گورنروں کو جلد از جلد ریاستی حکومتوں کے ذریعے پیش کردہ بل کلیئر کر دینے چاہئیں: سپریم کورٹ
نئی دہلی، اپریل 24: سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ گورنروں کو قانون ساز اسمبلیوں کے ذریعے پاس کردہ بلوں کو جلد از جلد منظور کرنا چاہیے، جیسا کہ آئین کی دفعہ 200 کے تحت لازمی ہے۔
آئین کی دفعہ 200 گورنرز کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ یا تو کسی بل کی منظوری دے سکتے ہیں یا اسے مسترد کر سکتے ہیں یا بعض معاملات میں اسے صدر کے پاس غور کے لیے محفوظ کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے تلنگانہ حکومت کی طرف سے دائر ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا جس میں گورنر ٹی ایس راجن کو ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ دس بلوں کو منظور کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
تاہم اس درخواست کو عدالت نے مسترد کر دیا، جب یہ بتایا گیا کہ گورنر نے تمام بلوں کو منظوری دے دی ہے۔
پیر کی سماعت میں سینئر ایڈوکیٹ دشینت ڈیو نے، جو تلنگانہ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت کو بتایا کہ کئی غیر بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار ریاستوں کو گورنروں سے بلوں کی منظوری میں تاخیر کا سامنا ہے۔ انھوں نے عدالت پر زور دیا کہ وہ ’’سب کے لیے‘‘ کچھ ہدایات جاری کرے۔
انھوں نے کہا ’’منتخب حکومت گورنر کے رحم و کرم پر ہے۔ آپ اس کا فیصلہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے کر سکتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں ایک ہفتے کے اندر اور گجرات میں ایک ماہ کے اندر بلوں کی منظوری دی جا رہی ہے۔ تلنگانہ ایک اپوزیشن ریاست ہے اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔‘‘
تاہم سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے ڈیو کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو عام نہیں کیا جانا چاہیے۔
تلنگانہ کے علاوہ کیرالہ، دہلی، تمل ناڈو، پنجاب، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال کی حکومتوں نے حال ہی میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح ان کی ریاستوں کے گورنر انتظامی کاموں میں مداخلت کر رہے ہیں اور بلوں کی منظوری میں تاخیر کر رہے ہیں۔
13 اپریل کو تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا تھا کہ انھوں نے ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے کہا ہے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار نہیں ہیں، کہ وہ مرکز پر زور دیں کہ وہ اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں کو منظور کرنے کے لیے گورنروں کے لیے ایک وقت مقرر کریں۔
اسٹالن نے وزرائے اعلیٰ سے کہا کہ کچھ گورنرز ’’غیر معینہ مدت تک ایسے مختلف بلوں کو روکے ہوئے ہیں، جنھیں ریاستی مقننہ سے منظور کیا گیا ہے، جس سے ریاستی انتظامیہ ٹھپ ہو گئی ہے۔‘‘