گزشتہ سے پیوستہ:اکیسویں صدی کے طلباء کے لیے مطلوب صلاحیتیں
مسابقت کی دنیا میں طلبہ کو اختراع، تنقیدی نقطہ نظر، اشتراک اور رابطے کا ہنر پیدا کرنے کی ضرورت
سید تنویر احمد
کمیونی کیشن کے ہنر کو صدی کی صلاحیت کا درجہ حاصل،طلباء اس صلاحیت میں ضرور کمال حاصل کریں
اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ’’میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (ایم آئی ٹی) اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے مل کر چند ایسے ہنر اور صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے جنہیں طلباء میں پیدا کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ یہ صلاحیتیں طلباء کو بدلتی دنیا اور سماج میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔پچھلے شمارہ میں اختراعی صلاحیت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی تھی اور ذیل میں اس سے آگے کا مضمون پیش کیا گیا ہے۔
(2)-تنقیدی نقطہ نظر (crticial thinking):۔ دوسری اہم صلاحیت جو اکیسویں صدی چاہتی ہے وہ ہے تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت ۔ آج ایک فرد کے سامنے کئی حالات رونما ہو رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کی وجہ سے وہ اس کے یلغارکے درمیان زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے کانوں میں پڑنے والی ہر صدا اور اس کے اسمارٹ فون کے اسکرین پر دکھائی جانے والی تمام ویڈیوز کو اگر وہ سچ ماننے اورسچ تصور کرنے لگتا ہے تو اس کی زندگی بہت ممکن ہے کہ غلط راستے پر چلی جائے اور اگر ایک فرد اس انفارمیشن کو سچ تصور کر کے فیصلے کرنے لگے تو وہ بڑی پریشانی سے دوچار ہو سکتا ہے۔آج کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ معلومات (information) کو استعمال کرنے سے پہلے انفارمیشن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ صرف معلومات ہی کا جائزہ نہیں بلکہ افراد، تاریخ، حکمت عملیاں (policies) فیصلوں، مصنوعات، خدمات اور اس طرح وہ تمام عمل جو فرد یا سماج کو متاثر کرتے ہیں ان کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔
تنقیدی سوچ (critical thinking) کو بعض لوگ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہر عمل کو دوسرا فرد گویا شک کی نگاہ سے دیکھے ۔یہاں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی واقعہ یا حقیقت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے بلکہ اس کی صحیح تشریح یہ ہے کہ حالات و واقعات اور انفارمیشن کو حقیقت کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے چیزوں اور واقعات کوان کی ماہیت سے ناپنے اورپرکھنے کی دعا سکھائی ہے۔
الھم ارنی حقائق الاشیاء کما ھی (اے اللہ، مجھے اشیا کی حقیقت سے آگاہ کر)
آج یہ صلاحیت مطلوب ہے۔ اگر ہم طلباء کے درمیان اس صلاحیت کو فروغ دیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں اور طلباء کو تنقیدی جائزہ (critical thinking) کی طرف ابھارتے ہیں تو کئی ایسے تصورات جو توہم پرستی کی بنیاد پر قائم ہیں اور جھوٹ کی بنیاد پر گڑھی گئی تاریخ، نفرت کو فروغ دینے والے محاکات (narratives) ہیں، ان تمام کے مقابلے کے لیے یہ صلاحیت بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ تنقیدی جائزہ (critical thinking) قرآن اور اسلام کی بنیادی روح (spirit) ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں سے بندگی، آنکھیں کھول کر ہوش و حواس کے ساتھ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ تنقیدی فکر (critical thinking) کی سب سے واضح اور بڑی مثال حضرت ابراہیمؑ کی سیرت ہے۔
تنقیدی نقطہ نظر آج بڑے عہدے اور ذمہ داریوں پر فائز افراد کے لیے ایک ضروری اور لازمی صفت بن گئی ہے۔ یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی کے لیے تنقیدی نقطہ نظر ایک اہم امر ہے ۔
تنقیدی نقطہ نظر انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ناگزیر عمل ہے، چاہے کامیابی دینی معاملات کی ہو یا دنیاوی معاملات کی۔ تنقیدی نظر، کل بھی اہم تھی آج بھی اہم ہے اور مستقبل میں بھی یہ اہم کردار انجام دے گی۔ اس لیے طلباء میں تنقیدی نظر کا پیدا کرنا لازم ہے۔ تنقیدی نظر پیدا کرنے کے لیے آج مختلف طریقہ کار اور ماڈیولز (modules) وضع کیے گیے ہیں جنہیں اختیار کرکے اسکول والے طلباء کے درمیان مدبرانہ نظر کو پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آئی بی بی (انٹرنیشنل بیکولیرٹ بورڈ ) (international baccalaureate) کے تحت جو اسکول چل رہے ہیں، ان میں اس صفت کو طلباء کے اندر پیدا کرنے کے لیے خاص توجہ دی جاتی ہے۔
