گزشتہ سے پیوست: غزہ:بربادی کی بھیانک تصویر

اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک کے حالات کا اجمالی تذکرہ

خبیب کاظمی

غزہ کی واقعاتی تاریخ: ٹائم لائن کا خلاصہ
(7 اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک کے اہم واقعات کی ٹائم لائن)
اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک کی ٹائم لائن غزہ میں ہونے والے اہم واقعات کی عکاسی کرتی ہے، جو انسانی بحران، بین الاقوامی تنازعات، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک پیچیدہ منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ یہ سلسلہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی حملوں نے فلسطینی عوام کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے اور عالمی برادری کی جانب سے سامنے آنے والی مختلف ردعمل کو بیان کرتا ہے۔
اکتوبر 2023 میں فلسطینی مزاحمت کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فوجی اہداف پر ایک مؤثر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں قابض دفاعات میں ابتدائی شکست ہوئی۔ اسرائیلی فوج نے "ہنی بال ہدایت” کا استعمال کرتے ہوئے کئی فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں کو بھی ہلاک کیا۔ اس دن کے دوران تقریباً 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر فوجی تھے، لیکن بے گناہ شہری بھی اس کے نشانے پر آئے۔ 200 سے 250 افراد یرغمال بنائے گئے۔
7اکتوبر کو غزہ پر جوابی فضائی حملے شروع ہوئے اور مکمل محاصرہ لگایا گیا۔ 9 اکتوبر کو یاسین مسجد ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گئی، جب کہ 12 اکتوبر کو اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث غزہ کی واحد بجلی گھر بند ہو گیا، جس نے اسپتالوں اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے پر شدید اثر ڈالا۔ 13 اکتوبر کو اسرائیل نے ایک ملین غزہ سٹی کے رہائشیوں کو جنوبی جانب منتقل ہونے کا حکم دیا، جس نے بے گھر ہونے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔
آگے بڑھتے ہوئے، 20 اکتوبر کو جامع مسجد العمری کو نشانہ بنایا گیا اور 21 اکتوبر کو حماس نے پہلے گروہ کے یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔ 23 اکتوبر کو رفح بارڈر کراسنگ سے کچھ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے جہاں خوراک، پانی، دوائیں اور ایندھن کی کمی نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا۔
نومبر 2023 میں قطر کے وزیر خارجہ نے جنگ بندی کی اہمیت پر زور دیا، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے 21,000 بچوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات فراہم کیں۔ دسمبر 2023 میں، غزہ میں 25 سال بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا، جس پر فوری ویکسینیشن مہم شروع کی گئی۔
جنوری 2024 میں مہلک فضائی حملے جاری رہے، جس میں درجنوں فلسطینی ہلاک ہوئے، جس کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو امداد فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اپریل 2024 میں انسانی حقوق کے کارکنان نے اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا، جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے روس کے دورے کا اعلان کیا۔
اگست 2024 میں اسرائیلی فضائی حملوں نے متعدد اسکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ یورپی ممالک نے اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں کی فروخت میں عارضی طور پر روک لگائی۔ ستمبر 2024 میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور مظاہرین نے صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی، جبکہ اوکسفیم نے غزہ میں ہلاک ہونے والے خواتین اور بچوں کی تعداد کو تاریخی قرار دیا۔
