غزہ کی خوں چکاں تاریخ

زمین کا ایک ایسا گوشہ جو کئی بار تاراج اور تعمیر ہوا

برہان احمد صدیقی ،جالنہ

1949 شہداء کے خون سے سیراب سرزمین فلسطین پر 1949 سے اب تک چودہ جنگیں لڑی گئیں
اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی غازیوں نے ہر دور میں صبر واستقامت کے ساتھ مزاحمت کی
غزہ کی سرزمین انسانی تاریخ کی قدیم ترین روایات و آثار کی محافظ ہے، معلوم تاریخ کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل عرب کے قبیلہ کنعان کے باشندوں نے اسے آباد کیا تھا، اس کے مغرب میں بحیرہ روم، جنوب مغرب میں صحرائے سینا، مشرق میں شام، جب کہ شمال مشرق میں بیت المقدس واقع ہیں۔ اس مختصر سی پٹی کا گیارہ کلومیٹر کا علاقہ مصر سے ملتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار غسان الشامی کہتے ہیں کہ غزہ کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غزہ انسانی تمدن میں چوتھا بڑا شہر ہے جسے شہر کے طور پر آباد کیا گیا۔ مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ قدیم مصری نصوص میں بھی ایک شہر کے طور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ برونز کے وسطی دور میں بھی اسے ایک شہر کا درجہ حاصل تھا۔
تاریخ کے اس لمبے سفر میں یہ علاقہ کئی بار تاراج ہوا اور کئی بار تعمیر ہوا۔ بدلتی حکومتوں کے ساتھ اس کا نام بھی بدلتا رہا۔ کنعانی لوگ اسے ہزانی اور یہود اسے اورشليم عبرانی لوگ اسے غزہ قدیم مصری اسے غازا تو اور عرب اسے غزہ ہاشم کے نام سے موسوم کرتے تھے۔
قدیم مصریوں نے اس پر تقریبا ساڑھے تین سو سال حکومت کی جس کے بعد یہاں قدیم فلسطین کے باشندے آباد ہوگئے، اس عرصے میں یہ ایک مشہور عالمی شہر بن چکا تھا جس پر بنو اسرائیل کے کئی انبیاء کی حکومت رہی جن میں خاص کر حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند حضرت سلیمانؑ کا نام قابل ذکر ہے۔ تقریبا 730 قبل مسیحی حکومت آشوریہ نے اس پر اپنی حکومت قائم کرلی، ان کے بعد حکومت فارس نے غزہ کو فتح کیا اور ایک عرصے تک ان کی حکومت قائم رہی، پھر 332 ق م میں سکندر اعظم نے اس پر لشکرکشی کی لیکن یہاں کے لوگوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ جب مقامی آبادی کو زیر کرنے میں وہ ناکام رہا تو اس نے شہر میں جگہ جگہ آگ لگا دی، فصلیں اور باغات نذرِ آتش کر ڈالے۔ اس خون خرابے کے بعد اس نے غزہ کو فتح کرلیا، اس کے بعد رومیوں نے یہاں اپنےقدم جمائے۔ اس دور میں اہل عرب نے اس خطے میں آباد ہونا اور تجارت کی غرض سے یہاں کا سفر شروع کیا ۔ 96 ق م میں ہاسمونین سلطنت نے غزہ کو تاراج کر دیا لیکن رومی سلطنت دوبارہ غزہ پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
آغاز اسلام میں مکمل فلسطین پر روم کی حکومت تھی اور وہ اسلامی فتوحات کی ترجیح میں شامل تھا۔ ڈاکٹر اسامہ جمعہ الاشقر اپنی مشہور کتاب ’’فتوح فلسطین‘‘ میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ فتح فلسطین کا نقشہ نبی (ﷺ) نے واضح فرمایا تھا اور آپ ہی نے فلسطینی محاذ کا آغاز بھی فرمایا۔ نبی (ﷺ) کی کارروائیوں پر تفصیلی گفتگو کرنے کے لیے مصنف نے ایک الگ باب کا اضافہ کیا۔ ’’فتح فلسطين قرار نبوي: فلسطین کی فتح ایک نبوی فیصلہ‘‘۔ مصنف نے واضح لکھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا آخری فوجی مشن فلسطین کی طرف تھا، خاص طور پر فلسطینی شہر رملہ کے جنوب مغرب بحیرہ روم کے ساحل کے قریب یابنا قصبہ اور بلقا اردن اور دارم غزہ کی پٹی میں دیر البلاح تک یہ مہمات پہنچ چکی تھی۔
