غزوۂ بدر سورۃ الانفال کے آئینہ میں

باطل سے لڑائی میں ایمان، شجاعت اور توکل اہل حق کے ہتھیار

ڈاکٹر ساجد عباسی

یوم الفرقان کا ایک اہم سبق : اسلحہ کی کمی کی تلافی ایمانی طاقت سے ممکن
۱۷؍ رمضان ۲؍ہجری کے دن معرکۂ بدر پیش آیا۔ چونکہ ماہِ رمضان صبر کا مہینہ ہے اور غزوات میں صبر اہلِ ایمان کا ایک لازمی وصف ہے، اس لیے غزوۂ بدر، رمضان سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ یومِ بدر کو يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ بھی کہا گیا یعنی فیصلے کا دن اور دو فوجوں کی مڈ بھیڑ کا دن۔ اس دن انسانی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ صادر ہوا کہ دنیا میں اسلام کو تاقیامت دینِ حق کے طور پر باقی رہنا ہے۔ اللہ کی مدد سے ۳۱۳ افراد کے مقابلے میں ۱یک ہزار کا مسلح لشکر اس غزوہ میں ایسے سرنگوں ہواکہ پھر یہیں سے اسلام رفتہ رفتہ ناقابلِ تسخیر قوت بنتا گیا ۔چنانچہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا: لِّيَقْضِيَ اللهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ (الانفال ۴۲) ترجمہ: تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے ، یقیناً خدا سُننے اور جاننے والا ہے۔
یعنی یومِ بدر میں یہ فیصلہ ہوا کہ دین حق کو سچائی کی بنیاد پر جو فکری طاقت حاصل ہے اس کو سیاسی و عسکری طور پر بھی ایسی فتح حاصل ہو جائے کہ جس سے دین اسلام کو غالب دین کی حیثیت حاصل ہو۔ اسلام میں جہاد و قتال کا مقصد بہت اعلیٰ اور پاکیزہ ہے۔ جہاد و قتال کے ذریعے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں فساد برپا نہ ہو اور انسانی جان ومال اور عزت کی حفاظت ہو۔ فساد اس وقت وجود میں آتا ہے جب برائی کو طاقت فراہم ہوتی ہے۔ دینِ حق یہ تقاضا کرتا ہے کہ طاقت ،حق کے ساتھ جمع ہو نہ کہ شرکے ساتھ؟ حق اور طاقت کا امتزاج دنیا میں اصلاح پیدا کرتا ہے اور شر اور قوت کا امتزاج فساد کا موجب ہوتا ہے۔ فتنہ و فسا د جب زور پکڑتا ہے تو اصلاح کی ہر کوشش کا خاتمہ ہونے لگتا ہے۔ باطل جب طاقت ور ہوجاتا ہے تو وہ بے رحمی سے عدل و انصاف کا گلا گھوٹتا ہے،انسانی اقدار پامال ہو جاتے ہیں،جبر و استبداد کے ذریعے اصلاح کی جدوجہدبکو ختم کر دیا جاتا ہے اور عام انسانوں کو ذہنی و سیاسی غلامی کا اسیر بنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ جہاں فکری جہاد ہو اس کی تقویت کے لیے عسکری جہاد بھی ہو تاکہ فتنہ و فساد کی طاقتیں مغلوب ہوں ۔چنانچہ ارشاد ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (الانفال ۳۹) ترجمہ: اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔
اس آیت میں لفظ فتنہ آیا ہے جو اس کیفیت کا نام ہے کہ اسلام پر عمل کرنے، اس کی اشاعت کرنے اور اس کو قبول کرنے کی راہ میں جبر و استبداد کے ذریعے رکاوٹیں پیدا کر دی جائیں۔باطل پرستوں کا ہمیشہ سے یہ شیوہ رہا کہ جب وہ فکری میدان میں حق سے شکست کھا جاتے ہیں تو وہ جبر و اکراہ کے ذریعے حق پسندوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ حق سے دست بردار ہوجائیں ۔
اسلام میں جہاد و قتال کی تین صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ قتال کے ذریعے اسلامی ریاست کا اس وقت دفاع کیا جائے جب کوئی دوسرا ملک اس پر ظالمانہ حملہ کرے۔ اسلامی جہاد کی دوسری غایت یہ ہے کہ مظلوموں کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کروایا جائے۔ اور تیسرا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے جبر و استبداد پر مبنی نظام ختم ہو جس سے فتنہ رونما ہوتا ہو۔پہلی صورت دفاعی نوعیت کی ہے اور آخرالذکر دوبصورتیں اقدامی نوعیت کی ہیں۔