یہ مختصر ٹائم لائن فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتی ہے، جس میں ان کی جانیں، صحت اور انسانی بنیادی حقوق داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ تمام واقعات عالمی برادری کی طرف سے مزید توجہ اور اقدام کی ضرورت کی علامت ہیں۔
ٹائم لائن کے تحت واقعات کی فہرست کافی طویل ہے، طوالت سے بچتے ہوئے اس کا مختصر خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلی رپورٹ پڑھنے اور تصاویر دیکھنے کے لیے دیے گئے بار کوڈ کو اسکیان کیجیے ۔
اختتامی کلمات:
اس وقت غزہ میں جاری انسانی بحران نہ صرف فلسطینی عوام کی زندگیوں کو برباد کر رہا ہے بلکہ پوری عالمی برادری کے سامنے ایک اخلاقی امتحان بن چکا ہے۔ ایسے وقت میں انسانی ہمدردی، انصاف اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ مگر بحیثیت مسلمان، ہمارا ایمانی تقاضا یہ ہے کہ ہم نہ صرف زبانی ہمدردی کریں بلکہ امتِ محمدیہ کے ایک فرد کی حیثیت سے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے کچھ عملی اقدام کی سوچیں۔
اسلام ہمیں مظلوم کا ساتھ دینے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ ہمیں فلسطینی عوام کے لیے صدقہ، دعا اور جس حد تک ممکن ہو مدد فراہم کرنی چاہیے۔ ان کی مشکلات کا احساس دل میں زندہ رکھنا اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہمارا اخلاقی و دینی فرض ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دلوں میں امتِ واحدہ کا تصور زندہ کریں، امن کی دعا کریں، اور انسانی حقوق کے احترام کی عملی مثال خود بھی پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس فرض کو پوری صداقت اور ایمان کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے تمام مظلومین کے حق میں ہماری آواز کو مضبوط اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
( اس رپورٹ کا مرکز اور اس کے اعداد و شمار رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر (المركز الملكي للبحوث والدراسات الإسلامية – مبدیٰ- MABDA) نے جمع کیے ہیں جو اردن کے دارالحکومت عمان میں واقع ایک غیر سرکاری، خود مختار اور معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔
مسجد العمری، مسجد احمد یاسین اور مسجد سید الہاشم جیسے تاریخی مقامات جو صدیوں سے مقامی آبادی کے مذہبی جذبات کا مرکز رہے ہیں، اسرائیلی حملوں کے باعث ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو گئے۔ البنیان مسجد، الکتبیہ مسجد اور الابرا مسجد کی چھتیں اور دیواریں گر گئیں اور ان کے محراب اور مینار جو فنِ تعمیر کی عکاسی کرتے تھے، مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جامع علاء الدین محمد، جامع السوسی، جامع الابرار، جامع التقویٰ اور دیگر مساجد کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ خان یونس کی جامع الریاض، جامع الفاروق اور جامع النور کی عبادت گاہیں اور گنبد گرائے گئے، جب کہ جامع الخلفاء اور جامع القدس کو بھی انہدام کا سامنا رہا۔
غزہ کے قدیم گرجا گھروں میں سے سینٹ پورفیریوس چرچ (Saint Porphyrius Church) بازنطینی چرچ (Byzantine Church) اور ہولی فیملی چرچ (Holy Family Church) کو بھی فضائی حملوں میں بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ سینٹ ہیلاریون (Saint Hilarion Monastery) جو مشرق وسطیٰ کا تاریخی ورثہ سمجھا جاتا ہے، اس کا قدیم ورثہ بھی جنگ کی زد میں آ گیا۔ ان گرجا گھروں پر حملے نے عیسائی برادری کو شدید متاثر کیا اور ان کی روحانی جگہوں کو نقصان پہنچایا۔
تاریخی ورثے کی بربادی:
یہ مقامات نہ صرف عبادت کے مراکز تھے بلکہ غزہ کی تاریخ کا اہم حصہ بھی تھے۔ جامع العمری الکبیر، جامع النصر اور مسجد ابن عثمان، جو صدیوں پرانی یادگاریں تھیں، برباد ہو گئیں۔ مسجد شیخ زکریا جو 800 سال پرانی مسجد تھی، اور مسجد شمعہ جو 1315 میں تعمیر ہوئی، اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکی ہیں۔ ان مقامات کی تباہی نے غزہ کے تاریخی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
روحانی اور معاشرتی نقصان:
غزہ کے عوام کے لیے یہ مساجد و گرجا گھر نہ صرف عبادت کی جگہیں تھیں بلکہ ان کی روحانی اور معاشرتی زندگی کا لازمی حصہ بھی تھیں۔ ان عبادت گاہوں کی تباہی نے ان کے دلوں میں ایک نہ بھرنے والا خلا پیدا کر دیا ہے۔
غزہ میں تعلیمی اداروں کی تباہی : ایک نسل کے خواب بکھر گئے
تعلیم کسی بھی معاشرے کی تعمیر کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔ یہ قوموں کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے، نوجوان نسل کو شعور، آگہی اور ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ غزہ کے تعلیمی ادارے نہ صرف علم کا مرکز ہیں بلکہ امن و امید کی علامت بھی ہیں۔ یہ ادارے ایک ایسے علاقے میں نئی نسل کو روشن مستقبل کی امید دیتے ہیں، جہاں ہر طرف خوف اور عدم استحکام کا سایہ ہے۔
اکتوبر 2023 کی جنگ میں غزہ کی سرزمین پر ایک بار پھر وہ سانحہ پیش آیا جس نے تعلیم کی اس شمع کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ علم کی روشنی بکھیرنے والے یہ ادارے، جنہوں نے لاکھوں طلباء کو اپنے آغوش میں تعلیم دی، بے رحم بمباری کی زد میں آئے اور ان کی عمارتیں جل کر خاکستر ہوگئیں۔
1) اسلامک یونیورسٹی آف غزہ: علم و امن کا خواب منتشر
اسلامک یونیورسٹی آف غزہ جو غزہ کا سب سے بڑا اور اہم تعلیمی ادارہ ہے، اس کو متعدد فضائی حملوں نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اس عظیم یونیورسٹی کی عمارتیں جو ہزاروں طلبہ کے لیے علم کا منبع تھیں، شدید بمباری کا شکار ہوئیں۔ اس حادثے نے طالب علموں کے مستقبل پر تاریکی کا سایہ ڈال دیا اور ان کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ہے۔
2) الاقصیٰ یونیورسٹی: علم کا چراغ بجھ گیا
الاقصیٰ یونیورسٹی کا مرکزی کیمپس، جس میں لیکچر ہالز، دفاتر اور لائبریریاں شامل تھیں، تباہی کی زد میں آیا۔ اس نقصان کے نتیجے میں تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوگئیں اور ہزاروں طالب علم تعلیمی میدان سے محروم ہوگئے۔ یہ تباہی تعلیمی نظام کی جڑوں کو ہلا دینے والی ہے۔
3) یونیورسٹی کالج آف اپلائیڈ سائنسز: ہنر و تربیت کا نقصان
یونیورسٹی کالج آف اپلائیڈ سائنسز (University College of Applied Sciences) جو تکنیکی و پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے جانا جاتا ہے، بمباری کی لپیٹ میں آگیا۔ اس نقصان نے ان طالب علموں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جو تکنیکی میدان میں اپنی مہارتیں بڑھانا چاہتے تھے۔
4) القدس اوپن یونیورسٹی: ایک روشن مستقبل کا خواب بکھرا
القدس اوپن یونیورسٹی کی غزہ برانچ کو بھی شدید نقصان پہنچا، جہاں پر لیکچر ہالز، کمپیوٹر لیابس اور لائبریریاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ یہ نقصان اس بات کی گواہی ہے کہ جنگ نے علم کی روشنی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا اثر غزہ کے نوجوانوں کے مستقبل پر پڑے گا۔
5) غزہ یونیورسٹی اور فلسطین ٹیکنیکل کالج: تعلیمی ادارے زیرِ حملہ
غزہ یونیورسٹی اور فلسطین ٹیکنیکل کالج جو انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی تعلیم فراہم کرنے والے اہم ادارے تھے، تباہی سے بچ نہ سکے۔ ان اداروں کا نقصان تعلیمی میدان میں ایک بڑا نقصان ہے، جو غزہ کے نوجوانوں کو مستقبل میں ترقی کے مواقع سے محروم کر سکتا ہے۔