اسلامی سلطنت باقاعدہ سلطنت روم سے برسر پیکار تھی۔ رسول اللہ (ﷺ) کی آخری وصیت میں حضرت اسامہ کے لشکر کی روانگی شامل تھی۔ یہ لشکر روم کے بادشاہ ہرقل کی فوج سے یابنا کے مقام پر لڑا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمرو بن العاص کو شام کے محاذ پر فوج کے ساتھ روانہ کیا۔ یہ فوج غزہ کے قریب ایک علاقے میں روم کی فوج سے محاذ آرا ہوئی۔ امام طبری لکھتے ہیں کہ اسلامی لشکر اور روم کے لشکر میں گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اس فتح نے غزہ کا راستہ مسلمانوں کے لیے کھول دیا اور تیرہ ہجری تک مسلمان آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ اسلامی فوج نے شہر قدس کا محاصرہ کرلیا اور پندرہ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق فلسطین تشریف لائے اور قدس کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اس موقع پر حضرت عمر نے مشہور عہد نامہ العهد العمريه قلم بند فرمایا۔ یہ عہد نامہ ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ہر مذہب کے مقدسات کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔
اس کے بعد قدس اور فلسطین کی سرزمین پر پانچ سو سال تک مسلمانوں کی حکم رانی رہی۔ یہ دور فلسطین کی تعمیر و ترقی کا دور رہا جس میں مختلف مذاہب کے لوگ امن و امان سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن مسلم حکم راں کے کمزور پڑنے اور مرکزی حکومت کے زوال کے بعد جب اسلامی سلطنت پر مختلف حکم رانوں نے اپنی الگ الگ ریاستیں قائم کر لیں اور باہم دست و گریباں ہوگئے تو قدس اور ساتھ میں فلسطین ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور1099ء میں فلسطین پر صلیبی حکومت قابض ہوگئی۔ فلسطین فتح کرتے ہی صلیبیوں نے خون ریزی و غارت گری کی حدیں پار کردی۔ تاریخ کے اوراق کہتے ہیں کی فتح کے بعد صلیبیوں نے تقریبا ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا اور اسلامی مقدسات کو پامال کیا۔
1187 میں صلاح الدین ایوبی نے حطین کی جنگ کے بعد غزہ اور پھر قدس پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کرلی البتہ صلاح الدین کے انتقال کے بعد ان کی قائم کردہ سلطنت کمزور پڑگئی اور آپس کی جنگ میں بکھر کر کمزور ہو گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1233ء میں صلیبیوں نے قدس پر دوبارہ قبضہ کرلیا لیکن یہ قبضہ زیادہ دن نہیں چلا اور صرف گیارہ سال میں ہی مسلم بادشاہ صالح نجم الدین ایوب نے 1244 میں قدس پر اسلامی پر چم لہرا دیا۔ صلیبیوں کے قبضے کے خلاف یہ جنگ غزہ کے مقام پر لڑی گئی۔
اس کے بعد عالم اسلام کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کا منگولوں کے لشکر سے مقابلہ ہوا۔ سیف الدین قطز کی سپہ سالاری میں 1259ء میں عین جالوت کی جنگ میں منگولوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی ۔ یہ جنگ بھی غزہ کے علاقے میں لڑی گئی۔1517 تک فلسطین پر ممالیک کی حکم رانی رہی اور 1616ء میں عثمانی حکم راں سلیم الاول نے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس وقت سے غزہ سلطنت عثمانیہ کے زیر انصرام رہا۔ عثمانی سلطنت کے زیر انصرام آنے کے بعد غزہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہا۔
