غزہ : اسلام کا ایک اور معجزہ

جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد بیک نظر

ڈاکٹر ساجد عباسی

اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے گروہ کے اندر غیرت ایمانی کو پیدا کرکے اسلامی عقیدے کی آفاقی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ صبر، توکل اور جذبۂ شہادت کے ساتھ چھوٹی سی جماعت بھی سوپر پاور سے نبرد آزما ہو سکتی ہے اور عالمی فساد کو چیلنج کر سکتی ہے ۔
دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک کی ایک چھوٹی سی پٹی میں ایک محصور شدہ آبادی پر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت، سوپر پاور اور مغربی ممالک کی بھر پور مدد سے سات ہفتوں تک مسلسل اہلِ غزہ کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھ کر فضائی حملے کرتی رہی ہے۔ لیکن غزہ کے معصوم عوام آگ اور خون کے دریا کو عبور کرتے رہے اور صبر و ثبات کی چٹان بن کر اپنے شہداء کو الوداع کرتے رہے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔ دنیا کی کوئی دوسری قوم ہوتی تو سات ہفتے کیا سات دن کی بھی تاب نہ لاسکتی اور مکمل سر نِگوں ہوکر مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوجاتی، لیکن یہ اسلام کا معجزہ ہے کہ انتہائی کم تر وسائل کے باوجود اہلِ ایمان کا گروہ کامیابی کے ساتھ اپنے وقت کی ایک طاقت ور قوم سے برسر پیکار ہے۔
دنیا کی سب سے مظلوم قوم کو سب سے خوں خوار فوج اور سفاک ترین سیاست دانوں کی قیادت میں گزشتہ پچھتر سالوں سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حالیہ جنگ میں مسجدوں، اسکولوں، رفاہی کیمپوں حتیٰ کہ ہسپتالوں پر بمباری ہوتی رہی ہے۔ غزہ کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال کے بارے میں یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس کے نیچے حماس کا ہیڈکوارٹر ہے جہاں ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور سرنگوں سے اس کا رابطہ ہے۔ اس جھوٹ کو دنیا کے سامنے سچ ثابت کرنے اور اب تک ہسپتالوں پر کی گئی بمباری کو درست بتانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے لیکن دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ اب تک کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اب تک کے حالات یہ ثابت ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کی ظالم ریاست کو مہلت دی تھی اور پچھتر سالوں کے بعد اس کو پکڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظالم کو مہلت دی جاتی ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جس طرح فرعون کو بھی چھوٹ ملی تھی لیکن ایک حد کے بعد اس کو بھی پکڑ لیا گیا۔
اب جبکہ اسرائیل عارضی جنگ بندی کے لیے آمادہ ہوا ہوا ہے تو یہ آمادگی انسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ زمینی جنگ میں اپنی یقینی شکست سے بچنے اور عالمی میڈیا کی پھٹکار کے سبب ہے۔ بد عہد صہیونی ریاست کی طرف سے اس جنگ بندی کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
