گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد…
موجودہ مرکزی حکومت کیلئے بطورحزب ِمخالف عاپ ،کانگریس یا ترنمول کانگریس ؟
( دعوت نیوز ڈیسک)
کیا ترنمول کانگریس ، بی جے پی کی متبادل بن سکتی ہے ؟
گجرات اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کراری شکست کے بعد ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس میں ایک بار پھر بی جے پی کا متبادل بننے کی خواہش ابھرنے لگی ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد ترنمول کانگریس کا رد عمل اس کی عکاسی کرتاہے۔ پارٹی ترجمان کنال گھوش نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ ممتا بنرجی ہی بی جے پی کا متبادل بن سکتی ہیں۔ملک کے عوام کی نگاہیں ان کی طرف مرکوز ہیں۔گھوش کا یہ تبصرہ صرف گجرات انتخابات کے تناظر میں تھا جب کہ اسی کانگریس نے ہماچل پردیش میں قومی لیڈر شپ کے بغیربی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔گھوش ہماچل پردیش میں کانگریس کی جیت کو کیوں در کنار کررہے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس میں قومی سطح پر بی جے پی کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے؟کیا عام آدمی پارٹی کی طرح ممتا بنرجی اورترنمول کانگریس کی قومی سیاست میں مقام بنانے کی خواہشات کی قیمت ملک میں سیکولر ووٹوں کے انتشار کی شکل میں نہیں چکانا پڑے گا؟ گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی، گانگریس کے زوال کے اسباب پر ابھی تفصیلی جائزہ لیا جانا باقی ہے۔ تاہم جس طریقہ سے گجرات اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین نے مہم چلائی اور اروند کیجریوال نے ہندوتوا کی سیاست اور گجرات کے عوام کو لبھانے کی کوشش کی وہ بی جے پی کے ووٹوں کو توڑ تو نہیں سکے مگر حزبِ مخالف کے ووٹوں کو منتشر ضرور کیا۔انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ نگار حیرانی کا اظہار کرہے تھے کہ مسلم ووٹروں کابڑاحصہ عام آدمی پارٹی کی طرف جارہا ہے اور اس رجحان کا بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوگا۔
بی جے پی برسوں سے گجرات میں حکومت کررہی ہے، اس کو اندازہ تھا کہ حکومت مخالف رجحانات ہیں ، لوگوں کی شکایات بھی ہیں، چناں چہ پرانے چہروں کی جگہ بڑے پیمانے پر نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا، پارٹی قیادت کی پکڑ کی وجہ سے پرانے چہروں میں بیشتر نے بغاوت کی جرأت نہیں کی، مقامی سطح پر جو ناراضگی تھی اس کو ان پرانے چہروں پر تھوپ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی یہ نئے چہرے نئے اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ کام کریں گے ۔مگر اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں طویل مدت تک حکومت کرنے اور ترقیاتی کاموں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہندوتوا کی سیاست اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کو ہی انتخابات جیتنے کا ذریعہ بنایا گیا ۔چناں چہ مرکزی وزارت داخلہ جیسے ذمہ دار انہ اور باوقار عہدے پر فائز ہونے کے باوجود امیت شاہ فخریہ طور پر گجرات فسادات کی مسلمانوں کو یاد دلاتے ہوئے نظر آئے۔ 2002میں ہونے والے قتل عام پر شرمندہ ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کو قابلِ فخر کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا۔انتخابات سے عین قبل بلقیس بانو کی عصمت دری کے مجرموں کی رہائی کے ذریعہ بین السطور میں بہت کچھ پیغام دیا گیا۔ جب کہ گجرات آج بھی نریندر مودی پر ہی منحصر ہے۔ انہی کے نام پر انتخاب لڑا گیا۔ گزشتہ تین مہینوں سے میڈیا کے ذریعہ مسلسل پروپیگنڈا کیا گیا کہ کیجریوال گجرات میں بی جے پی کوشکست دے سکتے ہیں، کیجریوال کی ریلی، جلوس کو بڑھا چڑھا کر کوریج دی گئی۔ دوسری جانب کانگریس نے گجرات انتخابات میں غیر سنجیدگی کا مظاہر کیا۔ اسٹار پرچارک راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، سونیا گاندھی مکمل طور پر غائب رہے۔ اس کی وجہ سے کانگریس کے حامی ووٹرس گھروں میں بیٹھ کر تماشائی بن گئے۔ کیجریوال کے نام پر پھیلائے گئے بھرم، ایم آئی ایم کی مسلم علاقوں میں زور دار مہم اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تابڑ توڑ ریلیاں اور طویل ترین سڑک مظاہروں نے بی جے پی کے لیے جیت کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ چوں کہ کیجریوال گجرات میں ناکام ہوئے ہیں اس لیے ایک بار پھر ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس نے کانگریس کی جگہ بی جے پی کا متبادل بننے کا دعویٰ شروع کردیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ترنمول کانگریس میں ایسا کیا ہے کہ وہ کانگریس کی جگہ قومی سطح پر بی جے پی کی متبادل بن سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ملک کو بی جے پی کے متبادل کی ضرورت کیوں ہے؟
ترنمول کانگریس یقینا2021میں تیسری مرتبہ بنگال میں بڑی شاندار کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں پہنچی ہے، اس مرتبہ اس کے مقابل بی جے پی تھی اور بی جے پی نے پوری قوت جھونک دی تھی مگر ترنمول کانگریس نے اسے شکست دے دی لیکن بنگال کے باہر ترنمول کانگریس کی حیثیت کیا ہے؟ وہ گوا میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، تریپورہ اور میگھالیہ میں کانگریس کے باغی لیڈروں کے ذریعہ اپنے وجود کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تریپورہ میونسپلٹی انتخابات میں ترنمول کانگریس بری طرح شکست سے دو چار ہو چکی ہے۔ میگھالیہ میں کانگریس کے ممبران اسمبلی کی بغاوت کے ذریعہ وجود ثابت کرنے کی کوشش کب تک باقی رہے گی؟ یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے ۔
اب رہا دوسرا سوال کہ بی جے پی کے متبادل کی ضرورت کیوں ہے تو ظاہر ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں ملک میں جمہوریت کے بنیادیں ہلتی جارہی ہیں، بین الاقوامی ادارے ملک میں جمہوریت کے مستقبل کو پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں، مسلمانوں کی نسل کشی تک کے اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اداروں کی آزادی متاثر ہوئی ہے، پولرائزیشن کی وجہ سے ملک کے عوام تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے فکر و نظر اور طریقہ کار کے برخلاف ملک کو جمہوری اقدار، انصاف پر مبنی معاشرہ، بدعنوانی سے پاک اور ملک کے عوام کو جوڑنے کی صلاحیت رکھنے والی سیاسی جماعت ہی بی جے پی کی متبادل بن سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے ہندوتوا کا جواب نرم ہندوتوا ہے؟ کیا بی جے پی کے پولرائزیشن کا جواب پولرائزیشن ہی ہے۔ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ کیجریوال نے بی جے پی کا متبادل بننے کے لیے ملک کو درپیش تمام سوالوں کو نظر انداز کر دیا ہے، انہوں نے ریوڑھیاں تقسیم کر کے یہ سمجھا کہ بی جے پی کا یہی جواب ہے۔ اپنے آپ کو کٹر ہندو ثابت کرنے کے لیے نوٹوں پر ہندو بھگوانوں کی تصاویر چھاپنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ گجرات فسادات کے سوالات کو درکنار کر دیا، بلقیس بانو سے متعلق سوال کرنے والوں کو ڈانٹ دیا۔ دہلی فسادات کو روہنگیا مسلمانوں سے جوڑ کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی۔چناں چہ گجرات کے عوام نے چوبیس قیراط والی ہندوتوا پارٹی کا انتخاب کر کے کیجریوال کو در کنار کر دیا۔
کیا بنگال میں 30 فیصد مسلم ووٹوں کی بدولت تین مرتبہ اقتدار میں پہنچنے والی ممتا بنرجی بھی کیجریوال کی راہ پر گامزن ہیں؟
