غازی آباد میں بزرگ مسلم شخص پر حملے کے تعلق سے ٹویٹس کے معاملے میں صحافی رعنا ایوب کو عدالت نے چار ہفتوں کے لیے گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا

نئی دہلی، جون 21: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق بمبئی ہائی کورٹ نے پیر کو غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان شخص پر حملے کا ویڈیو شیئر کرنے کے سبب ان کے خلاف درج ایک مقدمے میں صحافی رعنا ایوب کو چار ہفتوں کے لیے گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا۔

اپنے حکم میں جسٹس پی ڈی نائک نے کہا کہ ایوب کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس معاملے میں ریلیف کے لیے مناسب عدالت سے رجوع کرسکیں۔ جج نے کہا ’’گرفتاری کی صورت میں درخواست گزار کو 25000 کے ذاتی مچلکے اور ایک یا زیادہ ضمانتوں پر رہا کیا جائے گا۔‘‘

بزرگ شخص پر حملے کی ایک ویڈیو 14 جون سے ہی سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ اس میں 72 سالہ عبدالصمد سیفی نے بتایا ہے کہ اسے متعدد افراد نے ایک آٹورکشا میں اغوا کیا تھا اور جون کو ایک ویران مکان میں بند کردیا گیا تھا۔ سیفی نے الزام لگایا کہ ان پر حملہ کیا گیا اور انھیں ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی کاٹ دی اور انھیں دوسرے مسلمانوں پر حملے کی ویڈیوز بھی دکھائیں۔

تاہم غازی آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاملے کا کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے اور سیفی پر حملہ اس کے دیے گئے ’’تعویذ‘‘ کے برے اثر کی وجہ سے ہوا۔ پولیس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وائرل ویڈیو پر مبنی ٹویٹس ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے کی کوشش‘‘ ہیں۔

اس معاملے میں ٹویٹس کو لے کر رعنا ایوب کے علاوہ اتر پردیش پولیس نے ٹویٹر، نیوز ویب سائٹ دی وائر، صحافیوں صبا نقوی، محمد زبیر، کانگریس لیڈر سلمان نظامی، مشکور عثمانی اور سماء محمد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

ایک پولیس افسر کے ذریعہ درج کی جانے والی پہلی اطلاعاتی رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے فرقہ وارانہ بدامنی پھیلانے کے ارادے سے ٹویٹس کیے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے کو مسترد کرنے کی وضاحت کے باوجود صارفین نے اپنی پوسٹیں حذف نہیں کیں اور ٹویٹر نے بھی انھیں ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔

آج سماعت کے دوران رعنا ایوب کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے کے بارے میں متضاد ورژن سامنے آنے کے بعد صحافی نے اپنا ٹویٹ حذف کردیا ہے۔

دیسائی نے بتایا کہ ایوب کی حال ہی میں ریڑھ کی ہڈی کی سرجری ہوئی ہے اور اتر پردیش کی عدالتوں سے رجوع کرنے کے لیے انھیں تین سے چار ہفتوں کا وقت درکار ہے۔ ایوب نے 18 جون کو ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

پولیس نے ایوب اور دیگر کے خلاف دفعہ 153 (فساد برپا کرنے کے ارادے سے اشتعال انگیزی)، 153 اے (مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے)، 295 اے (دانستہ طور پر مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے) اور 120B (مجرمانہ سازش) کے تحت ایف آئی آر درج کی ہیں۔

اترپردیش پولیس نے اس بزرگ شخص پر حملے کے سلسلے میں نو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ تاہم غازی آباد کی عدالت نے تمام ملزمان کی عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