یہ حیرت انگیز حقیقت بھی سامنے آئی کہ اس ترقی یافتہ دورِ جمہوریت میں انسانیت نے مزید درندگی میں ترقی کی ہے۔ دنیا کے حالات اس حقیقت کو بین طور پر ثابت کرچکے ہیں کہ اسلام ہی اس کرۂ ارض پر انسانیت کو بچاسکتا ہے۔ جس رفتار سے دنیا ترقی کر رہی ہے اس سے زیادہ تیز رفتار سے دنیا اسفل سے اسفل ترین بنتی جا رہی ہے۔ جھوٹے عقائد کے ساتھ بدترین اخلاق کو اختیار کرکے انسانیت درندگی کی انتہا کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں شرافت اور انسانیت کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے وہ اللہ کے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کی مرہونِ منت ہے۔ ختم نبوت کے بعد تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں سے امتِ مسلمہ کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ دنیا کو اخلاقیات کی روشنی سے منور رکھتی لیکن افسوس کہ امتِ مسلمہ نے اس عظیم ذمہ داری کو ہی بھلا دیا اور درندہ صفت قوموں کی غلام بن کر دنیا کو تاریکیوں کے حوالے کر دیا۔ آج مسلم امت جو کہ امت کے درجے سے گر کر محض ایک قوم بن گئی ہے خود کو مظلوم سمجھتی ہے لیکن اللہ کی نظر میں شاید سب سے بڑی مجرم یہی قوم ہے۔
امتِ مسلمہ کے ذمے دو کام تھے۔ ایک یہ کہ وہ دنیا کو کائناتی حقائق (توحید، رسالت و آخرت) سے واقف کرواتی اور عالمِ انسانیت کو اس مقصدِ زندگی سے روشناس کرواتی جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا تھا۔ سچے عقائد اور ایک اللہ کی بندگی کا مقصد انسانوں کے اندر وہ اخلاقیات پیدا کرتے ہیں جس کی بنا پر انسان کو مسجودِ ملائکہ اور احسنِ تقویم بنایا گیا تھا۔ دوسرا کام یہ تھا کہ عالمِ اسلام ایسی عسکری طاقت سے لیس ہوتا جس سے دنیا میں فتنہ وفساد کا خاتمہ ہوتا اور امن و انصاف کا قیام ہوتا۔ دنیا میں جب حق و باطل کا معرکہ پہلے دن سے برپا ہے تو اس معرکہ میں رسولوں اور انبیاء نے نورِ ہدایت سے انسانوں کو منور کرنے اور باطل کے شر سے دنیا کو بچانے کا اہم رول ادا کیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے بعد امتِ مسلمہ کی باگ دوڑ ایسے حکم رانوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جنہوں نے دنیا کی قیادت کرنے کے بجائے شرپسند عالمی طاقتوں کے آلۂ کار بن کر امت کو محکوم بننے پر مجبور کر دیا ہے۔
آج اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے گروہ کے اندر غیرت ایمانی کو پیدا کرکے اسلامی عقیدے کی آفاقی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ صبر، توکل اور جذبۂ شہادت کے ساتھ چھوٹی سی جماعت بھی سوپر پاور سے نبرد آزما ہو سکتی ہے اور عالمی فساد کو چیلنج کر سکتی ہے۔
آج لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیسے سات ہفتوں سے ایک چھوٹی سی آبادی بھوک، پیاس اور زخموں سے چور ہوکر بھی مسلسل بمباری کو برداشت کرسکتی ہے۔ یہ تجسس لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے اس اصول پر بنایا ہے کہ اس میں حق اور باطل دونوں طرح کی طاقتوں کو برسرِ پیکار رکھا، اور دونوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی ایک کشمکش برپا ہے۔ اسی کشمکش کے درمیان انسانوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔اس کشمکش میں حق کو غالب رکھنے والے دو سرچشمے ہیں۔ قرآن اسلام کی فکری قوت کا سرچشمہ ہے۔ اس فکری طاقت کے ساتھ استدلال کے ذریعے انسان کی عقل کو حق کو ماننے کے لیے قائل کیا جاسکتا ہے۔ قرآن توحید، آخرت و رسالت کے عقائد کو جو کائنات کی حتمی سچائیاں Ultimate Truths ہیں ان کو پر زور دلائل سے ثابت کرتا ہے اور ساتھ میں بہترین نصیحت کے ساتھ قلوب کو گرمانے اور پگھلانے والا اثر آفریں بلیغ کلام اپنے اندر رکھتا ہے۔ اسلام کی طاقت کا پہلا مظہر یہ ہے کہ اسلام کی ناقابلِ تردید فکر کو دلائل کے ساتھ انسانیت کے سامنے پیش کیا جائے۔ افکار کی دنیا میں اسلامی فکر کے تئیں انسانوں کے اندر فکری جنگ کو برپا کرنا اور دلائل سے اس کی حقانیت کو ثابت کرنا فکری جہاد کہلاتا ہے۔ اس فکری جہاد کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے: فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔(الفرقان ۵۲۔) اس آیت میں لفظ بِهِ میں ضمیر سے مراد قرآن ہے۔ یعنی قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ہر قسم کے باطل (کفر، شرک اور الحاد) کا ابطال کرو اور حق کو دلائل کی روشنی میں پیش کرو۔اس کو جہادِ کبیر یعنی بڑا جہاد کہا گیا ہے۔ اس کو بڑا جہاد اس لیے کہا گیا ہے کہ میدانِ جنگ کا جہاد ہر وقت اور ہر جگہ نہیں ہوسکتا ہے لیکن فکری جہاد ہر وقت اور ہر جگہ ممکن ہے اور اس کام کے لیے امت کا ہر فرد مکلف بھی اور مسئول بھی۔ایک کم پڑھا لکھا آدمی بھی قرآن کی ایک آیت کے ذریعے اپنی بساط کے مطابق حق کو پیش کرسکتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بن عاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ‌نے فرمایا: مجھ سے آگے پہنچاؤ اگرچہ وہ ایک آیت ہی ہو-
دوسری چیز جو اسلام کو غالب کرنے اور غالب رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے وہ ہے اسلامی مملکت کا ناقابلِ تسخیر عسکری طاقت کا حاصل کرنا جس کا مقصد یہ ہو کہ دنیا سے جبر و استبداد کے نظام کو ختم کیا جائے جس کی بدولت باطل کے علم بردار حق کے راستے کو روکتے ہیں۔ اسلام کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ دین کے معاملے میں جبر و اکراہ نہیں ہے یعنی جبر واکراہ کی بنیاد پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دینِ اسلام کو قبول کرے۔ اسی طرح اسلام کسی بھی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا میں کوئی جبر و اکراہ کے ذریعے قبولِ اسلام میں رکاوٹ بنے۔ دین پر چلنے، اس کی اشاعت کرنے اور اس کو قبول کرنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہےکہ : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔(سورۃ البقرۃ ۱۹۳)۔
دنیا میں جہاد فی سبیل اللہ کا جواز تاقیامت باقی رہے گا اس لیے کہ زمین کے کسی نہ کسی حصہ میں کچھ مطلق العنان حکم راں استبداد کے ساتھ حکم رانی کرتے رہیں گے لیکن یہ جہاد اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلم حکومتیں طاقتور ہوں۔ اسی لیے  مسلم حکم رانوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘(سورۃ الانفال ۶۰) اس آیت میں ایسا سنہرا حکم دیا گیا ہے کہ ایک اسلامی حکومت کے حکم راں جنگی ساز وسامان اور جنگی ٹیکنالوجی میں دشمن کے مقابلے میں چند قدم آگے رہیں تاکہ دشمن اسلامی مملکت سے اس قدر ڈرے کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس آیت پر عمل کرنے کے نتیجے میں بغیر جنگ کیے ہی امن قائم رہ سکتا ہے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی اس لیے ہوئی کہ پچھلی صدی کے آغاز سے ملکوں کے درمیان جنگی مسابقت جاری وساری رہی۔ اسی مسابقت کے نتیجہ میں امریکہ اور سویت یونین میں براہ راست جنگ نہیں ہوئی۔
افسوس کی بات یہ ہے جس اسلام نے دنیا کو سائنس کا راستہ دکھایا تھا مسلمانوں نے اسی سائنس میں تحقیق کے میدان کو فراموش کردیا ۔جس وقت سے مسلمانوں نے تحقیق واجتہاد کو پسِ پشت ڈال دیا اسی وقت سے مسلم حکومتیں مغربی اقوام کی سیاسی، معاشی اور فوجی طور پر غلام بن گئیں جبکہ مسلم حکومتوں کو اللہ تعالیٰ نے بے حد وحساب وسائل سے مالا مال کیا۔