6) الازہر یونیورسٹی – غزہ: علم و آگہی کا مرکز
الازہر یونیورسٹی بھی بمباری کی زد میں آئی جس میں اہم عمارتیں، انتظامی بلاک، سائنس و ٹیکنالوجی فیکلٹیز اور طلبہ کے ہاسٹل تباہ ہوگئے۔ یہ وہ ادارہ تھا جہاں مختلف شعبہ جات میں تحقیق و تربیت کا سلسلہ جاری تھا، مگر اب وہاں صرف ملبے کے ڈھیر باقی رہ گئے ہیں۔
7) یونیورسٹی کالج آف اپلائیڈ سائنسز (UCAS): سائنس و انجینئرنگ کے مراکز برباد
نومبر 2023 میں یونیورسٹی کالج آف اپلائیڈ سائنسز پر گولہ باری کی گئی، جس نے کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو بری طرح متاثر کیا۔ یہ نقصان طلبہ کے تعلیمی سلسلے میں بڑی رکاوٹ کا باعث بن گیا ہے۔
8) فلسطین ٹیکنیکل کالج: تربیتی ادارے کی بربادی
نومبر 2023 میں فلسطین ٹیکنیکل کالج بھی شیلنگ کی زد میں آیا جس کے نتیجے میں تکنیکی تربیت کی سہولیات تباہ ہوگئیں۔ یہ ادارہ ان طلبہ کو عملی تربیت فراہم کرتا تھا جو فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں مہارت حاصل کر رہے تھے۔
9) غزہ یونیورسٹی: انتظامی عمارت اور طلباء کی سہولتوں کو نقصان
دسمبر 2023 میں غزہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا جس میں اس کی مرکزی انتظامی عمارت اور طلبہ کے لیے فراہم کردہ سہولیات کو شدید نقصان پہنچا۔ اس تباہی نے تعلیمی تسلسل کو ختم کر دیا اور طلبہ کو ذہنی طور پر متاثر کیا۔
10) اسراء یونیورسٹی: عارضی حراستی مرکز اور تباہی
جنوری 2024 میں اسرائیلی فوج نے اسراء یونیورسٹی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اس سے قبل اس ادارے کو فلسطینی قیدیوں کو عارضی حراستی مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ یہ نقصان غزہ کی تعلیمی تاریخ پر ایک سیاہ داغ بن کر رہ گیا۔
11) الاقصیٰ یونیورسٹی: علومِ انسانی اور تعلیم کا زوال
جنوری 2024 میں غزہ شہر میں الاقصیٰ یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کو ایک فضائی حملے میں نقصان پہنچا۔ اس سانحے میں علومِ انسانی اور تعلیم کی فیکلٹیز متاثر ہوئیں جس نے ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی خوابوں کو تاریکی میں دھکیل دیا۔
12) یونیورسٹی آف فلسطین: انتظامی دفاتر اور کلاس رومز کا نقصان
جنوری 2024 میں یونیورسٹی آف فلسطین پر بھی فضائی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں کیمپس کی کلاس رومز اور انتظامی دفاتر کو نقصان پہنچا۔ یہ سانحہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب طلبہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مگن تھے۔
13) کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی – خان یونس: لیبارٹریز اور تعلیمی تسلسل میں خلل
فروری 2024 میں خان یونس کے کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس نے لیبارٹریز اور کلاس رومز کو بری طرح متاثر کیا۔ اس نقصان سے طلبہ کی عملی تربیت میں کافی رکاوٹ آئی۔
14) فلسطین پولی ٹیکنک یونیورسٹی (PPU) غزہ برانچ: انجینئرنگ فیکلٹی کا نقصان
مارچ 2024 میں فلسطین پولی ٹیکنک یونیورسٹی کی غزہ برانچ کو شیلنگ سے نقصان پہنچا جس میں انجینئرنگ کی فیکلٹی شدید متاثر ہوئی۔
15) نئی یونیورسٹی آف غزہ: کتب خانہ اور انتظامی دفاتر تباہ
اپریل 2024 میں حال ہی میں قائم کی گئی یونیورسٹی آف غزہ کو بھی فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں مرکزی کتب خانہ اور انتظامی دفاتر متاثر ہوئے۔
16) اوپن یونیورسٹی آف یروشلم (القدس یونیورسٹی) غزہ برانچ: دوری تعلیم کے وسائل متاثر
مئی 2024 میں القدس یونیورسٹی کے غزہ برانچ کو فضائی حملے سے نقصان پہنچا جس نے وہاں کے دوری تعلیم کے بنیادی ڈھانچے اور دفتر کی سہولیات کو نقصان پہنچایا۔
17) غزہ کمیونٹی کالج برائے سیاحت کے مطالعے: تربیتی سہولیات کا نقصان
