گزشتہ سے پیوستہ: نکاح دائمی مسرت کا ذریعہ بن سکتا ہے

رسول اللہ ؐ کا طرزمعاشرت کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے مشعل راہ

رحمت النساء عبدالرزاق
ترجمہ: سلیم الہندیؔ (حیدرآباد)

پرسکون زندگی کے لیے درست مقصد حیات ، مناسب شریک حیات کا انتخاب اور خالق کائنات کی ہدایات پرعمل ضروری
آزاد خیال افراد کی طرف سے قانونی شادی کے خلاف جوبیانات دیے جاتے ہیں، نام نہاد ترقی یافتہ ماڈرن لوگوں کو وہ منطقی لگتے ہیں حالانکہ ایسے افکار محض نفسانی خواہشات اور خالص شخصی ترجیحات پر مبنی لغو اور بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ زندگی میری اپنی ہے تو اس میں کوئی منطق نہیں اگرچہ کہ اسے ایسا سوچنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں اس قسم کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ جب ہم اس پر سوچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ کھوکھلا اور حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ ہماری دانست میں کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اکیلا ہی سب کچھ کر سکتا ہے جو اس کی طبیعت‘ دل یا دماغ کرنا چاہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت نے کسی کو مرد یا عورت بنایا ہے لیکن دنیا کے سارے مرد اور ساری عورتیں فطرتاً ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ زندگی میں قدم قدم پر ہر انسان کو دوسرے انسانوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دنیا میں ہر فرد کو زندگی کے ہر قدم پرایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کا یہ کہنابھی غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ میری زندگی ہے میں اس کے ساتھ جو چاہے کروں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے نعرے، سماج کے دیگر افراد پر کوئی نمایاں اثر پیدا نہیں کرسکے۔ ہاں کم عقل انسان اس سے متاثر ہوسکتے ہیں، جن کی بربادی کے ذمہ دار یہ بھی ہوں گے۔ ہمیں ایسے بہکے ہوئے انسانوں کو بتانا ہوگا کہ ان کی یہ منطق بے بنیاد ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانوں کو مناسب اور جائز طریقوں سے دنیامیں ترقی کرنے کے لیے مختلف انسانوں سے قدم قدم پر آپسی تعاون، باہمی مشاورت اور خوشگوار تعلقات ضروری ہیں جس کے لیے شادی کرنا اور خاندان بسانا، نہایت ضروری اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مشہور امریکی سیاست دان اور سماجی جہد کار مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ’’مناسب شادی سے بڑھ کر دنیا میں اتنا دلکش‘ دوستانہ اور پیارا رشتہ کوئی نہیں‘‘
کچھ اہم سوالات:
(1) کیا تمام خاندان‘ خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں؟
(2) کیا شادی شدہ جوڑوں کے درمیان مسائل پیدا نہیں ہوتے؟
(3) کیا‘ معاشرے کے تمام مسائل کا حل ’’شادی‘‘ ہی ہے؟
سوالات معقول ہی ہیں اور ان کے جوابات نہایت سادہ ہیں:
اگر شادیاں مناسب عمر میں اور صحیح طریقے سے کی جائیں اور باہمی حقوق و ذمہ داریوں کو خوشی خوشی ادا کیا جائے تو یہ بیاہتا جوڑوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی دنیا میں خوشی وراحت کا باعث بنے گا اور حیات دنیاوی کے بعد یہ تعلق جنّت میں لے جائے گا ۔ اس کے لیے خود اپنے آپ کو اور تما م معاشرے کو‘ انسانوں کی دنیوی زندگی کے مقاصد سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے ‘ یعنی پرسکون‘ پرامن اور خوش حال خاندان کے قیام کے لیے کیا کیا جائے اور گھریلو ماحول کو کیسے پرسکون بنایا جائے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ اپنی شریک حیات کا انتخاب کن خصوصیات کی بنیاد پر کرتے ہیں؟ آپ کی شادی کا مقصد کیا ہے؟ آپ اپنی شادی کس انداز اور کس طریقے سے کرنا چاہتے ہیں؟ ان سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو اس رشتے کے لیے کس طرح تیار کرتے ہیں؟
