گیانواپی مسجد کیس: ہندو درخواست گزار نے الہ آباد ہائی کورٹ سے گزارش کی کہ اگر مسجد کے نگراں کوئی درخواست دائر کریں تو اس کی بھی سماعت ہو
نئی دہلی، ستمبر 14: وارانسی کی گیانواپی مسجد کیس کے ایک ہندو مدعی نے الہ آباد ہائی کورٹ میں کیویٹ دائر کیا ہے۔ اس قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ ایک انتباہ دائر کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان کی سماعت سے قبل ان کے خلاف کوئی منفی حکم جاری نہ کیا جائے۔
یہ انتباہ ریکھا پاٹھک نے دائر کیا ہے، جو ان پانچ ہندو خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد میں دیوتا شرنگر گوری کی تصویر موجود ہے اور وہاں روزانہ پوجا کرنے کی اجازت مانگی ہے۔
اپنی درخواست میں پاٹھک نے ہائی کورٹ سے گزارش کی ہے کہ اگر انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کا انتظام دیکھتی ہے، وارانسی کی عدالت کے 12 ستمبر کے حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست پیش کرتی ہے تو وہ اس کی سماعت کرے۔
پاٹھک نے کہا ’’ورنہ انھیں [ہندو مدعیان] کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔‘‘
وارانسی کی ضلعی عدالت نے 12 ستمبر کو فیصلہ کیا تھا کہ ہندو مدعیان کی طرف سے گیانواپی مسجد کے احاطے میں پوجا کرنے کا حق مانگنے والے دیوانی مقدمہ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور اس کی مزید سماعت کی جا سکتی ہے۔
انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے سول سوٹ کے برقرار رہنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عبادت گاہوں سے متعلق (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ کا مذہبی کردار جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو موجود تھا، تبدیل نہیں ہو سکتا۔
تاہم ڈسٹرکٹ جج اے کے وشویشا نے کہا تھا کہ قانون مدعی کو متنازعہ مقام پر عبادت کرنے سے نہیں روک سکتا کیوں کہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ 15 اگست 1947 کے بعد بھی پوجا کرتے رہے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مدعی نے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ عبادت گاہ کو مسجد سے مندر میں تبدیل کیا جائے۔
ضلعی عدالت کے حکم کے بعد ایڈوکیٹ اخلاق احمد، جو مسجد انتظامیہ کی نمائندگی کرتے ہیں، نے کہا تھا کہ وہ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے۔