جون 2024 میں غزہ کمیونٹی کالج کو بمباری کے قریب ہونے والے دھماکوں سے نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں مہمان نوازی کے شعبے کی تربیتی سہولیات متاثر ہوئیں۔
18) دارالدعوۃ یونیورسٹی کالج برائے علومِ انسانی: تعلیمی بلاک کا نقصان
جولائی 2024 میں دارالدعوۃ یونیورسٹی کالج برائے علومِ انسانی پر فضائی حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں مرکزی تعلیمی بلاک اور فیکلٹی دفاتر کو شدید نقصان پہنچا۔
19) الرباط یونیورسٹی کالج: قانون اور عوامی انتظامیہ کے شعبے متاثر
اگست 2024 میں الرباط یونیورسٹی کالج کو فضائی حملے میں نقصان پہنچا، جس میں قانون اور عوامی انتظامیہ کے شعبے تباہ ہو گئے۔
تعلیمی اداروں کا وسیع نقصان:
اس جنگ سے پہلے ہی غزہ کے 80 فیصد تعلیمی ادارے شدید متاثر تھے مگر اب غزہ کی 19 یونیورسٹیوں کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، جس سے 90 ہزار طلبہ کا تعلیمی سفر رک گیا ہے۔ مزید یہ کہ 796 میں سے 85 فیصد اسکول تباہ ہوگئے، جن میں 6 لاکھ 25 ہزار طلباء کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔ اس تباہی نے صرف عمارتوں کو نہیں بلکہ علم کے چراغوں کو بھی بجھا دیا ہے۔
فلسطین کی طبی سہولتوں پر ہونے والے حملے: ایک درد بھرا جائزہ جنگ و جدل کے اس طوفان میں غزہ کے مختلف ہسپتالوں کی تباہی اور نقصانات کی کہانی ایک درد بھری عکاسی کرتی ہے۔ آئیے کچھ ایسے ہسپتالوں کی حالت زار کا جائزہ لیتے ہیں جو اس تباہ کن دور میں بے حد متاثر ہوئے ہیں۔
1) الاہلی عرب ہسپتال
اکتوبر 2023 میں یہ 80 بستروں کا ہسپتال جو کہ جنوبی باپٹسٹ کنونشن (Southern Baptist Convention) کے غیر ملکی مشن بورڈ کے زیر انتظام ہے، ایک اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہوا۔ اس حملے کے نتیجے میں 471 افراد جاں بحق اور 342 زخمی ہوئے۔
2) القدس ہسپتال
اسی مہینے میں اس ہسپتال میں کم از کم 21 افراد زخمی ہوئے۔ ہسپتال کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا۔
3) انڈونیشیا ہسپتال
اکتوبر 2023 میں، اس ہسپتال کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ایمرجنسی اور سرجیکل یونٹس پر ہونے والے حملے نے اس کی کارکردگی کو محدود کر دیا۔
4) الدرۃ پیڈیاٹرک ہسپتال
یہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے خاص طور پر بنایا گیا ہسپتال بھی اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنا۔ اس کے بنیادی ڈھانچے اور اہم آلات کو نقصان پہنچا، جس سے بچوں کی ایمرجنسی اور خصوصی دیکھ بھال میں خلل پڑا۔
5) بیت حنون ہاسپٹل
یہ ہسپتال مسلسل شیلنگ اور بمباری کی وجہ سے شدید متاثر ہوا۔ ایمرجنسی سروسز اور عمومی نگہداشت کے وارڈز میں تباہی آئی جس کے باعث طبی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی۔
6) ناصر ہاسپٹل
جنوبی غزہ کی ایک اہم طبی سہولت، اس ہسپتال پر فضائی حملے کے نتیجے میں ایمرجنسی اور سرجیکل یونٹس متاثر ہوئے۔
7) یورپی غزہ ہسپتال
جنوبی علاقے کا یہ ایک بڑا ہسپتال، فضائی حملوں سے متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں اس کی عملی صلاحیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔
8) الشفا ہسپتال
نومبر 2023 میں اس ہسپتال کو اسرائیلی فوج کی جانب سے محاصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں 1500 مریض، 1500 طبی کارکن اور 15,000 بے گھر لوگ موجود تھے۔ اس دوران، ہسپتال کے صحن میں 200 سے زائد مردہ جسم رکھے گئے تھے۔
9) رنتیسی پیڈیاٹرک ہسپتال (Rantisi Pediatric Hospital)
یہ ہسپتال بچوں میں کینسر جیسے دائمی بیماریوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہ بھی فضائی حملوں کے نتیجے میں شدید نقصان کا شکار ہوا جس نے اس کی مخصوص خدمات میں رکاوٹ ڈالی۔