اشتراک: (collaboration) طلباء کے درمیان اشتراک اور باہمی تعاون کی صفت کو اکیسویں صدی کی اہم صلاحیتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہ صفت ہے جس کے ذریعے طلباء ایک دوسرے کے ساتھ معاونت اور باہمی اشتراک کے ذریعے کسی عمل کو انجام دینے کی صفت اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ غالباً اس صفت کو اکیسویں صدی کی صلاحیتوں میں اس لیے بھی شامل کیا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں کی بہ نسبت موجودہ دور میں ایک فرد اپنے طور پر انفرادی طرز عمل کی جانب مائل ہے۔ گزشتہ برسوں کی بہ نسبت ایک دوسرے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت کم محسوس کی جا رہی ہے۔ فرد ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ افراد کا ایک دوسرے سے باہمی ربط کم ہو رہا ہے۔ مجازی دنیا (virtual world) ٹیکنالوجی کے
ذریعے اپنی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ افراد کا ایک دوسرے سے باہمی ربط کم ہو رہا ہے۔ مجازی دنیا یا ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی گئی دنیا میں انسان زندگی بسر کر رہا ہے۔
اب تو کم عمر بچے اپنے والدین کو صبح کا سلام فیس بک، انسٹاگرام یا اسی طرح کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھیج دیتے ہیں۔ گھر بیٹھے ساری ضرورتیں بہ آسانی پوری ہو رہی ہیں۔ ایک فرد کا دوسرے فرد سے رابطہ بہت کم ہو رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں باہمی اشتراک، رابطہ، تعاون کو فروغ دینا ایک اہم انسانی ضرورت بن گئی ہے ۔ دوسری جانب اکیسویں صدی میں یہ مانا گیا ہے کہ دنیا کے کاموں میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت بھی ضروری ہے۔ بڑے کام اور پروجیکٹس (proejcts) باہمی اشتراک اور اجتماعی عمل (team work) کے ذریعے ہی انجام پاتے ہیں۔ آج دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ ہاؤسس (corporate houses) بڑی تعداد میں ملازمین کا تقرر کر رہے ہیں اور یہ تقرریاں بین الاقوامی پیمانے پر ہورہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اصطلاح جدید زمانے کی دین ہے ۔ کسی زمانے میں بڑی فیکٹریاں اپنے ملازمین کی تقرریاں ان ہی علاقوں میں کرتی تھیں جہاں ان کی رہائیش ہوا کرتی تھیں لیکن اب ایک کمپنی کے لیے ملازمین مختلف شہروں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔لہٰذا ان کے درمیان اشتراک اور تعاون پیدا کرنا کمپنی کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں باہمی تعاون و اشتراک کی صفت یوں تو مارکیٹ کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ صفت ایک اہم اسلامی صفت ہے۔ حکم الٰہی ہے کہ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔مل جل کر کام کرنے کی صفت کو طلباء میں پیدا کرنا ملت کے اسکولوں کا اہم ایجنڈا ہونا چاہیے ۔ عام طور پر سماج یہ حقیقت پیش کر رہا ہے کہ ملت میں اشتراک و تعاون کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ مطلوبہ معیار پر نظر نہیں آتا ۔نہ تو ہم اشتراک کے ذریعے بڑی کمپنیاں قائم کر رہے ہیں اور نہ ہی خدمت کے بڑے ادارے اور بڑی تنظیمیں۔ ایسی صورت حال میں اس صفت کی آب یاری بچپن ہی سے ضروری ہے ۔باہمی اشتراک کی صفت ایک کامیاب خاندان چلانے سے لے کر ایک ملک کو چلانے تک کے لیے لازمی ہے۔
چوتھی صفت communication (رابطہ) :
چوتھی اہم صلاحیت جو فی زمانہ درکار ہے وہ ہے کمیونیکیشن یا رابطے کا ہنر۔ یوں تو اسے اکیسویں صدی کی مطلوبہ صلاحیتوں میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہ ایک ایسی انسانی صلاحیت ہے جس کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات بنانے میں کلام کی صلاحیت کو اہم مقام حاصل ہے۔اس لیے انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔بہترین رابطے کے لیے کسی بھی فرد میں تین عناصر کا ہونا ضروری ہے۔ وہ تین عناصر یہ ہیں۔
۱۔ کلام کی صلاحیت ۔ ۲۔ تحریر کی صلاحیت ۳۔ لہجہ، اسلوب، انداز
(باڈی لینگویج)
یقینا رابطے کے لیے انسان سب سے زیادہ زبان کا استعمال کرتا ہے اس کے بعد تحریر کا لیکن ماہرین نفسیات کی یہ رائے ہے کہ اسی فیصد رابطہ باڈی لینگویج کے ذریعے ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بہت کم ان تین عناصر کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہے ۔ بالخصوص لب و لحجہ کی تربیت کا انتظام نہیں کے برابر ہے۔ بولنے کی صلاحیت میں مناسب الفاظ کا استعمال اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے بہترین مکالمہ کرنے والے کے پاس الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔الفاظ کا ذخیرہ یعنی (vocabulary) بہترین رابطے کے لیے اہم جز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس ڈیجیٹل ورلڈ میں طلباء کی اپنی vocabulary وجود میں آئی ہے جو زبان کے معیار مطلوب سے بہت کم تر ہے۔ ذخیرہ الفاظ کی کمی کی وجہ سے طلباء میں مطالعہ کا ذوق کم ہو رہا ہے اور اسی کم زوری کی بنا پر طلباء کسی عنوان پر برجستہ دس جملے بمشکل بول پاتے ہیں۔