1798ء میں جب نپولین نے شام اور مصر فتح کرلیا تو اپنے سپہ سالاروں سے کہا کہ غزہ افریقہ کی چوکی اور ایشیا کا دروازہ ہے اگر شام اور مصر پر حکومت قائم رکھنی ہے تو غزہ کو فتح کرنا ضروری ہے، اس لیے 1799ء میں نپولین اپنی فوج کے ہمراہ غزہ پر حملہ آور ہوا۔ عثمانی گورنر أحمد باشا الجزار کی سپہ سالاری میں غزہ کے باشندوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کئی دن کی گھمسان جنگ کے بعد غزہ پر نپولین کی فوج قابض ہوگئی۔ غزہ کے بعد اب نپولین کی نگاہ بیت المقدس پر تھی، اپنی فوج کو لے کر وہ آگے بڑھا لیکن اس کی فوج شہر عکا سے آگے نہ بڑھ سکی اور عثمانی افواج و مجاہدین سے پسپا ہو کر فلسطین سے نکل گئی اور غزہ و فلسطین پر عثمانی سلطنت قائم رہی یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ میں 7؍ نومبر 1917ء میں برطانیہ کی فوج نے دوبار کی ناکامی کے بعد تیسری بار غزہ پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد ہی پورا فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔1929ء میں غزہ کے باشندوں نے برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور دلیری سے لڑے اور غزہ سے قابض افواج کو نکلنا پڑا۔ 1936ء میں غزہ کے باشندوں نے آزاد فلسطین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور برطانیہ کے خلاف ہر محاذ پر جم گئے۔
سرزمین فلسطین کی تقسیم اور غزہ کے مستقبل کا فیصلہ:
1949ء میں عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا اور سرزمین فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
پہلا حصہ، جس کا رقبہ 21,000 ​​کلو میٹر ہے، اس پر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔
دوسرا حصہ، جس کا رقبہ 5978 کلومیٹر ہے، جسے مغربی کنارہ West Bank کہا جاتا ہے، اس کو امارت شرقیہ اردن سے جوڑ دیا گیا۔ اس خطے کو جلد ہی اردن نے اردن کی ہاشمی سلطنت کا نام دے دیا گیا۔
تیسرا حصہ، غزہ کی پٹی ہے اس کا رقبہ 336 کلو میٹر ہے، اسے مصری انتظامیہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس غیر منصفانہ تقسیم اور غاصب اسرائیل کی غیر قانونی نو آبادکاری نے سرزمین غزہ و فلسطین کو لامتناہی جنگوں میں جھونک دیا۔ البتہ جلد ہی غزہ سے فلسطین کے لیے آواز بلند ہوئی اور مصر نے غزہ کے آزاد وجود کو تسلیم کرلیا۔ اس طرح غزہ تنہا وطن فلسطین کی امید اور علامت بن گیا اور ساتھ ہی غاصب اسرائیل کے حملوں کے زد میں آگیا۔
غزہ پر اسرائیل کے حملے کی خوں ریز تاریخ اور غازیوں کی مزاحمت :
اسرائیل کے قیام کے اعلان سے دنیا بھر سے یہود پہلے سے زیادہ فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگے، آنے والے یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے اسرائیل اصل فلسطینیوں سے ان کے گھر خالی کرانے لگا، ان کے املاک پر قبضے کرنے لگا اور انہیں بے دخل کر کے یہود کی غیر قانونی کالونیاں بسائی جانے لگیں، اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچاتے ہوئے بہت سے فلسطینی پڑوس کے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ سرزمین غزہ کو مصر کی فوج کے کنٹرول میں دیکھ کر تقریبًا دو لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ ہجرت کر کے پہنچ گئے، یہ لٹے پٹے بے سہارا فلسطینی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