10) الوفا ہسپتال
فروری 2024 میں شیلنگ کی وجہ سے متاثر ہوا جس نے اس کی بحالی کی خدمات کو متاثر کیا۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کیسے غزہ کے مختلف ہسپتال نہ صرف فوجی کارروائیوں کی زد میں آ رہے ہیں بلکہ یہ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں کی تباہی نے مریضوں، طبی عملے اور ان کے خاندانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کی ہیں۔
مذکورشدہ دواخانوں کے علاوہ تقریباً کل 35 سے زائد ہسپتالوں اور طبی سہولیات کی تفصیلات درج ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا ایک منفرد درد اور کہانی ہے اور جو جنگ کے سائے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی گواہی دیتےہیں۔ تاہم طوالت سے بچنے کی خاطر یہاں تمام ہسپتالوں کی تفصیلات شامل نہیں کی جا رہی ہیں لیکن یہ جان لیجیے کہ غزہ کے ہر ایک ہسپتال کی حالت زار ہمارے لیے ایک سوچنے کا موقع ہے جہاں ہر گزرنے والا لمحہ انسانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
غزہ کا بحران: بنیادی ڈھانچے، پناہ گزین کیمپوں اور ثقافتی ورثے کی تباہی
غزہ کی سرزمین پر جاری جنگ نے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کیا ہے بلکہ یہاں کے بنیادی ڈھانچے اور ثقافتی ورثے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ مضمون ان عوامل کی نشان دہی کرتا ہے جو غزہ کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
انفراسٹرکچر کی تباہی
غزہ کی رہائشی عمارتوں کا 60 فیصد حصہ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا شدید نقصان اٹھا چکا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو اس علاقے کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ تجارتی سہولیات کی 80 فیصد تعداد مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، جس نے مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔ سڑکوں کے نیٹ ورک کا 65 فیصد حصہ بھی تباہ ہو چکا ہے، جو نقل و حمل کی سہولیات میں مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ مزید یہ کہ 65 فیصد زرعی زمینیں بھی تباہ ہو چکی ہیں، جس نے غذائی عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے۔
پناہ گزین کیمپوں کی حالت
غزہ میں موجود پناہ گزین کیمپوں کی حالت بھی خاصی تشویش ناک ہے۔ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، جبیلیہ کیمپ متعدد بار فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہے۔ اسی طرح، الشاطی، البریج، المغازی، النصیرات، شابورا اور تل السلطان کے کیمپ بھی خطرے میں ہیں۔ غزہ کے آٹھ پناہ گزین کیمپوں میں سے پانچ نومبر 2023 تک بمباری کا شکار ہو چکے ہیں، جس نے وہاں رہنے والوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
پناہ گاہوں کا نقصان
ایک ہی مہینے میں اسرائیل نے 16 پناہ گاہوں پر حملے کیے۔ اس کے نتیجے میں، مئی 2024 تک کم از کم 169 اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (UNRWA) کی سہولیات کو بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو انسانی ہمدردی کی کوششوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
ثقافتی ورثے کی تباہی
اس جنگ نے غزہ کے ثقافتی ورثے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 200 تاریخی عمارتیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا نقصان اٹھا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ، 12 عجائب گھر اور متعدد ثقافتی مراکز بھی اس تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔ ابتدائی چھ ماہ کے دوران، اسرائیلی افواج نے غزہ کے 60 فیصد ثقافتی ورثے کی جگہوں اور یادگاروں کو تباہ کر دیا ہے جو کہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے بلکہ انسانیت کے لیے بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
