گودھرا سے پلوامہ تک سازش ہی سازش!
عدالتوں سے کلین چٹ کے باوجود گجرات فسادات کا داغ دھل نہ سکا!!
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
امیت شاہ کے بیان کے بعد شنکر سنگھ واگھیلا کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سنسنی خیز انکشافات کا اعادہ
وزیر داخلہ کا گجرات فساد سے متعلق بیان سنسکرت زبان کے معروف محاورہ ’وناش کالے ویپریت بدھی‘ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سال سپریم کورٹ نے بالآخر ایس آئی ٹی کی اس رپورٹ پر مہر ثبت کردی کہ جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو کلین چِٹ دی گئی تھی۔ اس طرح گویا بی جے پی نے اپنے دامن سے گجرات فساد کا داغ دھونے کی آخری کوشش کرڈالی ۔ اب اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ پھر سے جب بھی اس پرفساد کا الزام لگے گا وہ سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر اپنا دامن بچا لے گی لیکن ریاستی انتخاب میں ناکامی کے خوف نے سارا کیا دھرا چوپٹ کردیا ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کھیڑا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران 2002 کے گجرات فسادات کا حوالہ دے کر دو منٹ میں بیس سال کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔ انہوں نے ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ایک بار 2002 کے اندر نریندر مودی کے دور میں فساد کرانے کی کوشش کی گئی تھی، پھر ایسا سبق سکھایا گیا کہ 2002 کے بعد 2022 آ گیا، کوئی سر نہیں اٹھاتا، فسادی گجرات سے باہر چلے گئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں امن قائم کیا۔ جب کانگریس تھی تو اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے‘۔
کانگریس پچھلے ستائیس سال سے اقتدار میں نہیں ہے پھر بھی اس کو موردِ الزام ٹھہرا کر لوگوں کو ڈرانے کے چکر میں شاہ جی ملک کے بدترین فسادات کی تہمت خود اپنے سرپر اوڑھ لی ۔ یہ بات انہوں نے دیگر مقامات پر دوہرا کر ثابت کیا کہ یہ زبان کی پھسلن نہیں ہے۔ بلقیس بانو کے مجرمین کی سزا معاف کرکے مرکزی حکومت نے یہ اشارہ کیا تھا کہ اگر وہ مشکل میں پھنسی تو فساد کا سہارا لے گی ۔ امیت شاہ کا بیان گواہ ہے کہ وہ مصیبت میں پھنس گئی۔ وہ اس سے نکل سکے گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا ۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا تو وزیر اعظم نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گودھرا کےمسلم مخالف کش فسادات کے لیے عرصۂ دراز سے ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں لیکن ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا ۔ گجرات سانحے کے 2 دہائیوں بعد بی جے پی نے پھر سے فساد کا ذکر کرکے نہ صرف وزیر اعظم کو ملنے والی کلین چٹ پر پانی پھیر دیا بلکہ امریکی انتظامیہ کے ذریعہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ پر 2014 تک کی پابندی کا بھی جواز فراہم کر دیا۔
امیت شاہ کے متنازع بیان نے ملک کے سارے انصاف پسند یو ٹیوب چینلس مثلاً نیوز لانڈری، نیوز کلک اور دی وائر کو شنکر سنگھ واگھیلا سے بات چیت کرنے پر مجبور کردیا۔ انہیں فسادات کو منظم سازش والے قرار دینے کے کئی مواقع ملے اور وہ اپنے الزام کو مختلف انداز میں دوہرا تے رہے۔ امیت شاہ اگر اپنے خطاب میں فساد کو امن قائم کرنے کا موثر الۂ کار نہیں کہتے تو یہ ممکن نہیں ہوتا ۔ شنکر سنگھ واگھیلا کا تعلق آر ایس ایس سے رہا ہے۔ وہ کیشو بھائی پٹیل کی حکومت میں وزیر تھے ۔ ان کے مطابق جب کیشو بھائی پٹیل نے اپنے وزراء تک سے ملنا جلنا بند کردیا تو ارکان اسمبلی کی گزارش پر انہوں نے بی جے پی سے بغاوت کی اور وزیر اعلیٰ بنے ۔ اس کے بعد وہ الیکشن ہار گئے اور کیشو بھائی کو پھر سے وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ واگھیلا کے مطابق 2002 میں انتخاب سے قبل بی جے پی کے خلاف شدید ناراضی تھی اس کا فائدہ اٹھا کر نریندر مودی زیر اعلیٰ بنے تھے ۔مودی سے جب اس وقت پوچھا گیا تھا کہ وہ انتخاب کیسے جیتیں گے تو انہوں نے کہا تھا دس دن انتظار کیجیے، گجرات میں کچھ بڑا ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوگا لیکن پھر گودھرا کا سانحہ ہوگیا ۔ اس لیے واگھیلا اس گودھرا کی سابرمتی ایکسپریس میں آگ کو منصوبہ بند سازش قرار دیتے ہیں۔