غزہ پر اسرائیل کا پہلا حملہ:
1949ء میں اسرائیل نے غزہ پر باقاعدہ پہلا حملہ کیا اور غزہ پر بم بھی برسائے جن کا اہل غزہ نے مصری افواج کے ساتھ مل کر خوب مقابلہ کیا، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے دونوں کے درمیان جنگ بندی کروادی اور اسرائیل نے بمباری بند کردی۔
غزہ پر اسرائیل کا دوسرا حملہ اور فوج کشی :
اس جنگ کو اسرائیلی مؤرخ بینی مورس اسرائیل کی سرحدی جنگوں کا نام دیتا ہے، یہ جنگ شام، لبنان اور اردن کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اندرون مغربی کنارہ اور غزہ میں بھی چل رہی تھی۔ غزہ میں اس جنگ کی اسرائیلی بربریت مغربی کنارے، شام یا لبنان سے کہیں زیادہ منظم تھی۔
اکتوبر 1951 میں مصر نے جزیرہ نما سینائی سے غزہ کی پٹی کو سیل کرنے سے منع کر دیا جبکہ اسرائیل پناہ گزیں فلسطینیوں کو مصر اور لیبیا کے صحرا کی طرف دھکیل دینا چاہتا تھا۔
غزہ پر اسرائیل کا تیسرا حملہ اور فرانس و برطانیہ کے فوجی دستے:
اسرائیل کے چھاپوں اور نئی آباد کاری مہم پر قابو پانے کے لیے دفاعی پوزیشن سے آگے بڑھنا ضروری تھا۔ اس لیے مصر ی کمانڈر نے فدائین کے دستے بنائے۔ پہلے فدائی حملے کے بعد اسرائیل بوکھلا گیا اور برطانیہ اور فرانس کے تعاون سے غزہ کے خلاف ایک خطرناک جنگ چھیڑ دی۔ جنگی تجزیہ نگار جیوسکو اپنی اہم کتاب Footnotes In Gaza میں اس حملے کی بربریت کو واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس حملے میں اسرائیل نے اپنی حامی افواج کے ساتھ مل کر سب سے زیادہ غزہ کے شہر خان یونس اور رفح کیمپ میں قتل و غارت گری مچائی۔
یہ جنگ 1957 سے 1967 تک دس سال کی جنگ بندی معاہدہ پر ختم ہوئی ۔
غزہ پر اسرائیل کا چوتھا حملہ:
1967ء میں مصر کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے سے دو دن پہلے اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملہ کر دیا۔ اڑتالیس گھنٹے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں جب اسرائیل نے غزہ کے ایک ہوٹل پر بمباری کی تو اقوام متحدہ کی امن فوج کے چودہ افراد کی موت ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے زیر انصرام چلائے جانے والے نو اسکولوں کو بھی اسرائیلی فوجیوں نے نشانہ بنایا۔
شہریان غزہ پر اسرائیل کا پانچواں حملہ:
1971ء میں اسرائیل قابض فوج کے سربراہ ایریل شیرون نے غزہ پٹی کے پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر بلڈوزر چلانے کا حکم دے دیا۔
جون 1967 کی جنگ کے بعد چار سال تک فلسطینی مزاحمتی تحریک نے غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں اس نے اپنے مجاہدوں کو کلاسیکی فوجی تربیت دی اور اب ان کی حیثیت صرف ایک عام چھاپا مار فدائین کی نہ رہی، وہ تحریک آزادی فلسطین کے بینر تلے مضبوط ہو رہے تھے۔ جب اسرائیل غزہ پر قبضہ بڑھانے میں مصروف تھا، غزہ کے مجاہدین زمین دوز سرنگوں کا جال بچھا رہے تھے۔
غزہ پر اسرائیل کا چھٹا حملہ، توڑو اور حکومت کرو:
