حکومتیں اقلیتوں کو ان کی روزی روٹی سے محروم کرنے کے لیے قوانین کا غلط استعمال کر رہی ہیں، سابق سرکاری ملازمین نے وزیر اعظم کو کھلا خط لکھا
نئی دہلی، اپریل 26: منگل کے روز سابق سرکاری ملازمین کے ایک گروپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کھلے خط میں کہا کہ حکومت اقلیتی برادریوں کو اپنی روزی اور معاش سے محروم کرنے اور انھیں ’’کمتر شہریوں‘‘ کی حیثیت سے خود کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے قانونی ذرائع استعمال کررہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادریوں کے ممبروں میں ’’خوف و ہراس‘‘ پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں یکساں لباس، مذہب کی تبدیلی کے خلاف قوانین، گائے کے گوشت پر پابندی اور گھروں کو مسمار کرنے کی مہم کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اس خط پر 108 سابق سرکاری ملازمین نے دستخط کیے ہیں، جن میں ہرش مندر، نجیب جنگ، جولیو ربیرو، اے ایس دولت، کے پی فیبین، مینا گپتا اور ترلوچن سنگھ شامل ہیں۔
دستخط کنندگان نے کہا ’’ہم اس ملک میں نفرت سے بھرے ہوئی تباہی کا ایک جنون دیکھ رہے ہیں جہاں قربان گاہ میں نہ صرف مسلمان اور دیگر اقلیتی برادریوں کے ممبر نشانے پر ہیں بلکہ خود آئین بھی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ سیاسی قیادت فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے میں براہ راست ملوث ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ انتظامیہ فرقہ وارانہ گروپس کو بغیر کسی خوف کے کام کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔
دستخط کنندگان نے بتایا کہ ایسے گروپس کے ممبران کو، جن کو تشدد کا ارتکاب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس کے بارے میں ایک ’’ماسٹر اسکرپٹ‘‘ فراہم کی گئی ہے کہ کس طرح پارٹی کی پروپیگنڈا مشینری ان کے اعمال کا دفاع کرنے میں ان کی مدد کرسکتی ہے۔
انھوں نے نوٹ کیا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آئے تھے، لیکن فی الوقت نہ صرف ایک ماسٹر پلان کی ہندو راشٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے نقاب کشائی کی جارہی ہے بلکہ ملک کے آئین کو بھی ’’توڑ مروڑ کر اکثریت کے ظلم کا ایک آلہ‘‘ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس کو دیکھتے ہوئے اس گروپ نے کہا کہ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ بلڈوزر سیاسی اور انتظامی طاقت کے استعمال کے لیے ایک نیا استعارہ بن گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ’’بلڈوزر حکومت‘‘ کا نام حاصل کیا ہے، جب اس کے متعدد رہنماؤں نے مختلف ریاستوں میں اپنی من مانی سے ’’غیر قانونی ڈھانچے‘‘ مسمار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آدتیہ ناتھ جیسے قائدین نے یہاں تک کہا ہے کہ ’’بلڈوزر برانڈ‘‘ کافی موثر ہے۔ تاہم ایسے اقدامات میں جن عمارتوں کو مسمار کیا جاتا ہے وہ اکثر مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
گجرات، مدھیہ پردیش اور دہلی میں بی جے پی انتظامیہ نے اپریل میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد تجاوزات کو ہٹانے کے نام پر مسماری مہم شروع کیں۔
سابق سرکاری ملازمین نے کہا کہ ہندوتوا کی شناخت اور ہتھکنڈوں پر زور دینے کی سیاست اور برادریوں کے مابین تفریق پیدا کرنا کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ نیا معمول بن گیا ہے۔
انھوں نے مودی پر زور دیا کہ وہ متعصبانہ سیاست سے بالاتر ہوکر ریاستی حکومتوں سے نفرت کی سیاست ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