قرآن نے اسلامی غزوات کے تین مقاصد بیان کیے ہیں۔ ایک ہے مدافعت میں جنگ کرنا۔ دوسرا مقصد ہے مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانا۔ تیسرا مقصد ہے فتنہ کی کیفیت کو ختم کرنا۔ فتنہ سے مراد ہے اسلام پر عمل کرنے، اس کی اشاعت کرنے اور اسلام کو قبول کرنے میں رکاوٹ ہو۔
پہلی قسم کی جنگ جو مدافعت میں کی جاتی ہے اس کی مثالیں غزوۂ بدر، احد اور غزوۂ احزاب ہیں۔ غزوۂ احزاب کے بعد رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اس غزوہ کے بعد دشمن تم پر چڑھائی نہیں کرے گا بلکہ ہم اس پر چڑھائی کریں گے۔ چنانچہ غزوۂ احزاب کے بعد اقدامی جنگوں کا آغاز ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اسلام میں دفاعی اور اقدامی جنگوں کی غرض و غایت کیا ہے؟ دفاعی جنگ اس وقت کی جاتی ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور دشمن ان پر حملہ کرے۔ اس وقت جنگ میں حصہ لینا فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ اس وقت کرو یا مرو کی نوبت ہوتی ہے اور ایسی صورت میں بسا اوقات جنگ کی تیاری کرنے کی مہلت بھی نہیں مل پاتی۔ ویسے اسلامی حکومت کا کام ہے کہ وہ اطراف واکناف میں دشمن کی سرگرمیوں سے بے خبر نہ رہے بلکہ خطرات کا اندازہ لگایا جاتا رہے۔رسول اللہ (ﷺ) ہمیشہ گرد ونواح کی خبر لینے کے لیے لوگوں کو بھیجا کرتے تھے تاکہ دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رہے اور بالکل بے خبری میں دشمن سے سامنا نہ ہو۔ غزوۂ بدر کے موقعہ پر ایسی ہی غیر متوقع صورت حال پیش آگئی تھی۔ رسول اللہ (ﷺ) ۳۱۳ اصحاب کو لے کر تجارتی قافلہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے نکلے تھے تاکہ قریشِ مکہ شام تک کے سفر کو بے ضرر سمجھ کر مسلمانوں کو ہلکا نہ سمجھیں اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر کسی بھی وقت کوئی جنگی کارروائی نہ کر گزریں۔ اس دباؤ کی وجہ یہ تھی کہ مشرکینِ مکہ مدینہ کی ریاست سے کوئی نا جنگی معاہدہ کرلیں تاکہ مدینہ کی ریاست کو پائیدار امن نصیب ہو لیکن خلافِ توقع قریشِ مکہ کی طرف سے تجارتی قافلہ کو درپیش خطرہ سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار مسلح جنگجوؤں کے لشکر کو روانہ کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی لشکر سے نمٹنے کی طرف اشارہ کیا۔یہ ایک ایسی دفاعی جنگ تھی جس میں تیاری کا ذرا سا بھی وقت نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں فرشتوں سے مدد فرمائی اور تاریخی فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ کے بعد پوری سورت الانفال نازل ہوئی جس میں اس جنگ پر مفصل تبصرہ ہے۔ اس کے بعد غزوۂ احد اور غزوۂ احزاب بھی دفاعی جنگیں ثابت ہوئیں۔ غزوۂ احد میں ایک جیتی ہوئی جنگ تھی جو شکست میں تبدیل ہوئی جب حکمِ رسول کی نافرمانی ہوئی تھی۔ سورۃ آل عمران میں اس جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا۔غزوۂ احزاب میں دس ہزار کا لشکر تیار کیا گیا جو تمام عرب کے مشرک قبائل کی مشترکہ فوج پر مشتمل تھا اور یہ بھی بہت جان لیوا ثابت ہوتا اور مدینے کی ریاست کو تہس نہس کر دیا جاتا اگر خندق کھودنے کی منصوبہ بندی نہ کی جاتی۔ اس جنگ پر تبصرہ سورۃ الاحزاب میں کیا گیا۔ غزوۂ تبوک اقدامی جنگ تھی لیکن اپنی نوعیت کے اعتبارسے یہ بھی دفاعی جنگ ہی تھی۔
دفاعی جنگ کی اجازت اس طرح دی گئی ہے: ’’ اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس قصُور پر کہ وہ کہتے تھے ”ہمارا رب اللہ ہے“ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبر دست ہے۔ (الحج ۳۹-۴۰)