یہ تصور غلط ہے کہ اسلام میں جہاد وقتال صرف دفاع میں کیا جاتا ہے۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ظلم کی تمام صورتوں کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اللہ کی سر زمین پر اللہ کی عبادت کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہ ہوں اور عدل و انصاف قائم ہو۔ جس طرح دین میں جبر و اکراہ سے کسی کو داخل نہیں کروایا جاتا ہے اسی طرح اسلام یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ جبر واکراہ کے ذریعے کسی کو اسلام پر عمل کرنے،اس کو پھیلانے اور اس کو قبول کرنے سے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال ۷۳) ترجمہ: جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد بر پا ہو گا۔ یعنی کفر کے علم بردار ایک دوسرے کی حمایت کربکے ظلم کے نظام کو قائم کرنے اور اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح حق کے علم بردار اگر آپس میں متحد ہو کرنعدل و انصاف کو قائم نہ کریں تو زمین فتنہ و فساد اور ظلم سے بھر جائے گی۔
غزوۂ بدر کابپس منظر یہ ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت ان حالات میں ہوئی کہ مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے لیے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھنا نا ممکن کر دیابگیا تھا اور یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کر دیا جائے تاکہ اسلام کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے: وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (الانفال ۳۰) ترجمہ: وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔
جیسے جیسے مکہ میں دعوت الی اللہ کا کام آگے بڑھتا گیا اسی قدر سردارانِ قریش کی طرف سے ظلم بھی بڑھتا گیا ۔جرأت مند لوگ ظلم کے باوجود اسلام قبول کرچکے تھے لیکن عام لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھنے کے باوجود اسلام قبول کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پا رہے تھے۔رسول اللہ ﷺنے چاہا کہ مکہ سے باہر اسلام کے حق میں حمایت حاصل کی جائے ۔چنانچہ آپ نے طائف کا سفر کیا لیکن وہاں کے سرداروں نے نہ صرف آپ کی حمایت کا انکار کیا بلکہ آپؐ کی اہانت کرکے آپ ؐ کو اوباشوں کےحوالے کردیا۔ جب ایک دروازہ اسلام کے لیے بند ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے بہتر صورت حال اللہ تعالی کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ طائف سے واپسی پر آپ کا داخلہ مکہ میں بند کر دیا گیا۔مطعم بن عدی کی امان میں آپؐ مکہ میں داخل ہوئے۔ طائف سے واپسی کے بعد آپ ﷺ کی دعوتی سرگرمیاں باہر سے آنے والے قبائل پر مرتکز ہوئیں۔اسی دعوتی کاوشوں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اہلِ یثرب کے دل اسلام کے لیے کھول دیے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ کی برکت سے بند گلی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی جیل میں قیدیوں کے اندر دعوت و تبلیغ ہی سے آپ جیل سے نہ صرف نکالے گئے بلکہ مصر کے بادشاہ بنائے گئے جس سے مصر میں اسلام کے فروغ پانے کے راستے ہموار ہوئے۔ ہجرت و جہاد کے محاذ دعوت الی اللہ میں اتمام حجت کے بعد ہی کھلتے ہیں۔
چنانچہ مکی دور کے آخر میں اللہ تعالی نے اہلِ یثرب کے دو قبیلوں اوس و خزرج کے دل اسلام کے لیے کھل گئے۔ انہوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ رسول اللہ ﷺکا مدینہ میں خیر مقدم کرکے غیر مشروط حمایت کا بھی اعلان کیا۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔ اس کے بعد مکے کے مسلمان اپنے گھر،کاروبار،سرمایہ حتی ٰ کہ اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر لٹے پٹے مدینہ پہنچنے لگے۔ مدینہ میں ایک نو زائیدہ ریاست قائم ہوئی۔مہاجرین کی آبادکاری میں انصارِ مدینہ نے مثالی رول ادا کیا اور اپنے معاشرہ میں ان کو سمولیا اور وہ شیر وشکر بن کر عقیدہ کی بنیاد پر ایک مضبوط و متحدقوت بن گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال ۶۳) ترجمہ: اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