غزہ پر اسرائیل کی چھٹی جنگ خفیہ نوعیت کی تھی جو Guevara Of Gaza کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں اسرائیل غزہ میں اپنا دجود قائم کر چکا تھا، اس لیے وہ اہل غزہ کے خلاف سیاسی حربے چل رہا تھا۔ وہیں غزہ کے مزاحمتی گروہ بھی اپنے
تانے بانے بہت حکمت سے بن رہے تھے ۔ شیخ احمد یاسین نے غزہ میں الاخوان المسلمون کی شاخ مجمع اسلامی کے نام سے قائم کی۔ دسمبر 1987ء میں شیخ یاسین نے اپنی تنظیم کو ختم کر کے اسلامی مزاحمتی تحریک حرکۃ المقاومہ الاسلامیہ قائم کی، جسے اس کے عربی مخفف حماس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
غزہ کے خلاف اسرائیل کی ساتویں جنگ:
غزہ میں اسرائیل نے یہ جنگ غیر مسلح شہری احتجاج کو طاقت سے کچلنے کے لیے چھیڑی تھی ۔1987 سے 1993 کے درمیان غزہ کی پٹی میں پانچ سو سے زیادہ لوگ مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں گھر تباہ ہوئے۔ مزید برآں، جنوری 1991 میں اسرائیل نے جنرل ایگزٹ آرڈر کو منسوخ کر دیا۔ فلسطینیوں کو باہر نکلنے کے لیے اجازت نامے کی درخواست کرنا پڑتی تھی۔
مارچ 1993 میں پہلی بار اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر سیل کر دیا۔
غزہ پر اسرائیل کی آٹھویں جنگ:
غزہ پر مکمل تسلط قائم کرنے کے لیے اسرائیل نے ایریل شیرون کی قیادت میں فروری 2001ء سے ستمبر 2005 تک غزہ کے خلاف عسکری کارروائیاں کیں۔ ان سب کارروائیوں کے درمیان شیرون نے ظلم کی ساری حدیں پار کردی۔ 2004ء میں حماس کے رہنما شیخ یاسین کو سرجیکل اسٹرائک میں شہید کر دیا گیا۔ اگلے ماہ ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو بھی شہید کر دیا گیا۔ دوسرے انتفاضہ کے دوران غزہ کی پٹی میں تقریباً تین ہزار فلسطینی شہید ہوئے۔
2005 میں غزہ سے اسرائیل کا انخلا :
مارچ 2005 میں اسرائیل اور غزہ کی مزاحمتی جماعتوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔
اگست اور ستمبر 2005ء میں اسرائیل کی فوج اور قابض یہود آبادی نے غزہ خالی کردیا، یہ مزاحمتی جماعتوں کی بڑی کامیابی تھی ۔
غزہ پر اسرائیل کا نواں حملہ:
غزہ پر نویں جنگ اسرائیل کی نام نہاد علیحدگی کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی اور یہ دو سال تک جاری رہی۔ صنعتی زون کو ختم کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں نے ملازمت کھو دی۔ سمندر کے حدود کو بھی غزہ کے باشندوں پر تنگ کر دیا گیا، بیس میل سے کم کرکے صرف نو میل تک ہی ماہی گیری کی اجازت باقی رہی۔ دوسری جانب کئی میٹر اونچی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کر دی گئی۔ ستمبر 2007ء میں اسرائیل نے باضابطہ طور پر غزہ پٹی کو دشمن علاقہ قرار دے دیا۔
غزہ پر حماس کی سیاسی بالادستی:
جون 2007ء میں حماس نے الفتح کو الیکشن میں ہرا کر غزہ پر اپنی جیت درج کی۔ حماس کی یہ جیت اسرائیل کو ہضم نہیں ہوئی، منتخب عوامی حکومت کو تسلیم کرلینے کی شکل میں اسے حماس کی سیاسی جیت کو تسلیم کرنا پڑتا اور غزہ کے انتظام میں کسی دوسرے کی مداخلت غیر قانونی ہوتی اور آگے حماس مغربی پٹی پر بھی سیاسی کامیابی حاصل کر سکتا تھا، اس طرح وہ الفتح کے لیے بھی خطرہ تھا۔ چنانچہ الفتح اور اسرائیل دونوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
غزہ پر اسرائیل کی دسویں جنگ:
