ نہیں امی! میں تو صفائی کر کے کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔ نینا کوئی مووی لگا کر بیٹھی تھی شاید اسے معلوم ہو۔‘‘
سب کو معلوم تھا میں سارا کام اکیلے کرتی ہوں اور موویز نہیں دیکھتی پھر بھی شک مجھ پہ ہی تھا۔
ساس نے نظر گھما کر نینا کو دیکھا ۔
’’ نہیں نہیں امی! میں تو اپنے کمرے میں تھی میں نے کوئی مووی نہیں دیکھی۔‘‘ وہ صاف مکر گئی۔
’’میری بچی پہ الزام لگاتی ہے۔ اٹھا قرآن تو نے سی ڈی نہیں اٹھائی۔‘‘ ساس نے کہا۔
’’کیا۔۔۔۔۔۔ قرآن اٹھاوں سی ڈی کے لیے؟‘‘ میں ہکا بکا رہ گئی۔
’’دیکھا جھوٹی ہے نا اسی لیے قرآن نہیں اٹھا رہی‘‘ نینا نے لقمہ دیا۔
شام کو پھر مار میرا مقدر ٹھہری۔ اور تو اور ایک دن ہم بڑی نند کے گھر سے آرہے تھے وہ بیمار تھی لہذا اس کا چھ سال کا بچہ ہمارے ساتھ ہی آ گیا۔ اسجد نے اشارہ نہ دیکھا اور سگنل توڑتے ہوئے آگے چلے گئے۔فورا سے ٹریفک پولیس کی بائیک آ کر گاڑی کے آگے رکی ۔
’’ سر! آپ نے سگنل توڑا ہےآپ کا چالان ہو گا۔ لائسنس دیجیے پلیز۔‘‘ سارجنٹ نے کہا۔
اسجد گاڑی سے اترے شاید اس سے مک مکا کرنے کی کوشش کی جب بات نہیں بنی اور چالان کٹ گیا تو گاڑی میں آئے اور بیٹھ کر میرے منہ پہ زوردار تھپڑ مارا۔ میری نند کا بچہ جو میری گود میں تھا ڈر کے مارے رونے لگا۔ بھری سڑک پر یہ تھپڑ میری روح پر تازیانہ تھا۔ ایک بزرگ خاتون جو سڑک کنارے کھڑی تھیں۔وہ ہماری گاڑی کے پاس آئیں اور اسجد کو بہت سنائیں۔
’’ اے میاں! شکل سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو اور حرکت کی تم نے جاہلوں والی شرم نہ آئی تمہیں بیچ چوراہے میں بچی پر ہاتھ اٹھاتے۔ اور تم لڑکی! اس جیسے جانور کے ساتھ رہ ہی کیوں رہی ہو۔ لاوارث ہو کیا؟‘‘ خاتون خاصے غصے میں آ گئی تھیں جو مجھے بھی رگید ڈالا۔
اسجد نے گاڑی چلائی اور زن سے نکال لے گئے۔ اب انہیں کیا بتاتی اللہ رکھے وارث تو سب ہی تھے مگر معاشرے کے ڈر سے کسی کو کچھ بتاتی نہ تھی۔ کہ ساس تو پہلے ہی مجھے نکالنے کے درپے تھیں۔
’’ ہائے!ہائے! میرے اسجد کی تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ایک تو پھوہڑ اوپر سے بانجھ۔تین سال ہو گئے شادی کو اور اب تک اولاد نہ دے سکی میرے بیٹے کو۔‘‘ کیا بتاتی کہ شادی کے شروع کے چند دن کے بعد آپ کے بیٹے کا دل مجھ سے بھر گیا تھا اب تو وہ روز اپنی نئی محبوبہ کے ساتھ وقت بتاتے ہیں ۔
آخر اللہ نے اس الزام سے بھی مجھے بری کر دیا۔ شادی کے پانچ سال بعد میرا بیٹا ہوا تو سوچا شاید اب سکون کا سانس ملے۔ مگر یہ میری بھول تھی۔ نہ شوہر بدلا نہ سسرال۔ میری نندوں اور دیور کی بھی شادی ہو گئی۔ دیورانی نے تو شادی کے چند ہی دنوں میں الگ گھر کا مطالبہ کر دیا جو دیور نے فورا مان بھی لیا مگر میری سختی کے دن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسجد کی پوسٹنگ کراچی ہو گئی۔ گھر کے کاموں کے لیے ماسی چاہیے تھی چنانچہ مجبوراً مجھے ساتھ لے جانا پڑا۔ کراچی میں گروسری کی خریدی کرتے ہوئے بچپن کی چند دوستوں سے ملاقات ہوئی ان کی شادی شدہ زندگی بہت خوشحال تھی۔ مجھے اپنے آپ پر بہت ترس آیا پھر سوچا کوئی بات نہیں اسجد اگر وفادار نہیں ہیں میری عزت نہیں کرتے تو کیا میرا خرچ تو سارا اٹھا رکھا ہے نا۔ دماغ نے پھر بغاوت کی۔