یہ شانِ امتیازی کسی رسول کو حاصل نہیں ہوئی کہ صحابہ کرام جیسی مخلص اور جانثار ٹیم رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کرکے آپ کی مدد فرمائی۔ مدینے میں ہجرت کے بعد یہودیوں کے شر سے بچنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ان سے معاہدات کر کے ان کو شہری کا درجہ دیا اور معاہدہ میں مدینہ کا متحدہ دفاع شامل تھا۔ آپ ﷺ کو یہ خطرہ لگا رہا کہ مکہ والے خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ مدینہ کی اس نئی ریاست کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کریں گے۔ مکہ سے جو اطلاعات رسول اللہ ﷺ کو مل رہیں تھیں ان میں ایک یہ تھی کہ ایک ایسا تجارتی قافلہ شام بھیجا گیا جس کی ساری منفعت مدینہ پر حملے کے لیے وقف کردی جائے۔ ابو سفیان کی قیادت میں جو تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف آرہا تھا اس کی مالیت پچاس ہزار اشرفی تھی اور اس کے ساتھ تیس چالیس محافظ سے زیادہ نہ تھے۔ابو سفیان کو جب یہ خطرہ محسوس ہوانکہ اس کے تجارتی قافلہ پر مدینہ والوں کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے تو اس نے مکہ والوں کو خبر پہنچا دی کہ تجارتی قافلہ خطرہ میں ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ایک فوجی لشکر بھیجا جائے۔ چنانچہ مکہ سے ایک ہزار مسلح جنگجؤوں کا لشکر روانہ ہوا۔ اس لشکر میں ابو لہب کو چھوڑ کر مکہ کے تمام سردار شریک ہوئے۔ان میں ۶۰۰ زرہ پوش تھے اور ۱۰۰ گھڑ سوار تھے۔یہ لشکر بڑے طمطراق کے ساتھ نکلا۔ ان کے ساتھ گانے بجانے والی لونڈیاں تھیں جن کے ذریعے دورانِ سفر رقص و سرور اور شراب نوشی کی محفلیں سجائی جارہی تھیں اور دوران سفر دیگر قبائل پر رعب ڈالنے کے لیے اپنی بڑائی کے بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے تھے جس کو قرآن میں طرح پیش کیا گیا: وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاء النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَاللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (الانفال ۴۷) ترجمہ: اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دِکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔
ابوجہل کا اللہ تعالیٰ نے یہ قول بھی نقل کیا کہ:وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الانفال ۳۲) ترجمہ: اور وہ بات بھی یاد ہے جو اُنہوں نے کہی تھی کہ ”خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔“ اس کے جواب میں فرمایا کہ جب تک کسی قوم میں رسول موجود ہو اور لوگ استغفار کر رہے ہوں تو اس وقت تک اللہ کا عذاب نازل نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ سردارانِ قریش کو چن چن کر میدان بدر میں کھینچ کر لایا تاکہ ان کو جمع کر کے ان کو دنیا ہی میں عذاب کا مزہ چکھا دیا جائے۔ پچھلی قوموں میں اتمام حجت کے بعد منکرینِ حق پرنآسمانی عذاب آیا کرتا تھا۔ اب منکرین حق کو عذاب دینے کی یہ صورت کر دی گئی کہ مومنین کے ہاتھوں ان کو عذاب دیا جائے اور ساتھ میں مومنین کی بھی آزمائش ہو کہ کون راہِ حق میں جان و مال سے جہاد و قتال کرنے کے لیے تیار ہے۔