2011 سے قبل مسلم خوشامد کی سیاست کرنے والی ممتا بنرجی اب اپنی زبان سے اقلیت کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتی ہیں۔ترنمول کانگریس کے انتخابی منشور میں اقلیتوں سے متعلق صرف ایک سطر میں ذکر کیا گیا ہے جب کہ ممتا بنرجی نے دُرگا پوجا کے انعقاد کے لیے سرکاری خزانے کھول دیے ہیں۔ دیگھا کے بعد اب سندر بن میں سرکاری خرچ پر مندر کی تعمیر کروارہی ہیں۔ مسلم ایشوز پر ترنمول کانگریس کیجریوال کی طرح خاموش ہو چکی ہے۔
دوسری طرف 2021 کے اسمبلی انتخابات کے بعد وزیر اعظم نریندری مودی کی سخت مخالف اور ناقد کے طور پر ابھرنے والی ممتا بنرجی، بنگال کی گدی کو بچانے کے لیے اپنی روایتی جارحانہ تیور کو چھوڑ کر مصالحانہ رویے اختیار کرتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ان ہی صفحات میں بنگال میں فلاحی اسکیموں پر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے درمیان جاری کشمکش پر ایک اسٹوری شائع کی گئی تھی۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی چپقلش کے درمیان گزشتہ ایک سال سے مرکزی حکومت نے فلاحی اسکیموں کے لیے فنڈز روک دیے ہیں۔ مرکزی اسکیموں کے فنڈز روکے جانے کا نقصان ممتا بنرجی کو ہورہا تھا، فنڈز کی قلت کی وجہ سے ریاست کی ترقیاتی کام کاج ٹھپ ہو گیا ہے۔ ممتا بنرجی کو اندیشہ ہے کہ کہیں اس کا خمیازہ اگلے سال ہونے والے پنچایت انتخابات میں نہ بھگتنا پڑے۔ چناں چہ ممتا بنرجی نے حالیہ دنوں میں وہ تیور نہیں دکھائے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ چناں چہ گزشتہ ہفتے جب وہ دہلی کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس کے لیے کنول کے پھول کا لوگو پیش کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ وزیرا عظم کے ساتھ میٹنگ میں اس مسئلے پر اعتراض کریں گی؟صحافیوں کو امید تھی کہ ممتا بنرجی اس سوال کا جواب جارحانہ انداز میں دیں گی مگر ممتا بنرجی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کنول کا پھول بی جے پی کا انتخابی نشان ہے مگر چوں کہ یہ پورے ملک کا سوال ہے اس لیے میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کروں گی۔ ممتا بنرجی کا یہ جواب میڈیا کے لیے بڑا حیران کن تھا۔دراصل اس سے دو دن قبل ہی مرکزی حکومت نے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت فنڈ جاری کیا تھا۔ ممتا بنرجی کے اس مصالحانہ بیان کے محض ایک دن بعد ہی مرکزی وزیر دیہی ترقی گری راج سنگھ نے ریاستی وزیر کو فون کر کے یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی منریگا اسکیم کے لیے بھی فنڈ جاری کر دیا جائے گا۔ ان حالات میں یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ خواہشات کے باوجود کیا ترنمول کانگریس اور ممتا بنرجی کے پاس کانگریس کی جگہ بی جے پی کا متبادل بننے کی صلاحیت ہے جبکہ ملک کی بڑی ریاستوں میں اس کا وجود تک نہیں ہے؟
دہلی میونسپلٹی انتخابات کے نتائج واضح طور پر یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ مسلمانوں کو غلام بنانے کی ذہنیت چلنے والی نہیں ہے۔اگر مسلمانوں کو نظر انداز کرنے اور مسلم مسائل پر خاموشی کی پالیسی پر ممتا بنرجی نے نظر ثانی نہیں کی تو مسلمان زیادہ دنوں تک ان کو ووٹ نہیں دے سکتے۔ اگر 2021 میں مسلم ووٹرس متحد ہو کر ممتا بنرجی کو تاریخی جیت دلا سکتے ہیں تو 2024 اور 2026 میں دھول بھی چٹا سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ دو دن قبل ممتا بنرجی کا اجمیر شریف کا دورہ اس سمت میں ایک کوشش ہے۔ مگر کیا بنگال کے مسلمان صرف اجمیر کے دورے سے خوش ہوجائیں گے؟
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022