مدینہ ہجرت کرنے سے قبل حکم یہ دیا گیا تھا کہ مشرکین سے اعراض برتا جائے اور برائی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ مکہ میں دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں اگر انتقامی کارروائی کی جاتی تو خانہ جنگی کی شکل رونما ہوتی اور ایسی صورت میں دعوت الی اللہ کے لیے جو ماحول درکار تھا وہ مکدر ہوجاتا اور اتمامِ حجت کی حد تک دعوت الی اللہ کا کام نہ ہوپاتا۔لیکن مدینہ ہجرت کرنے کے بعد اس بات کی اجازت دی گئی کہ ظلم کے مقابلے میں جنگ کی جائے تاکہ ظلم کا زور ٹوٹے اور اسلامی ریاست کا وجود خطرے میں نہ پڑ جائے۔
قرآن میں اقدامی جنگوں کے بارے میں دو صورتیں پیش کی گئی ہیں۔ پہلی صورت ہے مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائی جائے۔ اگر کسی اسلامی ریاست کے پڑوس کسی ریاست میں وہاں کے عوام پر ظلم ہو رہا ہو تو اسلامی ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس ریاست کو ظالموں سے آزاد کروانے کے لیے ان سے لڑیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے‘‘ (النساء:۷۵) مکہ کو فتح کرنے کے لیے جو لشکر تیار کیا گیا تھا وہ اسی نوعیت کی اقدامی جنگ کے لیے تھا۔
اقدامی جنگ کی دوسری صورت وہ ہے جس کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی ریاست میں وہاں کی عوام کے لیے اسلام کو قبول کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے میں آزادی نہ ہو اور وہ ریاستی جبر واستبداد کا شکار ہوں یا اسلام کو ترک کرنے کے لیے ان کو مجبور کر دیا جائے تو اس صورت حال کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا اور فرمایا گیا کہ فتنہ قتل سے شدید تر ہے (البقرۃ ۲۱۷) یعنی اس فتنہ کو دور کرنے کے لیے جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں جتنے بھی معرکے پیش آئے وہ دراصل اسی نوعیت کی اقدامی جنگوں کی تعریف میں آتے ہیں جو سلطنت کی وسعت کے لیے اور جہاں گیری کے نہیں بلکہ اس لیے کی گئیں کہ ان ملکوں کی عوام کو ان کے حکم رانوں کے جبر واستبداد سے آزاد کرایا جائے تاکہ ان کے لیے فکر وعمل کی کھلی آزادی رہے ۔
اس وقت غزہ میں جنگ نہیں بلکہ نسل کشی کی جارہی ہے لیکن غزہ کے مجاہدین نے ساری دنیا کو جہاد کے اصل مفہوم سے آشنا کروایا ہے، جبکہ اسلام دشمن طاقتوں نے جہاد کو دہشت گردی کا ہم معنی بنا کر رکھ دیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ مجاہدین سے براہ راست جنگ کریں اور اپنے جنگی مقاصدحاصل کریں۔ اسرائیل اپنی خفت کو مٹانے کے لیے معصوم عوام پر بمباری کر رہا ہے۔ اہل غزہ کی لڑائی ظلم کے بھی خلاف ہے اور مسجدِ اقصیٰ کو غاصبوں سے آزاد کرانے کے لیے بھی ہے۔
تم ہو دنیا میں تصویرِ صدق و صفا
اہلِ غزہ تم ہو پیکر صبر و ورضا
بے دھڑک ہر طرف بم برسنے لگے
حیران ہے تمہاری استقامت پر ارض وسما
غم بھلاتا ہے ساجد دعا سے ذرا
اہلِ غزہ کو راحت ملے اے خدا

 

***

 اس وقت غزہ میں جنگ نہیں بلکہ نسل کشی کی جارہی ہے، لیکن غزہ کے مجاہدین نے ساری دنیا کو جہادکے اصل مفہوم سے آشنا کروایا ہے۔ جبکہ اسلام دشمن طاقتوں نے جہاد کو دہشت گردی کا ہم معنی بنا کر رکھ دیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ مجاہدین سے براہ راست جنگ کریں اور اپنے جنگی مقاصد حاصل کریں ۔اسرائیل اپنی خفت کو مٹانے کے لیے معصوم عوام پر بمباری کر رہا ہے۔ اہل غزہ کی لڑائی ظلم کے بھی خلاف ہے اور مسجدِ اقصیٰ کو غاصبوں سے آزاد کرانے کے لیے بھی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023