گوانتا نامو بے قید خانہ ۔۔ لاقانونیت اور تشدد کی علامت
قیدیوں سے انسانیت سوز برتاو کے باوجود عدالت میں پیش کرنے کے قابل معلومات حاصل نہیں ہوئیں
مسعود ابدالی
نائن الیون کے پانچ بڑے ملزمین سزائے موت نہ ملنے کی ضمانت پر اعترافِ جرم کے لیے تیار!
اگر متاثرین سزائے موت سے رعایت کی تجویز کو مسترد کر دیتے ہیں تو استغاثہ کے لیے فرد جرم عائد کرنا مشکل ہے اور اگر عمر قید کے عوض ان لوگوں کو سزائے موت سے نجات مل جاتی ہے تو انہیں تاحیات گوانتاناموبے جیل میں رکھا جائے گا، گویا ہر صورت میں یہ بدنامِ زمانہ عقوبت کدہ غیر معینہ مدت تک قائم رہے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے CBS کے مطابق امریکی فوج سے غیر تحریری مفاہمت کے نتیجے میں نائن الیون (9/11) کے پانچ بڑے ملزمین سزائے موت نہ ملنے کی ضمانت پر اعترافِ جرم کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ خبر کے مطابق پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) نے سانحہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو خطوط بھیجے ہیں جن میں کہا گیا کہ امریکی فوج واقعہ کے مبینہ سرغنہ خالد شیخ محمد اور ان کے چار ساتھیوں مصطفیٰ احمد آدم ہوساوی، رمزی بن الشيبہ، ولید بن اتش اور عمار البلوشی سے ایک معاہدے پر غور کررہی ہے جس کے تحت یہ پانچوں اپنے جرائم کا اعتراف کرلیں گے جس کے جواب میں انہیں طویل مدت قید کی سزائیں دے دی جائیں گی۔
ان تمام کو دوسرے سیکڑوں افراد کے ساتھ پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا جنہیں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرکے پیسوں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ یہ پانچوں افراد سی آئی اے کی تحویل میں تھے جنہیں 2006ء میں کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے منتقل کیا گیا۔ ملزمین کو اعتراف جرم کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی روح فرسا تفصیلات امریکی کانگریس میں بھی بیان کی گئیں۔صدر اوباما نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ان لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کی منظوری دے دی تھی لیکن اب تک ملزمین پر فرد جرم نہیں عائد کی جاسکی۔ فوج کے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تشدد (torture)سے حاصل کیے جانے والے اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ بعض مبینہ دہشت گردوں پر شدید نوعیت کا تشدد کیا گیا۔ عمار البلوشی نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ اگر سزائے موت نہ دینے کی ضمانت دی جائے تو تشدد کے نتیجے میں اسے جو معذوری لاحق ہوئی اس کے علاج معالجے و طبی دیکھ بھال کے عوض وہ جرم قبول کرنے اور طویل سزا کاٹنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم ہلاک شدگان کے وارثین اس پر تیار نہیں اور کئی افراد اس معاہدے کو انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف فوج کے قانونی ماہرین پریشان ہیں کہ مقدمہ پیش کیسے کیا جائے؟ حکومت کی جانب سے ابلاغ عامہ کے سامنے تشدد کے اعتراف کے علاوہ امریکی سینیٹ میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔بش انتظامیہ کے نائب صدر ڈک چینی نے تشدد کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اس کی حمایت کرتے ہوئے سب کے سامنے کہا تھا کہ ’تھوڑی سی سختی‘ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات دہشت گرد منصوبوں کو ناکام بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ تشدد پر تشویش کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ان وحشی دہشت گردوں پر سختی نہیں تو کیا انہیں پیار کیا جائے؟‘ امریکہ کی شہری آزادیوں کی انجمن ACLU کے مطابق گوانتاناموبے میں کم از کم 26 قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انجمن کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI) کے 200 سے زیادہ ایجنٹ قیدیوں پر تشدد کے عینی شاہد ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکن ایک عرصے سے گوانتاناموبے جیل بند کرنے مطالبہ کر رہے ہیں۔ سابق صدر بارک اوباما نے اس عقوبت کدے کو بند کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن یہ ریپبلکن پارٹی کی شدید مخالفت پر احساس کمتری کے مارے کمزور صدر اوباما کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان کے بعد آنے والے صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے انسانیت کے ماتھے پر کلنک کے اس ٹیکے کو غیر معینہ مدت تک کے لیے دوام بخش دیا۔
صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران گوانتاناموبے بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے حلف اٹھانے کے دو ماہ بعد سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ ڈک ڈربن Dick Durbinسمیت 24 سینیٹروں نے ایک خط میں گوانتاناموبے کو لاقانونیت اور تشدد کی علامت قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ ’گوانتاناموبے نے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، مسلم مخالف تعصب کو ہوا دی اور ملک کو کمزور کیا‘۔ ہم نے فاضل امریکی سینیٹروں کے ارشادات ہی کو سرنامہ کلام بنایا ہے۔ خط کی وصولی پر صدر بائیڈن کی ترجمان محترمہ جین ساکی نے کہا تھا کہ امریکی صدر کیوبا کے امریکی اڈے گوانتاناموبے میں قائم جیل خانے کو بند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بندش مرحلہ وار ہوگی اور صدر جو بائیڈن اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے اس جیل خانے کو تالا لگادینا چاہتے ہیں۔
یہ قیدخانہ لاقانونیت کا شاہکار تو ہے ہی، بحر غرب الہند یا کریبین Caribbeanمیں واقع اس جزیرے پر امریکی عمل داری بھی زور و زبردستی کی ایک مثال ہے۔ امریکہ نے 1898ء میں پورٹوریکو، فلپائن اور گوام کے ساتھ کیوبا پر قبضہ کرلیا جسے 1902ء میں آزادی دیدی گئی۔ اس کے ایک سال بعد امریکہ کے صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یکطرفہ معاہدے کے تحت خلیج گوانٹامو میں واقع 45 مربع کلومیٹر کا جزیرہ دو ہزار ڈالر سالانہ کرایے پر لے کر یہاں امریکی بحریہ کا اڈہ قائم کردیا۔ کیوبا کے لوگوں کو اس معاہدے پر سخت اعتراض تھا مگر وہ امریکہ کے ہاتھوں ہسپانیوں کی شکست کے عبرت انگیز مناظر دیکھ چکے تھے لہٰذا انہوں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔ کیوبا کا وزیر اعظم بنتے ہی 1959ء میں فیڈل کاسترو نے اس لیز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 1903ء کے معاہدے کو جائر قرار دے دیا جائے تب بھی قانون کرایہ داری کے تحت واشنگٹن اپنے حق سے محروم ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ چھپن سال سے کرایہ ادا نہیں کیا اور اس کے ساتھ ہی جزیرے کو تازہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی۔ امریکہ نے کاسترو کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کرایے کا چیک باقاعدگی سے ہوانا (دارالحکومت کیوبا) روانہ کیا جارہا ہے، یہ اور بات ہے کہ کیوبا کی حکومت نے امریکی حکومت کا کوئی چیک اب تک بھنایا نہیں ہے۔ میٹھے پانی کے لیے امریکہ بحریہ نے جزیرے پر کنویں کھود لیے۔ کیوبا نے قہر درویش بر جان درویش کے مصداق خاموش رہنے ہی میں عافیت جانی۔
اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے قیدیوں کو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ قیدیوں کو امریکہ لانےکی صورت میں یہ لوگ امریکی سول عدالتوں سے رجوع کرسکتے تھے اور بش انتظامیہ کو خوف تھا کہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اکثر قیدیوں کو امریکی عدالت ضمانت پر رہا کردے گی چنانچہ انہیں جنگی قیدی قرار دے کر ان کے لیے گوانتاناموبے میں قید خانہ تعمیر کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اسے قید خانے سے زیادہ عقوبت کدہ قرار دیتے ہیں جہاں قیدیوں پر دن رات انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں پر جو گزرتی ہے وہ اپنی جگہ ہے یہاں مامور سپاہیوں اور محافظین کی بڑی تعداد بھی یہ مناظر دیکھ کر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا خیال تھا کہ ملزمین کے خلاف ایسا مواد موجود نہیں جس کے مطابق فرد جرم تیار کی جا سکے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود کسی بھی قیدی سے وہ معلومات نہیں حاصل ہو سکیں جو عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ہوں۔ اٹارنی جنرل کا خیال تھا کہ اگر عدالت میں پیشی کے دوران ان ملزمین نے ظلم و تشدد کی روح فرسا داستان سنانی شروع کردی تو الٹا لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ خالد شیخ محمد، ابو زبیدہ اور چند دوسرے لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کی اجازت دی گئی لیکن ان کے خلاف بھی تادم تحریر فرد جرم تک مرتب نہ ہوسکی۔