یہ الزام تو سنگین ہے لیکن اس کی تائید میں واگھیلا کی دلیل یہ ہے کہ ٹرین میں جلنے والے کارسیوک ایودھیا جارہے تھے ۔ اس کی اطلاع مسلمانوں کو کیسے مل سکتی تھی؟ ان کا کہنا ہے کہ باہر سے ڈبے کو آگ لگانا ناممکن ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آگ اندر ہی لگی تھی ۔ یہ بھی اس میں مسلمانوں کے ملوث نہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔نیوز لانڈری سے بات چیت میں شنکر سنگھ واگھیلا نے کہا تھا ’اگر گودھرا میں فسادات نہ ہوتے، ٹرین کا ڈبہ نہیں جلایا جاتا تو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گجرات میں محافظ ہی شکاری بن گئے‘۔ انہوں نے سونیا گاندھی کی طرح مودی کو موت کا سوداگر بھی کہا اور الزام لگایا کہ اس نے نفرت پھیلانے کے سوا عوامی فلاح وبہبود کا کوئی کام نہیں کیا ۔ واگھیلا کا کہنا تھا کہ مودی سرکار ان لاشوں کے ساتھ جلوس نکالنے کی سازش رچی تھی لیکن انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی ورنہ اور بھی زیادہ تباہی ہوتی۔ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نے گودھرا کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر گودھرا تشدد نہ ہوا ہوتا تو بی جے پی اقتدار میں نہ آتی۔
شنکر سنگھ واگھیلا نےیہ بات پہلی بار نہیں کہی بلکہ مئی 2019 میں بھی انہوں نے ایسے سنگین الزامات لگائے تھے لیکن کسی نے ان پر توجہ نہیں دی اس لیےکہ بی جے پی اس کا انکار کرتی تھی لیکن اب حالت بدل گئی ہے ۔ساڑھے تین سال قبل تو انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ پلوامہ کا دہشت گردانہ حملہ بھی بی جے پی کی اسی طرح سازش تھی جیسے گودھرا کا سانحہ ہو اتھا۔ اپنے الزام کی تائید میں واگھیلا نے کہا تھا کہ پلوامہ میں آر ڈی ایکس کے لیے استعمال کی جانے والی گاڑی پر گجرات کا پلیٹ نمبر تھا ۔انہوں نے الزام لگایا تھا انتخابات میں جیت کے لیے بی جے پی دہشت گردی کا سہارا لیتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق مودی اقتدار کے پہلے پانچ سالوں میں ملک کے اندر سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے ۔ گودھرا اور پلوامہ سے آگے بڑھ کر واگھیلا نے یہ بھی کہا تھا کہ بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک بھی بی جے پی کی ہی سازش تھی۔ کوئی بین الاقوامی ایجنسی یہ تصدیق نہیں کر پائی کہ ائیر اسٹرائیک میں 200 لوگ مارے گئے تھے وہ تو کہتے ہیں کہ وہاں کوئی نہیں مرا ۔
شنکر سنگھ واگھیلا نے اس وقت میڈیا سے بات کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ پلوامہ کو لے کر انٹلیجنس ذرائع کی معلومات ملنے کے باوجود کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر آپ کے پاس بالاکوٹ کو لے کر معلومات تھی تو دہشت گردوں کے کیمپس پر کارروائی کرنے کی خاطر پلوامہ جیسے واقعہ کا انتظار کیوں کیا گیا؟ واگھیلا کے سوالات نہایت معقول اور اہم ہیں لیکن جانب دار میڈیا کے لیے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اس لیے ان پر بحث و مباحثہ نہیں ہوتا اور کوئی بڑا چینل اس رہنما کو اپنے یہاں نہیں بلاتا تھا لیکن امیت شاہ کی مہربانی سے پہلے سوشیل میڈیا پر ان کی پذیرائی ہونے لگی ہے۔اس کے علاوہ نیوز 24نے ابھی حال میں ان کو اپنے چینل پر بلا لیا۔ دوسرے مرحلے کی رائے دہندگی سے قبل انہوں نے یہ پیشنگوئی کی کہ اس بار بی جے پی کو اسیّ سے بھی کم نشستوں پر کامیابی ملے گی کیونکہ عوام میں بی جے پی کے تئیں زبردست ناراضی ہے اور وہ خاموشی سے اس کے خلاف ووٹ کررہے ہیں ۔ بی جے پی کی کامیابی کا راز کھولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے ہندووں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ وہ اسی کی وجہ سے زندہ ہیں ورنہ مسلمان ان کو مار ڈالتے لیکن دھیرے دھیرے عوام کی آنکھیں کھلیں گی۔