’’ ہونہہ! خوش فہمیاں۔ تم سے زیادہ اچھے کپڑے جوتے تو گھر کے چوکیدار کی بیوی کے ہوتے ہیں اور چوکیدار تم سے اچھا ہے جو پندرہ ہزار تنخواہ لیتا ہے۔ تمہیں تو کبھی دس روپے دینے کی توفیق نہ ہوئی اسجد کو۔‘‘
تو کیا ہوا کھانا پینا رہائش کیا یہ کافی نہیں ہے؟
’’یہ تو کوئی بھی چوبیس گھنٹے کی ملازمہ ہوتی تو اسے بھی مل جاتا اور تنخواہ بھی ملتی۔ تمہیں دے کر کون سا تیر مار رہا ہے‘‘
میں نے سر کو جھٹکا اور کام میں لگ گئی۔ میرا بیٹا پانچ سال کا تھا کہ اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا۔ میرا خیال تھا کہ شاید بیٹی کی پیدائش کے بعد اسجد سدھر جائیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک روز تنگ آکر میں نے ایک ہیومن رائٹس کی مشہور وکیل سے رابطہ کیا۔ اسے ساری کہانی سنا کر مشورہ مانگا تو فرمانے لگیں
’’ تم بچے چھوڑ کر فوراً ہمارے پاس آ جاو دیکھنا کیسے تگنی کا ناچ نچا دیں گے ہم اس کو‘‘
’’بچے چھوڑ آوں؟‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔
’’ہاں، ذرا اسے بھی تو پتہ چلے جب اکیلے بچے بھی پالے گا اور کام بھی کرے گا اور مقدمہ بھی لڑے گا تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔‘‘ جواب آیا۔
’’آپ مجھے کہاں رکھیں گی؟ پھر میرے بچے خصوصاً بیٹی بہت چھوٹی ہے۔ میں بچے تو ہرگز نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ میں نے فکر مندی سے کہا۔
’’ دیکھو بی بی! ہمارے پاس تو کوئی ایسی جگہ نہیں ہے اس لیے ہم تمہیں دارالامان میں رکھیں گے۔ پھر ہماری این جی او تمہیں شوہر سے طلاق دلوا دے گی تو تم جہاں چاہے چلی جانا۔‘‘ بڑے فخر سے انہوں نے مجھے تسلی دی۔
’’دارالامان؟؟؟؟ مگر وہاں کے بارے میں تو بڑی الٹی سیدھی باتیں مشہور ہیں۔پھر طلاق کے بعد میں کہاں جاوں گی۔ میرے پاس تو نہ پیسہ دھیلا ہے نا سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ۔‘‘ مجھے معلوم تھا اگر طلاق لے کر والدین کے گھر گئی تو کوئی مجھے گھر کی دہلیز بھی پار نہیں کرنے دے گا۔
’’اب یہ آپ کا مسئلہ ہے‘‘ بڑی رکھائی سے جواب دیا گیا ’’آپ سوچ لیں پھر مجھے فون کر کے بتا دیجیے گا‘‘ کہہ کر کال ڈراپ کر دی گئی۔ میں نے جتنے بھی وکلاء یا اداروں کو فون کیا اسی سے ملتا جلتا رد عمل ملا۔