سب سے پہلے نئے رشتے میں بندھنے والے دلہا اور دلہن کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر قریبی رشتہ داروں سے شادی کے انتظامات کے بارے میں مشاورت کے ذریعے معاشرے میں شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ خاندان کے زیادہ تر افراد ،شادی کے لیے ضروری کپڑے، سامان، زیورات، ڈنر اور دیگر رسومات کے لیے انتظامات میں مصروف رہتے ہیں اور کونسلنگ ٹیم کی کسی بات کو سننے کو تیار نہیں ہوتے اور خود بھی اس بارے میں کم ہی غور کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دلہن کو مشورہ دینے کی اجازت دے دیتے ہیں، جو اس مشن کے لیے کامیابی کے لیے ناکافی ہے۔ ویسے بھی خاندان کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھانے میں شوہر اور بیوی دونوں یکساں ذمہ دار ہیں، جس کے لیے انہیں بھی تیار رہنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ زوجین کے علاوہ ان کے خاندان کے قریبی رشتہ داروں کی کونسلنگ بھی ضروری ہے کیوں کہ نئے رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے‘ بگاڑنے یا توڑنے میں رشتہ داروں کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔
آگے کی منزل کا سیدھا اور صحیح راستہ:
قرآن مجید کی ہدایات اور رسول اللہ کی عملی زندگی، سارے انسانوں کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے مشعل راہ ہے جن پر ہمیں سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ رسول اللہ کی زندگی ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے براہ راست، آسان اور قابل عمل ہدایات ہیں، جن پر عمل کرنے والے چاہے اسلام کو ماننے والے ہوں یا انکار کرنے والے، یہ ہدایات ساری
انسانیت کو مہذب ، کامیاب اور ترقی پسند بنانے میں یقینا معاون و مددگار ہیں۔
قرآن مجید: سورۃ بقرہ آیت 35 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
ترجمہ: ’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی، جنت میں رہو اور بغیر روک ٹوک کے جہاں تمہارا جی چاہے کھاؤ ‘ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہوجاو گے‘‘
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی ، مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی ضرورت ہے۔ یہ خیال غلط ہے۔ قرآن کی یہ آیت اس غلط فہمی کو یکسر دور کردیتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ شادی کرنا عورت اور مرد دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے جو خالق کائنات ہے، جس نے سارے انسانوں کو پیدا کیا وہ عورتوں اور مردوں دونوں کو شادی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اب معاشرے میں رہنے والے افراد کا فرض ہے کہ خود بھی شادی کریں اور شادی کرنے والوں کی مدد بھی کریں۔قرآن مجید سورۃ نور آیت 32میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے’’۔۔۔اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیا کرو) اگر وہ مفلس ہیں تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوش حال کردے گا اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے‘‘۔ ایک حدیث میں نبی کریمؐ نے حکم دیا کہ ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ شادی کرلے کیوں کہ یہ نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ (بخاری) اس لیے نکاح کووہ فعل قرار دیا گیا ہے جس سے معاشرے میں برائیوں اور غیر اخلاقی کاموں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رض نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے ایک وہ جو اللہ کی راہ کا غازی ہو، دوسرا وہ کاتب ہے جو بدل کتابت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور تیسرا وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے‘‘ چنانچہ نکاح مومن کی زندگی میں برکت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