فی الحال تو شنکر سنگھ واگھیلا کے الزامات کی تائید امیت شاہ نے کردی ہے مگر اس سے قبل سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اس کی بلاواسطہ حمایت کرچکے ہیں۔ فساد کے فوراً بعد احمد آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ وزیر اعلی نریندر مودی کو وہ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟اس چبھتے ہوئے سوال کے جواب میں اٹل جی نے برابر میں بیٹھے مودی کی جانب دیکھے بغیر کہا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ وہ راج دھرم (حکمراں کے فرائض) پر عمل کریں۔ راج دھرم کی اصطلاح بہت معنی خیز ہے ، میں بھی اسی پر عمل کر رہا ہوں، حکمراں ’پرجا پرجا‘ (عوام کےدرمیان) میں فرق نہیں کرسکتا، نہ جنم کی بنیاد پر، نہ ذات کی بنیاد پر اور نہ مذہب کی بنیاد پر‘۔ سوال یہ ہے کہ اٹل جی کو پہلے تو راج دھرم کی تلقین اور پھر تفریق و امتیاز پر تنقید کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کامطلب بغل میں بیٹھے نریندر مودی سمجھ گئے اور انہوں نے واجپئی کی جانب دیکھ کر دبے لہجے میں کہا کہ ’ہم بھی یہی کر رہے ہیں‘۔ ان کا مطلب غالباً یہ تھا کہ راج (اقتدار) کی خاطر مذہبی جذبات کا استحصال کررہے ہیں۔ اٹل اس وقت نہیں سمجھے اس لیے یہ کہہ کر اپنی بات مکمل کردی کہ ’مجھے یقین ہے کہ نریندر بھائی بھی یہی کر رہے ہیں‘۔ اٹل جی کو آگے چل کر یہ احساس ہوگیا کہ مودی جی اور گجرات کے فسادات ان کی شکست کا شاخسانہ بن جائیں گے ۔ ویسے اٹل جی نے تو بعد میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا ۔ اس بابت بی بی سی سے بات چیت میں شنکر سنگھ واگھیلا نے کہا تھا کہ ’اپریل 2002 میں بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ گوا میں ہوئی تھی۔ اس موقع پر واجپائی نے مودی کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا ذہن بنا لیا تھا، لیکن اڈوانی اس کے لیے تیار نہیں تھے‘‘۔
واگھیلا نے آگے چل کر اڈوانی سے اپنی ملاقات کا دلچسپ قصہ بھی سنایا جس سے اشارہ ملتا ہے اڈوانی کو بہت دیر سے جاکر ان کی غلطی کا احساس ہوگیا تھا ۔ ان کے مطابق ’ جب اڈوانی جی کی بیوی کملا جی کا انتقال ہوا تو میں ان سے ملنے گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے گوا میں مودی کو بچایا تھا اور اب پارٹی میں آپ کی کیا حالت ہو گئی ہے؟ اڈوانی نے کچھ نہیں کہا اور رونے لگے۔‘ ظاہر ہے اڈوانی جی اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہے تھے کیونکہ ان کا غمگساراب اس دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ وطن عزیز میں سیاستدانوں کے الزامات کو لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن 2002 کے فسادات کو روکنے کی ذمہ داری نبھانے والے فوجی جنرل کی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ فساد کے بعد ریاستی حکومت نےان پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کی تو آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے سپرد کردی کیونکہ ان کی ’سٹرائک کور ڈیویژن‘ اس وقت پڑوسی ریاست راجستھان میں تعینات تھی۔
جنرل شاہ نے سبکدوشی کے بعد اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں ان حقائق کو ایک دستاویزی شکل دے دی اور ایسے انکشافات کیے جو چیخ چیخ کر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ جنرل شاہ کے مطابق حکم ملتے ہی وہ فوجی دستے فضائیہ کے طیاروں میں سوار ہو کر احمد آباد پہنچ گئے تھے لیکن وہ لوگ ایک دن سے زیادہ ہوائی اڈے پر ہی بیٹھے رہے کیونکہ ریاستی حکومت نے ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا ۔