حکومت کا ’منفی تاثر‘ میری آزادی کا سرٹیفکیٹ ہے: جسٹس قریشی
نئی دہلی، مارچ 6: راجستھان ہائی کورٹ کے سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس عقیل قریشی نے ہفتے کے روز کہا کہ ان کے بارے میں حکومت کا ’’منفی تاثر‘‘ ان کی عدالتی آزادی کا سرٹیفکیٹ ہے۔
61 سالہ قریشی نے اپنے دفتر میں آخری دن راجستھان ہائی کورٹ کے بار اینڈ بنچ کے ممبران سے اپنی الوداعی تقریر کے دوران یہ ریمارکس دیے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ان کی جگہ جسٹس منیندرا موہن شریواستو لیں گے، جو 7 مارچ سے قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔
ان کے ریمارکس سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی اپنی سوانح عمری میں 2019 میں مدھیہ پردیش کے بجائے تریپورہ کے چیف جسٹس کے طور پر قریشی کی تقرری پر کیے گئے مشاہدات کے حوالے سے تھے۔
جسٹس قریشی نے گوگوئی کا نام لیے بغیر کہا ’’یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے میری عدالتی رائے کی بنیاد پر میرے بارے میں کچھ منفی تاثرات تھے۔ آئینی عدالت کے جج کی حیثیت سے، جس کا سب سے بنیادی فرض شہریوں کے بنیادی اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے، میں اسے آزادی کا سرٹیفکیٹ سمجھتا ہوں۔‘‘
جسٹس قریشی نے مزید کہا کہ وہ اپنے ’’فخر و وقار‘‘ اور ’’صاف ضمیر‘‘ کے ساتھ جا رہے ہیں کیوں کہ انھوں نے اپنے تمام عدالتی فیصلے اس کے نتائج سے متاثر ہوئے بغیر کیے۔
2019 میں کالجیم نے قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی۔ 2010 اور 2011 میں حکومت کے خلاف ان کی طرف سے دو اہم فیصلوں کی وجہ سے مودی حکومت انھیں ناپسند کرتی ہے، لہذا مرکز نے سفارش واپس بھیج دی۔
قانون کے مطابق کالجیم حکومت کو اس کی تجویز قبول کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔ تاہم اس کے بجائے اس نے قریشی کو تریپورہ ہائی کورٹ میں منتقل کر دیا، جو ملک کی سب سے چھوٹی ہائی کورٹس میں سے ایک ہے۔
2010 میں جسٹس قریشی نے فیصلہ سنایا تھا کہ گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ اور موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو سہراب الدین شیخ کے قتل کے ملزم کے طور پر مرکزی تفتیشی بیورو کی تحویل میں بھیجا جانا چاہیے۔ شاہ کو بعد میں دسمبر 2014 میں قتل کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔
اگلے سال قریشی نے گجرات کی اس وقت کی گورنر کملا بینی وال کے ذریعے ہائی کورٹ کے سابق جج آر اے مہتا کو ریاست کا لوک آیکت مقرر کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا، اس فیصلے کی نریندر مودی نے مخالفت کی تھی، جو اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔
2021 میں ہندوستان کے دوسرے سب سے سینئر جج ہونے کے باوجود قریشی کا نام سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کے لیے سپریم کورٹ کالجیم کی طرف سے بھیجے گئے نو ناموں میں سے چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہفتے کے روز قریشی نے ملک میں عدلیہ کی حالت کے بارے میں بھی بات کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ عدالتوں کے قیام کی اصل وجہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے کہا ’’کسی بھی براہ راست توہین سے کہیں زیادہ ہمیں جمہوری اقدار اور شہریوں کے حقوق پر سے ہمیں پریشان ہونا چاہیے۔‘‘
مزید انھوں نے عدالتوں میں ججوں کی کمی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ججز ضرورت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے ہائی کورٹس میں تقرری کے لیے وکلا کی فہرستوں کی تخفیف پر بھی حیرت کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا کہ جب میں نے شمولیت اختیار کی تو میرے ہائی کورٹ میں 36 جج تھے۔ ’’مجھے نہیں لگتا کہ اس تعداد کو اس کے بعد سے عبور کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں کام میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ججوں پر ایک غیر انسانی بوجھ ڈالنا ہے اور اس کا برا اثر ہوتا ہے۔‘‘