ایک صحت مند اور خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے صرف رواداری یا قوت برداشت ہی ضروری نہیں ہوتی بلکہ زوجین میں آپس میں محبت اور خلوص کا ہونا بھی ضروری ہے۔ابتدائی زندگی میں تووہ جسمانی طور پر ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس رشتے کو مضبوط ‘ پائیدار اور دیرپا بنانے کے لیے آپس میں خلوص محبت کا عنصر بھی شامل ہونا ضروری ہوتا ہے جو فطری طور پرآہستہ آہستہ ان شادی شدہ جوڑوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے اتار چڑھاو‘ چند غیر متوقع حالات‘ مشکلات اور مسائل پیدا ہونے پر‘ دونوں کو ایک حقیقی ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو شادی کے پاک بندھن میں بندھنے کے بعد زوجین میں پیدا ہوتی ہے۔ قدرت کا یہی ایک انمول تحفہ ہے جو وہ عطا کرتا ہے۔ ایسی ہمدردی‘ محبت اور خلوص‘ معاوضہ ادا کرکے وقتی طور پر جنسی لذت حاصل کرنے والے ساتھی یا دیگر مصنوعی ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ انسان کے اخلاق کے اعلی معیار پر زور دیتے ہوئے اور ہر قسم کے جنسی اور غیر ازدواجی تعلقات پر پابندی عائد کرتے ہوئے، قرآن اور سنتؐ ، زوجین کے درمیان محبت اور الفت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی نجی زندگی میں ازواج مطہرات کے ساتھ محبت کے اظہار کی قابل قدر مثالیں ملتی ہیں مثلاً رسول اللہ کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایک ہی برتن میں پانی پینا‘ ایک ہی برتن میں کھانا‘ ازواج کا بوسہ لینا‘ کھیل کود کے مقابلے کرنا‘ ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرنا‘ ازواج مطہرات کے ساتھ طویل سفر کرنا، بطور اللہ کے نبیؐ ، اپنے فرائض منصبی ادا کرنے اور اللہ تعالی سے قربت کے راستے میں یہ تمام کام ہرگز مانع نہیں ہوئے۔ درحقیقت آپؐ نے سکھایا کہ جب ایک آدمی نکاح کرتا ہے تو گویا اس نے اپنا آدھا دین مکمل کرلیا۔ آپؐ نے اکثر لوگوں کی اس غلط فہمی کو دور کر دیا کہ شادی کرنے سے انسان نہ خالق سے دور ہوتا ہے اور نہ اس کی روحانی زندگی منتشر ہوتی ہے بلکہ درحقیقت شادی انسانوں کو حرام کاموں میں ملوث ہونے سے روکتی ہے‘ اپنی جسمانی اور نفسانی خواہشات کی شادی کے ذریعے جائز طریقے پر مکمل کرنے پر اسے انعامات کا مستحق قرار دیا گیا۔ نبی کریمؐ نے ہمیں سکھایا کہ جب ایک آدمی نکاح کرتا ہے تو دراصل اس نے اپنا آدھا ایمان مکمل کرلیا۔ عام طور پر لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے ہمیں سکھایا کہ شادی کرنے سے کوئی انسان خالق کائنات سے دور نہیں ہوتا نہ اس کی روحانی زندگی متاثر یا منتشر ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف یہ انسا ن کے اندر حرام اور ممنوعہ کاموں سے اپنے آپ کو روکنے کی طاقت اور جذبہ پیدا کرتی ہے۔ انسان کی فطری جنسی جسمانی ضروریات کی بہتر اور جائز طریقے پر تکمیل کرنے کی ہدایت دیتی ہے۔ اسلام میں نکاح ایک معاہدہ ہے۔۔(سورہ بقرہ آیت 21)۔ زوجین کے درمیان یہ معاہدہ یکطرفہ نہیں ہے بلکہ اس میں دونوں فریق کے حقوق کے ساتھ ان پر ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔ بغیر شادی کے آزادانہ جنسی تعلقات استورکرنے کے برخلاف، شادی یا نکاح ایک ایسا پاکیزہ رشتہ یا بندھن ہوتا ہے جو قیامت کے بعد جنت میں بھی قائم رہتا ہے۔ ان رشتوں میں زوجین دنیا میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتے‘ غیر یقینی حالات کا شکار نہیں ہوتے‘ ایک دوسرے کے متعلق غلط فہمیاں پیدا نہیں ہوتیں۔ ایک مسلمان کے لیے رشتہ ازدواج کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں کیوں کہ خالق کائنات کو ازدواجی رشتے توڑنا سخت ناپسندہے‘ اسے کام سے نفرت ہے۔ اگر کسی وجہ سے زوجین میں آپس میں نااتفاقی پیدا ہو جائے اور وہ کسی صورت میں علیحدگی ہی چاہتے ہیں تو زوجین کو شادی کا یہ معاہدہ ختم کرنے کا حق بھی حاصل ہے اور گنجائش بھی۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب زوجین نے اسلامی طریقے سے نکاح کیا ہو۔ عموماً زوجین کے درمیان ایسے ناگزیز حالات بہت کم پیدا ہوتے ہیں ورنہ بغیر شادی کے آزادانہ جنسی بے راہ روی کی زندگی گزارنے والوں میں علیحدگی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ عموماً ان ناجائز رشتوں میں عورت اور مرد کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں، خاتون کے قتل کے بعد ہی یہ تعلقات ختم ہوتے ہیں۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ’’عورت سے شادی چار وجوہات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ دولت، حیثیت، خوبصورتی اور دین داری۔ لہذا دین دار عورت کا انتخاب کرو‘ تم فلاح پاوگے‘‘ (ابن ماجہ)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے سب سے پہلا نکتہ دونوں کا دین دار ہونا ضروری ہے نہ کہ مال و دولت وجائیداد، نہ ظاہری خوبصورتی نہ دیگر چیزیں، جن کی بنیاد پر عموماً لوگ رشتے کرتے ہیں۔ سنت کی ہدایت کے مطابق طے پانے والے رشتے پائیدار اور مشترکہ اقدار کے ساتھ ساتھ مقدس بھی ہوتے ہیں۔ دین اسلام میں شادیاں کرنے کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ آج کل ہونے والی شادیوں میں جس قسم کا اصراف ہوتا ہے وہ اسلامی ثقافت کے لیے بالکل اجنبی ہے اور دینی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔ نکاح کی تقریب کو خالص خاندانی تقریب کے طور پر سادگی کے ساتھ منائیں‘ کسی بھی صورت میں تاجر پیشہ ایونٹ مینجمنٹ ٹیم کے جھانسے میں نہ آئیں، اس کام میں امیر‘ متمول اور بااثر خاندانوں کو آگے بڑھ کر دوسروں کے لیے مثال پیش کرنی چاہیے۔
یہاں پریہ بات قابل غور ہے کہ اسلام میں دلہن یا اس کے والدین یا سرپرستوں کو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نکاح کے موقع پر دلہا کو اپنی ہونے والی دلہن کی دلجوئی اور اطمینان کے لیے خود کوئی قیمتی چیزیا نقد رقم تحفے میں دینی ہوتی ہے جسے عام طور پر حق مہر کہتے ہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر، لڑکی یا اس کے والدین یا سرپرستوں کو‘ لڑکی کی شادی کے لیے لڑکے والوں کو کوئی جہیز اور دیگر گھریلو ساز و سامان دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ نئے بیاہتا جوڑے کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے انہیں خلوت کا ماحول فراہم کرنا یہ لڑکے کے والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کی زندگی میں کسی بھی طرف سے کسی قسم کی دخل اندازی نہیں ہونی چاہیے ۔ نوشہ کے والدین، بھائی بہن اور دیگر رشتہ دار اور دوست احباب کو بھی اپنے طور پر احتیاط برتنی چاہیے ۔نئے دلہا دلہن ایک دوسرے کے اندر خوبیاں تلاش کریں اور انہیں پر نظر رکھیں، منفی پہلووں کو ہر قیمت پر نظر انداز کریں۔ قرآن کی ہدایات کے مطابق‘ ازدواجی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کرنے کی جستجو کریں۔ ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ ایک نہایت مفید’ کارآمد اور نفسیاتی طریقہ ہے۔ ہر صورت میں انصاف کے پہلو کو ملحوظ رکھیں۔
’’سورۃ النساء: آیت 19) اے ایمان والو! تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاو اور عورتوں کو اس نیت سے روکو نہیں کہ جو مہر تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو سوائے اس صورت میں کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے‘‘۔