جنرل ضمیر الدین شاہ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’جب ہم احمد آباد شہر کے اوپر پرواز کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ پورے شہر میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۰۰۰ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب ہم پہنچیں گےتو ہمیں گاڑیاں، مجسٹریٹ، پولیس گائیڈ اور سیل فون ملیں گے۰۰۰لیکن وہاں ہمارے ایک برگیڈیئر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔‘ جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ وہ ہوائی اڈے سے سیدھے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ گئے جہاں اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈیز بھی موجود تھے۔انھوں نے دونوں کو بتایا کہ انھیں کن چیزوں کی ضرورت ہو گی اور لوٹ کر ہوائی اڈے آ گئے لیکن پوری رات اور اگلا پورا دن انتظار میں گزر گیا اور آخرکار دو مارچ کی صبح تقریباً دس بجے انھیں گاڑیاں اور گائیڈ فراہم کیے گئے۔ ان کے مطابق ’اس کے بعد ہم نے اڑتالیس گھنٹوں میں صورتحال پر قابو پا لیا‘۔
جنرل شاہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ مجرمانہ غفلت ایک ایسے وقت میں کی گئی جب پولیس ان حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی یا خاموش کھڑی تھی جنھوں نے جگہ جگہ اقلیتوں کے علاقوں کو گھیر رکھا تھا۔ ‘ان کے خیال میں ہوائی اڈے پر ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ کیا جانا ’انتظامی غلطی‘ تھی اور اگر فوج کو احمد آباد پہنچتے ہی گاڑیاں مل گئی ہوتیں تو فسادات کو جلدی روکا جا سکتا تھا۔ان کی منطق یہ ہے چونکہ تین دن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسانی سے تین سو سے زیادہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس تاخیر کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ کیا اس سے شک کی سوئی گھوم کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی جانب نہیں آجاتی جنھوں نے راج دھرم نبھانے کا اعلان کیا تھا۔ گجرات فساد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا بھی گیا لیکن وقت کے ساتھ عوام نے اسے بھلا دیا تھا ۔ نئی نسل کو اس کا علم بھی نہیں کہ کیا ہوا تھا اور اس طرح بی جے پی کے گناہوں پر وقت کا پردہ پڑ گیا تھا ۔ ایس آئی ٹی کے ذریعہ حاصل کردہ کلین چٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اس کی توثیق نے اس کے دامن پر لگے داغ کو دھندلا کردیا تھا لیکن امیت شاہ نے پھر سے ان زخموں کو تازہ کردیا ہے۔
وزیر داخلہ ایک احمقانہ حرکت سے جنرل ضمیرالدین شاہ کی کتاب اور شنکر سنگھ واگھیلا کے جرأتمندانہ بیانات پھر سے موضوع گفتگو بن گئے اور بی جے پی کا کریہہ چہرا عوام کے سامنے آگیا ۔ ریاستی انتخاب کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن وزیر داخلہ پر قرآن مجید کی ایک تمثیل صادق آتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا‘‘۔ انسان ایسا کیوں کرتا ہے اس بابت آگے یہ رہنمائی کی گئی ہے کہ :’’ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالاں کہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا‘‘ روز قیامت تو ہر کسی کا حساب چکا دیا جائے گا مگر کچھ لوگوں کو اس دنیا میں بھی سزا کا نمونہ چکھا دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ کن لوگوں کے ساتھ ہوگا اورگجرات کے انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا علم اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
***
***
گجرات فساد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا بھی گیا لیکن وقت کے ساتھ عوام نے اسے بھلا دیا تھا ۔ نئی نسل کو اس کا علم بھی نہیں کہ کیا ہوا تھا اور اس طرح بی جے پی کے گناہوں پر وقت کا پردہ پڑ گیا تھا ۔ ایس آئی ٹی کے ذریعہ حاصل کردہ کلین چٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اس کی توثیق نے اس کے دامن پر لگے داغ کو دھندلا کردیا تھا لیکن امیت شاہ نے پھر سے ان زخموں کو تازہ کردیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022