مدینہ میں منافقین کی شناخت پہلی مرتبہ غزوۂ بدر کے موقع پر ہی ہوئی جب وہ کہہ رہے تھے کہ رسول نے ایسی پٹی پڑھادی ہے کہ یہ لوگ پاگل ہوگئے ہیں اور جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جارہے ہیں: إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ غَرَّ هَـؤُلاء دِينُهُمْ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ فَإِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال ۴۹) ترجمہ: جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو جب پتہ چلا کہ شمال سے تجارتی قافلہ آرہا ہے اور جنوب سے ابوجہل کی قیادت میں لشکر آ رہا ہے تو آپ نے اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ کس طرف رخ کیا جائے۔ اکثریت نے تجارتی قافلہ سے نمٹنے کا مشورہ دیا لیکن اللہ کے پیش ِنظر یہ تھا کہ لشکر سے مقابلہ ہو تاکہ حق و باطل کے درمیان یومِ بدر فیصلہ ہوجائے۔ آپ نے سوال کو بار بار دہرایا جس سے صحابہ کرام نے جان لیا کہ اللہ اور رسول کا ارادہ ہے کہ لشکر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ یہ فیصلہ مومنوں میں سے کچھ لوگوں کو ناگوار لگا اور ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ (الانفال ۵ تا ۷) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ فکری محاذ کے ساتھ میدان جنگ میں بھی حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردیا جائے: لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطِل باطِل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اہل ایمان کی طرف سے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں ۸۶ مہاجر، ۱۷۰ قبیلۂ خزرج کے اور ۶۱ قبیلۂ اوس کے مرد شامل تھے۔ بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ ان میں صرف تین کے پاس گھوڑے تھے، سواری کے لیے ۷۰ اونٹ تھے اور صرف ۶۰ لوگوں کے پاس زرہیں تھیں۔ یہ مقابلہ اعصاب شکن تھا اس لیے کہ مقابلہ انتہائی غیر مساوی تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ پہلا معرکہ تھا اس لیے مومنوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں کو اہل ایمان کی مدد کے لیے بھیجنے کا وعدہ فرمایا:إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ (الانفال ۹) ترجمہ: اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ مومنین پر اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی سکینت نازل فرمائی:إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ (الانفال ۱۱) ترجمہ: اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جما دے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ کے دن سے قبل کی رات میں آسمان سے ایسی با برکت بارش برسائی جس سےاہل ایمان سیراب بھی ہوئے اور ان کے دلوں کے اندر شیطان نے جو بے ہمتی ڈالی تھی وہ دور کردی گئی۔ غنودگی کی شکل میں ان پر سکینت نازل کی گئی۔
اس غزوہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی قیادت میں بے سروسامانی کے باوجود حیرت انگیز فتح عطا فرمائی جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتوں کے ذریعے اس غزوہ میں مدد کی گئی:إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلآئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرَّعْبَ فَاضْرِبُواْ فَوْقَ الأَعْنَاقِ وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (الانفال ۱۲) ترجمہ: اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ”میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاو“
اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمایا کہ اس فتح کو اپنی کاوش کا نتیجہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ عین اللہ تعالیٰ کی کھلی مدد ہے۔ارشاد ربانی ہے: فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الانفال ۱۷) ترجمہ:پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے اور جاننے والا ہے۔