آپریشن کاسٹ لیڈ اسرائیل کا غزہ پر دسمبر 2008 سے جنوری 2009 میں ہونے والی دسویں جنگ کا کوڈ نام تھا، اس میں 236 مجاہدین اور 1,417 فلسطینی شہری شہید ہوئے تھے۔ اس جنگ میں زمین، سمندر اور فضا ہر جانب سے اسرائیل نے غزہ پر حملے کیے تھے۔
جون 2010 میں نو ترک این جی او کارکنوں کے قتل کے بعد ناکہ بندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ خیر سگالی کے خود ساختہ اشارے میں، اس نے صرف بیالیس اشیا کی فہرست شائع کرکے اپنی محاصرہ پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے بتایا کہ ان مذکورہ اشیا ہی کو داخل کیا جا
سکتا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی گیارہویں جنگ:
نومبر 2012 میں، اسرائیل نے غزہ کے خلاف گیارہویں جنگ کا آغاز کیا۔ اس جنگ میں کوئی زمینی کارروائی شامل نہیں تھی، 166 افراد شہید ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
غزہ پر اسرائیل کی بارہویں جنگ:
غزہ پر بارہویں اسرائیلی جنگ 8؍ جولائی 2014 کو شروع ہوئی۔ یہ جنگ صرف اس لیے شروع ہوئی کیونکہ نیتن یاہو حکومت اپریل 2014 کے الفتح اور حماس کے درمیان ہونے والے مصالحتی معاہدے کو ختم کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ PA کے زیر انتظام مغربی کنارے اور حماس کے زیر اقتدار غزہ کے درمیان سات سالہ جھگڑا اسرائیل کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک اثاثہ تھا جس کی اسرائیلی وزیر اعظم نے ہر قیمت پر حفاظت کرنے کی کوشش کی۔
پچاس دنوں تک چلنے والی یہ جنگ پچھلی جنگوں سے زیادہ تباہی لائی تھی۔اسرائیلی جارحیت اور حملوں میں تقریبا اٹھارہ ہزار مکانات کلی یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نقصانات کا تخمینہ کم از کم 1.6 بلین ڈالر تھا۔
غزہ پر اسرائیل کی تیرہویں جنگ:
11؍ نومبر 2019ء اہل غزہ فجر کے وقت ایک خوفناک دھماکے کی آواز سے جاگ پڑے، اسرائیل نے سرایا القدس کے قائد ابو العطاء کے گھر پر میزائل حملہ کیا تھا جس میں وہ اور ان کی اہلیہ شہید ہوگئے تھے۔۔ اسرائیل اور سرایا القدس کے درمیان یہ جنگ کچھ دنوں تک چلی۔
غزہ پر اسرائیل کے بار بار کے حملوں نے غزہ کے باشندوں کی زندگی تباہ کر دی ہے۔ یتیم بچوں کی تعداد ہر حملے میں بڑھ جاتی ہے اور کتنے ہی والدین اپنے بچوں کو کھو دیتے ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس نے اپنے کسی عزیز کو اسرائیل کے حملوں میں نہ کھویا ہو۔ یہ حملے آبادیوں کی آبادیاں اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس پر اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں، غزہ کے حدود پر اونچی ناقابل عبور دیواریں، سمندر میں پھیلے ہوئے پہرے۔ ان سب نے وہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
غزہ کی آبادی اس وقت جس ظلم و بربریت کا نشانہ بنی ہوئی ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔اسرائیل کا ظلم ساری حدوں کو پار کرچکا ہے اور اہل غزہ کی عزیمت و استقامت بھی سارے اندازوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔
(مضمون نگار کا موبائل فون نمبر 9540154515)
***

 

***

 غزہ کی آبادی اس وقت جس ظلم و بربریت کا نشانہ بنی ہوئی ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔اسرائیل کا ظلم ساری حدوں کو پار کرچکا ہے اور اہل غزہ کی عزیمت و استقامت بھی سارے اندازوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023