گلوبل ہنگر انڈیکس اور ہماری تیز رفتار ترقی کی اصلیت
بھوک کے معاملہ میں بھارت دنیا کے 125 ممالک کی فہرست میں 111ویں مقام پر
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہمارے ملک کو وشو گرو بنانے کا خوب ڈنکا پیٹا جاتا ہے کیونکہ یہ سنگھیوں کی قومیت پرستی (Nationalism)میں فٹ بیٹھتا ہے۔ دنیا کی قیادت یا ’وشو گرو‘ کے مقام پر انہیں کس نے فائز کیا ہے؟ بظاہر تو یہ امیر ملک کے غریب شہریوں کا جملہ بازی کے ذریعے پیٹ بھرنے کا ایک ڈھکوسلہ نظر آتا ہے کیونکہ عالمی جدول برائے بھوک (گلوبل ہنگر انڈیکس) میں دنیا کے 125 ممالک میں بھارت 111ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دہائی سے کوئی سروے حکومت کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر کوئی عالمی ادارہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے تو ہم اسے فوری طور سے مسترد کردیتے ہیں۔ اس سے قبل ہنگر واچ کی رپورٹ بھی ہماری اصلیت گو دنیا کے سامنے لاچکی ہے۔ 2022 میں اس ادارہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 34فیصد خاندان ایسے ہیں جن کے پاس سروے سے قبل کے مہینہ میں دالوں کی اچھی خاصی مقدار تھی۔ اسی رپورٹ میں کورونا وبا کے دوران بہت سارے خاندانوں کی آمدنی ختم ہونے کی وجہ محدود سے محدود تر ہوگئی۔ اب اگر ہم جدول برائے انسانی ترقیات کا مطالبہ سامنے رکھیں تو پاتے ہیں کہ 192 ممالک میں ہمارا مقام 132واں ہے۔ فی کس آمدنی میں ہم بنگلہ دیش، سری لنکا، ویتنام وغیرہ سے پست ہیں۔ ہماری ترقی کا حال یہ ہے کہ ہم ڈیموگرافک ڈیوڈینڈ کو کام لگانے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف کئی کمپنیاں اپنا بوریا بستر باندھ رہی تھیں تب بھی ہمارا ملک انہیں اپنے یہاں بلاکر سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے سے قاصر تھا۔ اگرچہ ہمارے اندر وشو گرو بننے کی بھرپور صلاحیت ہے مگرہم اسے بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔
ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم 5 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جارہے ہیں ہمارے ملک کی جی ڈی پی جو 2003میں تقریباً 51لاکھ کروڑ روپے تھی جو 2023میں 312لاکھ کروڑ روپے کی ہوگئی ہے لیکن تشویش اس بات پر ہے کہ 20 سالوں میں امیروں کی دولت میں 16 گنا اضافہ ہوا ہے اور غریبوں کی دولت میں محض 1.4 فیصد بڑھی۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ غریبوں کی حالت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملک کی 80 فیصد دولت دو لاکھ خاندانوں کی ملکیت ہے۔ یہ رپورٹ ’’امریکی مارکیٹنگ انالائسیس فرم میرسیلس انوسٹمنٹ مینیجرس ‘‘کی ہے دوسری رپورٹ ’’وینریٹک آل ان انڈیاز نیو اکانومی ‘‘کے مطابق معاشی ترقی سے حاصل کردہ 80 فیصد دولت 20 کمپنیوں کے کھاتے میں جارہی ہے۔ نفٹی میں 10 سالوں میں 16 لاکھ کروڑ روپے آئے جس کا 80 فیصد صرف 20 کمپنیوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں تک ہمارے ملک میں معاشی نابرابری کا مقابلہ ہے تو ہم صرف برازیل اور روس سے بہتر ہیں۔ بھارت میں ایک فیصد شیئر ریچ کے پاس 40.6 فیصد دولت ہے۔ روس میں یہ 586 فیصد اور برازیل میں 49.3 فیصد ہے۔ اسی کے بعد بھارتی ہیں۔ دنیا میں سب سے اچھی حالت جاپان (17فیصد) کی ہے۔ 2023 میں ملک کی تمام کمپنیوں میں بی ایس ای 500 کی مارکیٹ کیپ میں حصہ داری 96 فیصد تک آگئی ہے جبکہ یہ 2004 میں 92 فیصد تھی۔ کریڈٹ سوائس کے مطابق 2020-21 کے درمیان ملک میں امیروں کی تعداد 6.89 لاکھ سے بڑھکر 7.96 لاکھ ہوگئی ہے۔ ہمارا ملک ایک انوکھا ملک ہے جہاں معاشی نابرابری کی خلیج بڑی گہری ہے۔ جہاں 5 لاکھ تک والے چھوٹے شہروں میں محض 20 خاندانوں کے پاس پورے شہر کی 80 فیصد دولت ہے اور 10 لاکھ تک والے چھوٹے شہروں میں محض 20 خاندانوں کے پاس 80 فیصد دولت ہے۔ اگر مزید گہرائی سے جائزہ لیں تو پونے اور لکھنو جیسیے ٹو ٹائر شہروں میں زیادہ آمدنی کا بڑا حصہ تجارت اور بڑے شہروں میں موٹری سیلیر پیکیج ہے۔ اگر ہم لگزری پروڈکٹ کی فروخت 2019-2022 کے درمیان تین سالوں کی ریوینیو گروتھ دیکھیں تو پیداوار کی فروخت کے سستی پیداوار کے مقابلے زیادہ رفتار سے بڑھی ہے۔ ریڈی میڈ کپڑوں میں موسم سرما کے 18 فیصد کے مقابلے میں وی مارٹ میں 14 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس طرح آٹوموبائل سیکٹر میں ماروتی سوزوکی کے ایک فیصد کے مقابلے بی ایم ڈبلیو میں پانچ فیصد اور دو پہیوں والی گاڑیوں میں ہیرو موٹر پانچ فیصد کے مقابلے میں رائل انفیلڈ میں 16 فیصد کی تیزی آئی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی کے دور حکومت میں امیر مزید امیر ہونے اور غریبوں کے مزید غریب ہونے کے اعداد وشمار حزب مخالف کی مختلف پارٹیاں منظر عام پر لارہی ہیں مگر گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت 2023 میں چار پائیدان مزید کھسک کر 111ویں مقام پر آگیا ہے جو بڑی تشویش کی بات ہے۔ گزشتہ سال 2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت 107ویں پائیدان پر تھا۔ ہمارے ملک میںبھکمری کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہم سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان سے بھی پیچھے ہیں۔ ہمارے یہاں بچوں میں تغذیہ کی کمی کی شکایت عام ہے۔ یہ 7 فیصد سے زائد ہے جو امسال بڑھ کر 728 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اصلاً گلوبل ہنگر انڈیکس عالمی قومی اور مقامی سطح پر بھوک کی وسیع پیمانے پر پیمائش اور ٹریک کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کا مقام 102واں ہے۔ بنگلہ دیش81ویں، نیپال 69ویں اور سری لنکا 60ویں مقام پر ہیں۔ مگر مرکزی حکومت کی وزارت برائے خواتین و اطفال نے گزشتہ سالوں کی طرح اس رپورٹ کو بھی یکلخت مسترد کر دیا ہے جو حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ جملہ سرکار میں مہنگائی، بے روزگاری، نسلی و فرقہ وارانہ جھڑپیں، نفرت انگیز بیان بازی، لنچنگ، معاشی ترقی کی دھیمی رفتار، بڑھتا ہوا عدم مساوات، فلاحی اسکیموں میں کمی، ملکی قرضوں میں اضافہ وغیرہ مسائل سے ملک کی معیشت نبرد آزما ہے۔ مودانی ماڈل کی معیشت نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر تجزیہ کرکے دیکھیں تو بے راہ رو معیشت کی ابتری سامنے آتی ہے۔ اگست 2023 میں شرح بیروزگاری 22 تا 23 فیصد تھی۔ اگست 2023 میں ایک کڑور 91 لاکھ 60 ہزار خاندانوں نے منریگا کے تحت کام کرنے کی درخواست دے رکھی ہے جس سے بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی صورتحال کو سمجھا جاسکتا ہے۔
17؍ اکتوبر کو دنیا بھر میں یوم انسداد غربت منایا جاتا ہے جس کا آغاز اقوام متحدہ نے کیا تھا۔ سب سے پہلے اسے 1987 میں غربت کے خاتمہ اور غریبی دور کرنے کے لائحہ عمل مرتب کیا گیا تھا۔ ہمارے ملک میں خط افلاس کے نیچے زندگی گزرنے والوں کو آج بھی شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ غریبوں کی بڑی تعداد مفلسی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جس کا اندازہ ان بچوں سے لگایا جاسکتا ہے جو اسکول جانے کی عمر میں کوڑا کرکٹ چن کر پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔ ہوٹل میں برتن دھو کر اور صاف صفائی کرکے سو دو سو روپے گھر لے جاتے ہیں۔ دھابہ پر دن بھرکام کرکے وہیں سوجاتے ہیں۔ بھوکے سونے والے اور تنگ دستی کی زندگی گزارنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہماری حکومتیں غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت ساری منصوبوں کا اعلان ضرور کرتی ہیں مگر وہ یا تو بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں یا سرکاری فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ کورونا وبا کے بعد سے ہی مرکزی حکومت 80 کروڑ غریبوں کے لیے مفت راشن کا انتظام کر رہی ہے مگر اس کے باوجود غربت پر قابو پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے کہ مفلسی سب بہار کھوتی ہے مرد کا اعتبار کھوتی ہے۔ یہ حال ہے ہماری سب سے تیز رفتار معاشی ترقی کا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت اور قانون کی بالا دستی کا ہے۔ ملک کی خوشحالی کا پیمانہ عوام الناس کی خوشحالی ہے، مثلاً انسانی ترقی کے جدول میں ہمارا کیا مقام ہے؟ فی کس جی ڈی پی کتنی ہے؟ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کتنی ہے؟ کیا ہمیں نوبل انعام مل رہا ہے؟ ملک میں سبھی طبقوں اور فرقوں کو متناسب حق مل پاتا ہے؟ یہ سب سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ محض جملہ بازی میں مصروف ہے۔
***
***
ہمارے ملک میں خط افلاس کے نیچے زندگی گزرنے والوں کو آج بھی شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ غریبوں کی بڑی تعداد مفلسی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جس کا اندازہ ان بچوں سے لگایا جاسکتا ہے جو اسکول جانے کی عمر میں کوڑا کرکٹ چن کر پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023