جنوری 2002ء کو قائم ہونے والے قید خانے میں کل 779 قیدی تھے۔ برسوں کی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ دو درجن قیدیوں کے علاوہ تمام گرفتار لوگ یا تو طالبان اور القاعدہ کے ہمدرد تھے یا وہ طلبہ جو افغان مدارس میں تعلیم کے لیے آئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی جنگجو یا دہشت گرد نہیں تھا۔ جنگ کے دوران ان لوگوں کی اکثریت بھاگ کر پاکستان آگئی جنہیں جنرل پرویز مشرف نے دہشت گرد قرار دے کر پانچ سے دس ہزار ڈالر کے عوض سی آئی اے کو فروخت کردیا، ACLU کا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانے والے بدنصیبوں کی 86 فیصد تعداد کو پاکستانی فوج نے ملک کے مختلف علاقوں سے پکڑا جبکہ صرف پانچ فیصد کو افغانستان سے امریکی فوج یا سی آئی ائے کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا۔ بے پناہ تشد کے بعد بھی کسی پردہشت گردی کا الزام ثابت نہ ہوسکا اور چار پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سمیت تقریباً تمام افغان رہا کردیے گئے۔
تادم تحریر یہاں 40 قیدی نظر بند ہیں جن میں سے 26 پر مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔یہاں بند پانچ افراد ایسے بھی ہیں جن کی بے گناہی ثابت ہو چکی ہے لیکن ان کے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی دیومالائی کہانیاں گھڑ کر پھیلادی گئیں ہیں کہ کوئی ملک انہیں لینے کو تیار نہیں۔
گوانتاناموبے اخراجات کے اعتبار سے دنیا کا سب سے مہنگا قید خانہ ہے جہاں ایک قیدی پر اوسطاً ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ امریکہ کی وفاقی جیلوں کا سالانہ خرچ 32 ہزار ڈالر فی قیدی ہے۔ گوانتاناموبے میں سب سے کم عمر ایک تیرہ سالہ بچہ اور معمر ترین فرد 89 سال کا تھا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں چھ قیدیوں نے خود کشی کی لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ بہیمانہ تشدد نے ان لوگوں کی جانیں لیں۔ ان میں سب سے مشہور سعودی شہری یاسر طلال الظہرانی تھا جسے 16 برس کی عمر میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ پانچ سال بعد وہ اپنے سیل میںمردہ پایا گیا۔ امریکی فوج کی رپورٹ کے مطابق اس 21 سالہ لڑکے نے خودکشی کی تھی۔ لاش کے سعودی عرب پہنچنے پر اس کے والد طلال عبداللہ الظہرانی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے جسم پر ضربات اور تشدد کے گہرے نشانات تھے۔ عبداللہ الظہرانی سعودی فوج کے ایک افسر ہیں۔ گوانتاناموبے میں 21 قیدی 18 سال سے کم عمر یعنی بچے تھے۔
ہفتے کے دن فوجی عدالت کے پہلے فیصلے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو ایک دن پہلے یعنی 18 اگست کو سنایا گیا۔ یمن میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر 2000ء میں ہونے والے حملے کے مبینہ سرغنہ عبدالرحیم النشیری کے مقدمے میں جج کرنل لینی اکوسٹا (Lanny Accosta) نے فیصلے میں لکھا کہ ’ملزم کا اعتراف سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ہاتھوں برسوں کی ہولناک بدسلوکی سے داغ دار ہے۔‘ فاضل جج نے مزید کہا ’اس طرح کے شواہد کو خارج کرنا معاشرتی قیمت کے بغیر نہیں تاہم، تشدد کے ذریعہ حاصل کردہ اعتراف اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے اور پھانسی دینے کی سماجی قیمت اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے‘۔ فیصلے پر ملزم کے وکیل انتھونی نتالے(Anthony Natale) نے ان کچھ اس طرح اطمینان کا اظہار کیا کہ ’جج نے ان اہم شواہد کو خارج کر دیا جو فوجی استغاثہ النشیری کو مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کرنے کی امید کر رہا تھا‘
جن پانچ بڑے ملزمین کو اعتراف جرم کے عوض جاں بخشی کی پیشکش کی جا رہی ہے ان میں سے بھی کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ فوج کے سات نامزد مستغیثان(Prosecutors) نے یہ کہہ کر استعفےٰ دے دیا ہے کہ انہیں یہ سارا معاملہ نا انصافی پر مبنی نظر آ رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر متاثرین سزائے موت سے رعایت کی تجویز کو مسترد کر دیتے ہیں تو استغاثہ کے لیے فرد جرم عائد کرنا مشکل ہے اور اگر عمر قید کے عوض ان لوگوں کو سزائے موت سے نجات مل جاتی ہے تو انہیں تاحیات گوانتاناموبے جیل میں رکھا جائے گا، گویا ہر صورت میں یہ بدنامِ زمانہ عقوبت کدہ غیر معینہ مدت تک قائم رہے گا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے قیدیوں کو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ قیدیوں کو امریکہ لانے کی صورت میں یہ لوگ امریکی سول عدالتوں سے رجوع کر سکتے تھے اور بش انتظامیہ کو خوف تھا کہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اکثر قیدیوں کو امریکی عدالت ضمانت پر رہا کر دے گی چنانچہ انہیں جنگی قیدی قرار دے کر ان کے لیے گوانتاناموبے میں قید خانہ تعمیر کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اسے قید خانے سے زیادہ عقوبت کدہ قرار دیتے ہیں جہاں قیدیوں پر دن رات انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023