تیزی خطرہ کی گھنٹی(Heatwave) گرمی کی لہر

احتیاط ، بیداری اور باہمی تال میل سے اس سنگین مسئلہ کا حل نکالنےکی ضرورت

ابو محمد

فطرت کے ساتھ بے رحم انسانی رویہ ّ کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کی مصیبت ہمارے دروازہ پر دستک دینے لگی ہے
ان دنوں موسمیاتی تبدیلی بڑی تیزی سے رونما ہو رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمی کی لہر (Heatwave) کا خطرہ ساری دنیا میں بڑی مصیبت بنتا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات سے بڑی بڑی بیماریاں لوگوں کو اپنا شکار بنا رہی ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے موسم کی تبدیلی سے آئندہ ماہ درجہ حرارت میں اضافہ اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک تجزیاتی نشست کو مخاطب کرتے ہوئے احتیاط، بیداری اور باہمی تال میل سے اس سنگین مسئلہ کا حل نکالنے کا مشورہ دیا۔ اس خصوصی نشست میں وزیراعظم کے چیف سکریٹری، سکریٹری داخلہ، شعبہ موسمیات کے ڈائرکٹر اور قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے بڑے عہدیدار شامل تھے۔ دراصل گرمی کی لہر کی زد میں ملک کی 80 فیصد آبادی اور 90 فیصد زمینی رقبہ آنےو الا ہے۔ اگر اس سمت میں سرعت سے کارروائی نہیں کی گئی تو ملک کا چو طرفہ ترقی کا ہدف (ایس ڈی جی) حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ ہمارا ملک ٹراپیکل علاقے میں پڑتا ہے اور یہاں گرمی کی لہر بہت زیادہ ہوتی ہے جس میں کسی علاقے کی درجہ حرارت تاریخی اور اوسط سے زائد ہوجاتی ہے۔ میدانی سرحدی اور پہاڑی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بالترتیب 30، 37 اور 40 سنٹی گریڈ تک آجانے پر لُو کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب یہ درجہ حرارت معمول سے چار تا پانچ سنٹی گریڈ زائد ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی بڑھ کر پانچ تا چھ سنٹی گریڈ ہوجاتا ہے تب لُو کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب اگر کسی علاقے میں درجہ حرارت گرمی کی شدت سے 47 ڈگری تک پہنچتا ہے تو اسے خطرناک حالت قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی حدت (Global Warming) نے ساری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے چند سال قبل پیرس میں دنیا کے تمام ممالک نے عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے پر زور دیا تھا۔ لیکن کیا ہم اس ہدف کے ایمان دارانہ حصول کی کوشش میں سرگرداں ہیں؟ اگر زمین پر کاربن اور میتھین کا استعمال اسی تیزی سے بڑھتا رہا تو حالت مزید خطرناک ہو سکتی ہے، تب تک اس کے تدارک کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں بچے گا۔
کلائمٹ چینج جرنل کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں تین ڈگری کا اضافہ ہوتا ہے تو ہمالیائی خطے میں خشکی جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے جس کا اندیشہ بہت زیادہ ہے۔ اس سے زیادہ نقصان بھارتی زراعت کو ہوگا۔ بھارت اور برازیل کا پچاس فیصد سے زیادہ زرعی رقبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں تیس سالوں تک قحط سالی پیدا ہوسکتی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے ہی قبل از وقت شرح تولید میں ساٹھ فیصد بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ طبی طور سے بھی لوگ متاثر ہوں گے اور غذائی اجناس کی سپلائی متاثر ہوگی۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے سے امریکہ تا چین تک کی زرعی زمین برباد ہو جائے گی۔ اس سے فصلوں کی کٹائی، دودھ اور پھلوں کی پیداوار پر دباو بڑھ جائے گا۔ حالیہ دنوں میں سیلاب، طوفان اور قحط جیسے حالات بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ واشنگٹن میں واقع سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے غذائی ماہر، کیٹلین والش کا کہنا ہے کہ ایسے موسمیاتی حادثات کی وجہ سے غذائی سلامتی اور غذائی اجناس کی قیمتوں کے متعلق تشویش میں مزید اضافہ ہوگا۔ جنوبی یوروپ میں گرمی میں اضافے کی وجہ سے گائیں کم دودھ دے رہی ہیں اور سمندروں کے سطح آب میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے مچھلیاں اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ بہت ساری مچھلیوں کی نسل بھی تحلیل ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی کمیٹی کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنا ہے تو 2030 تک کاربن کے اخراج کو 43 فیصد تک کم کرنا ہوگا، مگر آج کرہ ارض 1.7 ڈگری تک گرم ہوچکا ہے جو اقوام متحدہ کے اسٹینڈرڈ درجہ حرارت سے نصف ڈگری زیادہ ہے۔ جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے تو ہیٹ ویو سے ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی ڈی ہائیڈریشن اور پھر موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اس سے زیادہ تر بچے، بوڑھے، خواتین، پھیپھڑوں کے مریض اور تعمیراتی مزدور متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں ہیٹ ویو نے برصغیر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب تو جنگلوں میں آگ زنی معمول بنتی جا رہی ہے۔ آئندہ ربع صدی میں ساٹھ کروڑ افراد اس سے متاثر ہوں گے اور لوگوں کے قوت عمل میں پندرہ تا بیس فیصد تک کمی واقع ہوجائے گی۔ اکتیس تا اڑتالیس کروڑ لوگوں کا معیار زندگی بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ کئی سالوں سے قدرتی آفات میں اضافے ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے موثر اقدام کرنے میں عالمی برادری نہ محتاط ہے اور نہ بیدار۔ مارچ 2023 سے مارچ 2024 کی درمیانی مدت میں عالمی درجہ حرارت 1.5 سنٹی گریڈ کی حد کو پھلانگ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرہ ارض شدید مصائب سے گھری ہوا ہے۔ عالمی موسمیاتی سائنسی ادارے کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی، صدی کی گرم ترین دہائی واقع ہوئی ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ درجہ حرارت کے کم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی تو ڈیڑھ کروڑ لوگ اس صدی کے اخیر تک موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔
یونیسف نے ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمی لگنے سے بچوں کی صحت پر بہت برا اثر پڑنے والا ہے اور مشرقی ایشیا اور اٹلانٹک ممالک میں گرمی کی لہر سے کروڑوں بچوں کی زندگی پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ وزارت صحت کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمی لگنے سے کئی طرح کے صحت اور طبی مسائل قلیل مدتی اور طویل مدتی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس میں ہیٹ اسٹروک، جلدی بیماریاں، بلڈ پریشر کے ساتھ غشی کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ طبی ماہرین نے بتایا کہ ہیٹ ویو کے زیادہ تر شکار نوجوان ہو رہے ہیں۔ اس سے کڈنی انجری، لیکٹک ایسڈوسس، تھرومیو سائیٹو پنیا (بلڈ میں پلیٹ کاونٹ کافی کم ہونا) وغیرہ جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں گھر سے نکلنے سے پرہیز کریں۔ بدن کو ہائیڈریٹ رکھیں۔ پانی اور شربت کا خوب استعمال کریں۔
ہم جانتے ہیں کہ قدرت کے اصولوں کے ساتھ بے رحم انسانی روپے کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کی مصیبت ہمارے دروازہ پر دستک دینے لگی ہے اور ہماری حکومتیں اس سے نمٹنے میں بے حس نظر آ رہی ہیں۔ آج دنیا میں کروڑوں انسانوں کو شدید بارش یا بارش کی کمی، سیلاب، قحط اور سمندری طوفانوں کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے کی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے۔ لاکھوں انسانوں کو ہر سال جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ مگر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک اس مسئلہ کے حل کے لیے جملہ بازی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف قانونی لڑائی میں یوروپی حقوق انسانی کی عدالت نے ایک سوئس ضعیفہ کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے شفاف توانائی کے استعمال کو ترجیحات میں رکھا جانا چاہیے۔ ماحولیات کی سطح پر پیدا شدہ حالات سماج میں حاشیے پر رہنے والے طبقوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ معاشی و سماجی عدم مساوات کو بھی بڑھاتے ہیں۔ بھارت کے انڈمان اور نکوبار جزیروں پر رہائش پذیر قبائیلیوں کے سامنے خورد و نوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ان بے سہارا اور کمزور لوگوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ماحولیاتی جواب دہی کا بلاشبہ موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کے تدارک کے لیے شفاف توانائی کا استعمال شروع کیا جائے۔
***

 

***

 یونیسف نے ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمی لگنے سے بچوں کی صحت پر بہت برا اثر پڑنے والا ہے اور مشرقی ایشیا اور اٹلانٹک ممالک میں گرمی کی لہر سے کروڑوں بچوں کی زندگی پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ وزارت صحت کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمی لگنے سے کئی طرح کے صحت اور طبی مسائل قلیل مدتی اور طویل مدتی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس میں ہیٹ اسٹروک، جلدی بیماریاں، بلڈ پریشر کے ساتھ غشی کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ طبی ماہرین نے بتایا کہ ہیٹ ویو کے زیادہ تر شکار نوجوان ہو رہے ہیں۔ اس سے کڈنی انجری، لیکٹک ایسڈوسس، تھرومیو سائیٹو پنیا (بلڈ میں پلیٹ کاونٹ کافی کم ہونا) وغیرہ جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024