مرکزی حکومت نے ٹویٹر سے کسان احتجاج سے متعلق تقریباً 1200 اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیے کہا
نئی دہلی، فروری 8: مرکزی حکومت نے ٹویٹر سے کسانوں کے احتجاج سے وابستہ تقریباً 1200 اکاؤنٹس کو ہٹانے کے لیے کہا ہے، جن کے بارے میں حکومت کو شبہ ہے کہ وہ خالصتان پسندوں سے منسلک ہیں یا انھیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ مزید برآں حکومت کو لگتا ہے کہ ٹویٹر کے سی ای او جیک ڈورسی کے ذریعے احتجاج کی حمایت کرنے والے کچھ ٹویٹس کو ’’لائک‘‘ کرنے سے پلیٹ فارم کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ فیصلہ حکومت اور مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم کے مابین قریب 250 کھاتوں کو بحال کرنے کے اقدام کے بارے میں جاری تنازعے کے درمیان آیا ہے، جن کو مرکزی حکومت ’’کسانوں کی نسل کشی‘‘ کے ہیش ٹیگ کے استعمال کے لیے ہٹانا چاہتی تھی۔
سرکاری ذرائع کے حوالے سے دی ہندو نے رپورٹ کیا ہے کہ ’’منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی نے 1،178 ٹویٹر اکاونٹ کی ایک فہرست شیئر کی ہے، جنھیں سیکیورٹی ایجنسیوں نے خالصتان پسندوں طور پر شناخت کیا ہے، یا انھیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور وہ باہری علاقوں سے کام کررہے ہیں اور جاری کسان احتجاج کے مد نظر عوامی نظم و ضبط کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔‘‘
اخبار کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے اکاؤنٹس خودکار بوٹس ہیں جو مظاہروں کی غلط معلومات کو شیئر کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔
تاہم ذرائع کے مطابق ’’ٹویٹر نے ابھی تک اس حکم کی تعمیل نہیں کی ہے‘‘ خبر کے مطابق اس فہرست کو 4 فروری کو کمپنی کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کچھ دن پہلے مسٹر ڈورسی نے احتجاج کی حمایت میں ’’غیر ملکی مشہور شخصیات”‘‘ کے ذریعہ کیے جانے والے متعدد ٹویٹس کو پسند کیا تھا ’’اس سے ٹویٹر کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔‘‘