گوہاٹی ہائی کورٹ نے آسام حکومت سے کہا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر مبینہ فرضی انکاؤنٹر اور پولیس فائرنگ پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرے
نئی دہلی، جنوری 11: گوہاٹی ہائی کورٹ نے منگل کو آسام کے پرنسپل سکریٹری (ہوم) سے کہا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اندر گذشتہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کیے گئے مبینہ انکاؤنٹرس سے متعلق ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کریں۔
عدالت نے یہ ہدایات دہلی کے وکیل عارف جوادر کی عرضی پر سماعت کے بعد جاری کیں۔ دسمبر میں عارفنے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آسام میں مئی سے لے کر اب تک اس طرح کے 80 سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس عرصے میں 28 افراد ’’فرضی انکاؤنٹر‘‘ میں مارے گئے اور 48 زخمی ہوئے ہیں۔
جوادر نے انکاؤنٹر کے اس طریقۂ کار پر بھی سوالات اٹھائے جو پولیس نے بیان کیا ہے۔ معلوم ہو کہ ان تمام معاملات میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرنا پڑی، کیوں کہ ملزمان نے افسران کے ریوالور چھیننے کی کوشش کی۔
منگل کی سماعت میں آسام کے ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ان معاملات میں مجسٹریل انکوائری کی گئی تھی۔
تاہم درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والی سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس نے عدالت سے کہا کہ وہ ریاستی حکومت کو اپنی ویب سائٹ پر پہلی معلوماتی رپورٹ اپ لوڈ کرنے کی ہدایت کرے۔
دی اسکرول کی خبر کے مطابق عارف جوادر نے کہا ’’مفصل جوابی حلف نامہ دو ہفتوں کے اندر سیکرٹری (ہوم) یا ایڈیشنل سیکرٹری (ہوم) کے ذریعہ داخل کیا جائے گا۔‘‘
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان فائرنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایات دیں۔ انھوں نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کے ذریعہ فائرنگ کی عدالتی تحقیقات اور انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے مالی معاوضہ کا بھی مطالبہ کیا۔
ریاستی حکومت کے علاوہ جوادر نے آسام پولیس، ریاست کے محکمہ قانون و انصاف، قومی انسانی حقوق کمیشن اور آسام کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی اس کیس میں فریقین کے طور پر نامزد کیا ہے۔
4 جنوری کو گوہاٹی ہائی کورٹ نے آسام حکومت سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا ان میں سے ہر ایک فائرنگ کے واقعے کے لیے پہلی اطلاعاتی رپورٹیں درج کی گئی ہے یا نہیں۔
تاہم حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے پاس مطلوبہ معلومات نہیں ہیں۔
دی اسکرول کی رپورٹ کے مطابق آسام میں مئی سے اب تک مبینہ انکاؤنٹرس میں 31 لوگ مارے گئے ہیں۔ ان میں نیرج داس بھی شامل ہے، جسے آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے رہنما انیمیش بھویان کی لنچنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