غزوہ کے آغاز پر نبی کریم ﷺ نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھت الوجوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی جس سے کفار کی بصارت جاتی رہی۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے نہیں پھینکا بلکہ ہم نے اس کو پھینکا۔ یعنی یہ فتح عین اللہ کی غیر معمولی مدد سے ممکن ہوئی۔ جنگ کے اختتام پر مالِ غنیمت کے معاملہ میں تنازعہ پیدا ہوا تھا کہ جس کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ اپنے کو اس کا مالک سمجھنے لگا۔ چونکہ یہ پہلا اسلامی معرکہ تھا اس لیے اسلامی جنگ کے قواعد سے لوگ ناواقف تھے۔ان کے ذہن نشین یہ کیا گیا کہ یہ فتح تمہاری بہادری کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ عین اللہ کی مدد سے حاصل ہوئی ہے۔ غنائم کی تقسیم اس طرح ہوئی کہ سارے مال غنیمت کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔ اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا ہوگا اور باقی چار حصے سپاہیوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے (آیت ۴۱)۔
سورۃ الانفال پوری کی پوری غزوۂ بدر پر ایک مفصل تبصرہ ہے اور اس میں وہ جنگی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ ان کو آئندہ کے غزوات میں ملحوظِ خاطر رکھا جائے :
۱۔ مال غنیمت پر اختلاف پر ہدایات دی گئیں۔ (آیت ۱ ، ۴۱)
۲۔ میدانِ جنگ سے فرار کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا جس سے پوری فوج کی ہمت پست ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور ایک جیتی جانے والی جنگ ہار میں بدل جاتی ہے۔ (آیت ۱۵)
۳۔ میدانِ جنگ میں اللہ کے ذکر کی کثرت پر ابھارا گیا تاکہ صبر و توکل پیدا ہو اور اللہ کی مدد شاملِ حال ہو (آیت ۴۵)
۴۔ میدانِ جنگ میں اختلاف شکست کا باعث ہوگا (آیت ۴۶)
۵۔ طمطراق کے ساتھ میدانِ جنگ میں نہ اتریں بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ذکرو دعا کے ساتھ جائیں۔ (آیت ۴۷)
۶۔ اسلامی حکومت کے لیے نہایت ہی اہم حکم جس سے جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی وہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست جنگی ساز و سامان میں دشمن فوج سے آگے رہے تاکہ وہ ڈریں اور حملہ سے باز رہیں۔سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں نئی جنگی ٹکنالوجی کو استعمال کرکے دشمن سے فوجی ہتھیاروں کی دوڑ میں آگے رہیں۔ اس سے دشمن کے اندر ڈر پیدا ہوگاناور جنگ کے امکانات کم ہوں گے۔ (آیت ۶۰)
جب سے مسلمان جنگی ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے وہیں سے مسلمان مغربی طاقتوں سے شکست پر شکست کھاتے چلے گئے۔مسلمانوں کے اندر جب جذبۂ شہادت پیدا ہوگا اور ساتھ میں اعلیٰ جنگی ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہوگی تو ایسی اسلامی ریاست ناقابلِ شکست بن جاتی ہے۔
۷۔ صلح کی درخواست اگر کفار کی طرف سے ہو تو اس کو جنگ کے بجائے امن کے لیے استعمال کیا جائے۔ (آیت ۶۱) لیکن جب کفار طاقت ور ہوں تو صلح کی درخواست نہ کی جائے جو بزدلی کو ظاہر کرے گی۔ (سورۃ محمد۳۵)
۸۔ مسلمانوں اور کفار کے درمیان قوت کا تناسب ایمان کے لحاظ سے ہوگا۔ (آیات ۶۵ اور ۶۶) جنگی ساز و سامان کی تلافی ایمانی طاقت سے ہو سکتی ہے لیکن ایمانی کمزوری کی تلافی جنگی ہتھیاروں سے نہیں کی جا سکتی۔
۹۔ قتال کا مقصدیہ ہوکہ دشمن طاقت کی ایسی سرکوبی ہو کہ وہ تازہ دم ہو کر پھر حملہ نہ کر سکے۔ (آیت ۶۷)
۱۰۔ فتح کو اپنی کاوش کا نتیجہ سمجھ کر فخر نہ کیا جائے بلکہ اس کو اللہ کی عین مدد سمجھ کر اس کا شکر بجالا جائے۔ (آیات ۱۷، ۶۳)

 

***

 اسلامی حکومت کے لیے نہایت ہی اہم حکم یہ ہے کہ اسلامی ریاست جنگی ساز و سامان میں دشمن فوج سے آگے رہے تاکہ وہ ڈریں اور حملہ سے باز رہیں۔جب سے مسلمان جنگی ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے، وہ مغربی طاقتوں سے شکست پر شکست کھاتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے اندر جب جذبۂ شہادت پیدا ہوگا اور ساتھ میں وہ اعلیٰ جنگی ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہوں گے تو ناقابلِ شکست بن جائیں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024