ایمرجنسی خدمات کی تباہی
اس جنگ کے دوران ایمرجنسی خدمات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 120 ایمبولینس سرویسیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ غزہ کی طرف آنے والے امدادی ٹرکوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں جنہیں مغربی کنارے پر آبادکاروں نے آگ لگا دی۔ اس کے علاوہ اکتوبر کے بعد سے امدادی کارکنوں کے قافلوں اور ان کے مقامات پر کم از کم آٹھ حملے کیے گئے ہیں، جو کہ انسانی ہمدردی کی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
یہ صورتحال غزہ کے عوام کی زندگیوں کے لیے ایک سنگین بحران کی عکاسی کرتی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تباہی، پناہ گزین کیمپوں کی بربادی، ثقافتی ورثے کا نقصان اور ایمرجنسی خدمات کی عدم دستیابی نے اس علاقے کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔
فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ سلوک
7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اغوا کیے گئے 240 یرغمالیوں میں سے 117 کو زندہ واپس اسرائیل لایا گیا، جن میں سے 105 کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا۔ 4 یرغمالیوں کو حماس نے خود چھوڑا جبکہ 8 کو اسرائیلی دفاعی فورسز (IDF) نے بچایا۔ فی الحال، حماس کے پاس 66 زندہ یرغمالی اور 35 لاشیں موجود ہیں۔
یرغمالیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا گیا، انہیں طبی علاج فراہم کیا گیا اور انہیں گھروں کے درمیان رکھا گیا۔ ان کی رہائی کے وقت کی ظاہری حالت اور ان کے رد عمل نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں اچھے طریقے سے رکھا گیا تھا، جیسا کہ بعد میں دیے گئے ان کے کئی انٹرویوز میں بھی نظر آیا۔
اِس وقت 3,000 سے زائد غزہ کے شہری اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ وہ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں جن میں جسمانی تشدد، جنسی استحصال، بھوک، کتوں کے حملے، پٹائی، طویل مدت تک سردی میں رکھنا، خوراک، نیند، پانی اور طبی توجہ کی کمی شامل ہے۔ ان قیدیوں کو مناسب طبی علاج فراہم نہیں کیا جاتا اور بہت سے رہائی پانے والے افراد عمر بھر کے زخم، صدمات اور معذوریوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت 226 فلسطینی بچے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ "Save the Children” کو موصول ہونے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بچے بھوک اور تشدد کا شکار ہیں، جن میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔ جیلوں کی حالت بگڑ رہی ہے اور متعدی بیماریوں جیسے خارش میں اضافہ ہو رہا ہے، بچوں کو انتہائی درجہ حرارت میں ننگا کھڑا کیا جاتا ہے اور ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے۔ کچھ بچے تو 12 یا 13 سال کی عمر کے ہیں۔ بیشتر قیدی بغیر کسی الزامات یا مقدمے کے اسرائیل کی انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت قید ہیں۔
تشدد اور بدسلوکی
اگست 2024 میں اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم "B’Tselem” نے فلسطینی حراستی قیدیوں کے ساتھ منظم اسرائیلی بدسلوکی، تشدد، جنسی تشدد اور عصمت دری پر ایک رپورٹ جاری کی جس میں اسرائیلی جیلوں کے نظام کو "تشدد کے کیمپوں کا نیٹ ورک” (network of torture camps) قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ میں فلسطینیوں کی جانب سے دی گئی وسیع گواہیاں شامل ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024