کشمیر: حکومت نے سری نگر کی جامع مسجد میں ’اذان‘ اور ’نماز‘ پر لگی پابندیاں ہٹا دیں

سری نگر، مارچ 5: تاریخی جامع مسجد جمعہ کو 30 ہفتوں کے بعد ’اذان‘ سے گونج اٹھی۔

نماز جمعہ کے لیے لوگوں کے جمع ہونے پر جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ شدید سردی کے باوجد مرد و خواتین کی بڑی تعداد جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جمع ہوئی۔

جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جب نمازیوں نے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ کشمیر کے مسلمانوں کا جامع مسجد کے ساتھ ایک گہرا جذباتی اور روحانی رشتہ ہے۔ انجمن اوقاف کے ترجمان نے کہا کہ گذشتہ ڈھائی سالوں سے مسجد میں نماز جمعہ پر انتظامیہ کی پابندیوں نے خطے کے مسلمانوں کو شدید تکلیف دی تھی۔

تاہم انھوں نے کہا کہ میرواعظ کشمیر محمد عمر فاروق کی عدم موجودگی سے لوگ بہت مایوس ہیں جو کہ 5 اگست 2019 سے گھر میں نظر بند ہیں۔

ترجمان نے کہا ’’صدیوں پرانی روایت کے طور پر میرواعظ کشمیر جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ ان کی ڈھائی سال کی نظربندی نے ان لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے جو وادی کے کونے کونے سے عظیم الشان مسجد میں ان کے خطبات سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔‘‘

جامع مسجد کے امام مولانا احمد سید نقشبندی نے خطبہ جمعہ دیا۔

اپنی تقریر میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ نماز جمعہ پر بار بار پابندی مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔

امام صاحب نے کہا کہ یہ مرکزی عبادت گاہ اپنے منبر و محراب کے ساتھ صدیوں سے میرواعظین کشمیر کی تبلیغ اسلام اور ان کے انسانی بھائی چارے، محبت اور رواداری کے پیغام کا گواہ ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے جب جامع مسجد کو نمازیوں کے لیے بند کیا گیا ہو۔ محبوبہ مفتی کی حکومت میں بھیں یہاں ہفتوں تک نماز کی اجازت نہیں تھی۔

سکھوں کے دور میں یہ مسجد 21 سال تک بند رہی۔ وکی پیڈیا کے مطابق 1819 عیسوی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دور حکومت میں مسجد کو بند کرنے کا سامنا کرنا پڑا، جب سری نگر کے اس وقت کے گورنر موتی رام نے جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی۔

وکی پیڈیا کے مطابق اس دوران وہاں ’’نہ کوئی نماز پڑھی گئی اور نہ ہی مسجد سے اذان دی گئی۔ اسے 1843 میں گورنر غلام محی الدین نے دوبارہ کھولا جس نے اس کی مرمت پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کیے۔ لیکن 11 سال تک حکمرانوں نے صرف جمعہ کے دن نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ مسجد جمعہ کے روز صرف چند گھنٹوں کے لیے کھولی جاتی تھی اور دوبارہ بند کر دی جاتی تھی۔‘‘