بچے تو میرے علاوہ نہ کسی کے پاس جاتے ہیں نہ کھانا کھاتے ہیں نہ سوتے ہیں ان کو چھوڑ دوں تو پھر میری زندگی کا کیا مقصد رہ جائے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد مجھے میں یہی آیا کہ سب ہیومن رائٹس کے علمبردار دراصل اپنا فائدہ دیکھتے ہیں انہیں طلاقیں کروانے پر فارن فنڈنگ جو ملتی ہے۔پھر چاہے وہ تشدد کا شکار عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کے شمع محفل بن جائے انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی۔
مجھے اپنے بچوں کی خاطر اس جہنم میں رہنا ہو گا یہ سب برداشت کرنا ہو گا۔لیکن میں ایک آخری کوشش ضرور کروں گی۔ شام میں اسجد آئے تو کھانا دے کر میں نے بچوں کو ان کے کمرے میں کھلونے دے کر بٹھا دیا اور اسجد سے کہا۔
’’ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
’’ہوں! بولو‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ مجھے معلوم ہے آپ کو یہ بات بری لگے گی۔ مگر اب بچے بڑے ہو رہے ہیں ہمارے درمیان جو کچھ ہوتا ہے ان پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی عالم دین یا کونسلر سے رجوع کرنا چاہیے‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ اس دن شاید اسجد کا موڈ اچھا تھا یا اللہ تعالیٰ کو مجھ پر رحم آ گیا تھا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ویک اینڈ پر خود ہی ایک عالم دین کے پاس لے گئے جنہوں نے ہمیں ایک سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجا۔ یوں ہم دونوں سے کونسلنگ شروع کردی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اسجد نے مجھ پر ہاتھ اٹھانا بند کر دیا۔ اگرچہ ہمارے درمیان اب بھی کوئی دلی تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ اور سچ تو یہ ہے اب مجھے اس شخص سے اتنی نفرت ہو چکی ہے کہ کبھی بھی میرے دل میں اس کے لیے محبت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن کچھ معاشرے کا ڈر، کچھ مالی وسائل اور رہائش کا نہ ہونا اور بچے وہ فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے میں اس شخص کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں۔ کاش میں ایک اسلامی معاشرے کی فرد ہوتی جہاں طلاق یافتہ عورت سے ایک اچھوت کی طرح برتاو نہ کیا جاتا تو میرے والدین بھی مجھے اس درندے سے نجات دلا دیتے۔ مجھے یوں جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار نہ ہونا پڑتا۔ میں تو اس گورکھ دھندے سے نہ نکل سکی لیکن اپنے بیٹے کی تربیت ضرور ایسے کر رہی ہوں کہ وہ ہر عورت کو، خواہ وہ ماں بہن، بیوی، بیٹی ہو یا پرائی عورت ہو، اسے عزت دے اور عورت پہ ہاتھ اٹھانے کو مردانگی نہیں بزدلی سمجھے۔کیونکہ عورت ایک انسان بھی ہے اسے صرف کھانا پینا تن ڈھانپنے کو کپڑے اور رہائش ہی نہیں چاہیے ہوتی ہے بلکہ پیار اور عزت بھی چاپیے ہوتی ہے۔ میں عورت ہوں اس لیے عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہوں۔ میرا بیٹا اپنے باپ کے نقش قدم پر نہیں چلے گا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023