یہ دور علم کا دور ہے۔ علم کے میدان میں انسان نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود تعلیم یافتہ افراد کا بھی ایک بڑا طبقہ رابطے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ علم کا حصول ایک الگ صلاحیت ہے اور رابطے کا ہنر چند ایک تقاضے چاہتا ہے-
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ لوگ گفتگو کو ہی رابطے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
طلباء مختلف ڈگریاں تو حاصل کر رہے ہیں لیکن ان کے اندر کمیونیکیشن کی صلاحیت نشو نما نہیں پا رہی ہے۔ طلباء اپنے مافی الضمیر بیان کرنے کی صلاحیت پانے سے قاصر ہیں۔ وہ نہ تو تقریر کے ذریعے ما فی الضمیر کو ادا کر سکتے ہیں نہ ہی تحریر کے ذریعے ۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں تحریر کی صلاحیت تو اور بھی کم زور ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں کمیونیکیشن کی صلاحیت کو صدی کی صلاحیت میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ صلاحیت فرد کو سماجی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے ۔ بزنس کے شعبے میں تربیت کا کام کرنے والے ماہرین میں سے بین الاقوامی سطح پر دو اہم شخصیات ہیں ایک ہیں ڈاکٹر ڈیموتھی اور دووسرے ہیں ڈاکٹر بٹلر ۔ یہ دونوں ہارورڈ بزنس اسکول کے شعبے نفسیات میں پروفیسر ہیں۔ یہ جہاں شعبے میں تعلیم و تدریس کا کام انجام دیتے ہیں وہیں بڑے بزنس اداروں
کے اونچے عہدوں پر فائز ایگزے کی تربیت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں انہوں نے ایک بہت مشہور کتاب کو تحریر کیا ہے جو اس وقت کی بیسٹ سیلر کتاب تھی۔ کتاب کا عنوان ہے
(The Twelve Bad Habits that Hold good People Back)
مذکورہ شہر آفاق کتاب میں انہوں نے ان دونوں ماہرین نے ان صلاحیتوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے کسی فرد میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ تجارت کی اونچائیوں پر پہنچنے کے قابل نہیں ہوتا یا پہنچ نہیں پاتا۔ ان صلاحیتوں میں اول نمبر پر کمیونیکیشن کی صلاحیت کو ہی رکھا ہے۔
لہذا ہماری نسل کو اگر ہم اس زمانے میں دینی اور دنیوی اعتبار سے کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو طلباء میں بولنے کی اور تحریر کرنے کی صلاحیت کو پیدا کریں ۔بولنے کی صلاحیت ایک فرد کو اپنے فرض منصبی اور داعی گروہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فریضہ دعوت انجام دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج بالخصوص ملت کے نوجوانوں میں کمیونیکیشن کی صلاحیت بہت کم زور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اخبارات میں لکھنے والوں کی کمی ہے اور ٹی وی چینل (TV Channels) کے مختلف بحثوں میں حصہ لینے والوں کی بھی کمی ہے۔ تحریر اور تقریر کی صلاحیت میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے تربیت چاہیے ۔ اس تربیت کا انتظام ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں ہونا چاہیے۔ بعض دینی مدارس میں مکالمہ بازی اور تقریر کی تربیت دی جاتی ہے۔ لیکن عصری تعلیم کے اسکولوں میں تقریر اور تحریر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کا باضابطہ انتظام نہیں کے برابر ہے۔ اس لیے ہمارے نوجوان نہ تو اپنی مادری زبان میں صحیح گفتگو کر سکتے ہیں، نہ مقامی زبان میں اور نہ ہی انگریزی زبان میں ہی کرسکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے اسکولز اور سماج خاص توجہ کریں۔
***
***
بڑے کام اور پروجیکٹس(proejcts) باہمی اشتراک اور اجتماعی عمل (team work) کے ذریعے ہی انجام پاتے ہیں۔ آج دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ ہاؤسس (corporate houses) بڑی تعداد میں ملازمین کا تقرر کر رہے ہیں اور یہ تقرریاں بین الاقوامی پیمانے پر ہورہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اصطلاح جدید زمانے کی دین ہے۔ کسی زمانے میں بڑی فیکٹریاں اپنے ملازمین کی تقرریاں ان ہی علاقوں میں کرتی تھیں جہاں ان کی رہائش ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب ایک کمپنی کے لیے ملازمین مختلف شہروں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان اشتراک اور تعاون پیدا کرنا کمپنی کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں باہمی تعاون و اشتراک کی صفت یوں تو مارکیٹ کی ضرورت سمجھی جاتی ہے لیکن یہ صفت ایک اہم اسلامی صفت ہے ۔حکم الٰہی ہے کہ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔مل جل کر کام کرنے کی صفت کو طلباء میں پیدا کرنا ملت کے اسکولوں کا اہم ایجنڈا ہونا چاہیے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024