اسلام نے سکھایا ہے کہ شادی شفقت اور رحم دلی کے ذریعے روحانی‘ جذباتی اور جسمانی ضروریات کے حصول کا صحیح راستہ ہے۔ اس ضمن میں قرآن اور سنت نے واضح ہدایات دی ہیں۔
ممکن ہے کوئی تعجب کا اظہار کرے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے نماز، روزہ اور حج کی عبادات سے کہیں زیادہ خاندان کے افراد کے ساتھ معاملات پر بیشتر آیات نازل کی ہیں۔ درحقیقت اسلام ہماری خاندانی زندگی کو بھی ایک عبادت کے طور پر گزارنے کی ہدایت دیتا ہے گویا اسلامی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنا بھی ایک عبادت ہی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس عنوان پراس چھوٹے سے مضمون میں تمام موضوعات شامل نہیں کیے جاسکتے۔
مختصر یہ کہ شادی یا نکاح محض دو جسموں کا ملاپ نہیں ہے بلکہ یہ جوڑے دونوں جہانوں کے لیے بن جاتے ہیں جو دو ذہنوں‘ دو جسموں اور دو روحوں کا ملاپ ہے۔ ان جوڑوں میں مختلف ثقافتی‘ تہذیب و تمدن والے دو خاندانوں کی مشترکہ خصوصیات شامل رہتی ہیں۔ ایک غیر خاندان سے بیاہ کر آنے والی خاتون کو نئے گھر میں اس کا صحیح مقام دینا چاہئے تاکہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ زندگی گزارنے کو آسان، سہل اور سب کے لیے سازگار ماحول مہیا ہو۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کیا جائے کہ شادی سے پہلے دہلا اور دلہن کے علاوہ خاندان کے دیگر ذمہ دارافراد کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی مشاورت ہونی چاہئے۔ موجودہ معاشرے میں خاندان کے افراد کے درمیان جو بھی مسائل ہوں، ہر حال میں خاندانی نظام ہی قائم رہنا چاہیے کیوں کہ خاندانی نظام کے دیگر متبادل‘ مصنوعی ہیں جھوٹے ہیں، ناپائیدار ہیں اور غیر منطقی بھی جو نوجوانوں کو یقین دلانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ کسی بھی صورت میں وہ شادی کے بندھن میں نہ پھنسیں۔ ہم کہتے ہیں کہ موجودہ خاندانی سماج، باقی اور قائم رہنا چاہئے اور انسانی شادیوں کی یہی طریقہ قیامت تک آنے والی نسلوں تک رائج رہنا چاہیے۔ آج کے مروجہ خاندانی سماج میں‘ بزرگوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں کی بھی مدد اور ان کی دیکھ بھال کی گنجائش رہتی ہے جو حقیقی طور پر کسی مجبوری‘ جسمانی کمزوری،نقص، معذوری یاکسی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے لوگ ان سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں اور مجرد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آخر میں اتنا ضرور کہنا ہے کہ خالق کائنات کی ہدایات پر عمل کریں اور اپنے تمام مسائل اور معاملات کو حل کرنے کے لیے سنت سے رجوع کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں امن و سکون کا ماحول برقرار رہے اور آخرت میں بھی ہم کامیاب ہوں۔خاندان کا وجود درحقیقت ہمارے سماج کا ایک فطری‘ عملی‘ سیدھا سادہ‘ آسان اور متوازن نظام حیات ہے جس میں ہر فرد کے لیے سکون اور ترقی کا سامان موجود ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ مرنے کے بعد بھی ہماری دائمی زندگی کا دروازہ بھی یہی ہے۔
ایک انگریزی ناول نگار جارج ایلیٹ کا کہنا ہے کہ دو انسانی روحوں کے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہوگی کہ وہ یہ محسوس کریں کہ وہ زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی اور روحانی طور پر جڑے رہے، ہر طرح کی مشقت میں، ایک دوسرے کو تقویت دینے کے لیے ، دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کے لیے ، خاموش اور ناقابل بیان یادوں کے سہارے‘ آخری سانسوں تک ایک دوسرے کی خدمت کرتے رہے۔(ختم شد)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024