گنیش اور دیگر تقاریب صرف ایک دن کے لیے منائیں

نوجوان محقق و مصنف سورج اینگڈے کا نوجوانوں کومفید مشورہ

وقت ضائع نہ کرتے ہوئے ملک کی ہمہ جہت ترقی پر توجہ دینے پر زور
نوجوان محقق اور دانشور ڈاکٹر سورج اینگڈے (Suraj Yengde) نے گنیش یا دیگر مذہبی تہواروں کے موقع پر اپنی خدمات قوم کی خاطر ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ پونا میں اپنی کتاب ’’کاسٹ میٹرس‘‘ (Caste Matters) کے تیسرے ایڈیشن کے رسم اجرا کے موقع پر انہوں نے کہا کہ گنیش کا تہوار ہو یا کوئی دوسری تقریب، اسے ایک دن کے لیے ہی منایا جانا چاہیے۔ تہوار کے بقیہ دنوں میں ملک کے مفاد میں سرگرمیاں انجام دی جانی چاہئیں۔ وہ سرگرمی گنپتی کے نام سے موسوم ہو یا پھر کسی عظیم شخص کے نام پر لیکن اسے ملک کے لیے استعمال کریں۔ گنیش تہوار  کے دوران نوجوانوں کی محنت کی طاقت دس دنوں تک ضائع ہوتی ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی تحریک کے رکن نوجوان اسکالر، مفکر نے مزید کہا کہ جب تک نوجوان تحریک میں شامل نہیں ہوں گے تب تک تبدیلی نہیں آئے گی۔
ڈاکٹر سورج اینگڈے ہندوستان کے سرکردہ اسکالرز اور عوامی دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی پیدائش مہاراشٹرا کے علاقہ ناندیڑ کے متوسط دلت گھرانے میں ہوئی۔ وہ جی کیو میگزین کے ’’25 سب سے زیادہ بااثر نوجوان ہندوستانی‘‘ اور Zee کے ’’سب سے زیادہ با اثر نوجوان دلت ‘‘ میں سے ایک کے طور پر نامزد ہوئے ہیں۔ سورج بیسٹ سیلر کتاب ’’کاسٹ میٹرس‘‘ کے مصنف اور ایوارڈ یافتہ انتھولوجی دی ریڈیکل ان امبیڈکر کے شریک ایڈیٹر ہیں۔ ’’کاسٹ میٹرس‘‘ کو حال ہی میں دی ہندو اخبار کی طرف سے مشہور ’’عشرے کی بہترین نان فکشن کتابیں‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
اس موقع پر مہتا پبلشنگ ہاؤس کے لائبریری ہال میں ’’تھیٹ بھیٹ‘‘ نامی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں ڈاکٹر اینگڈے نے وہاں موجود نوجوانوں سے بات چیت کی۔ دنیا بھر میں کمیونسٹ حکمرانی والے ممالک میں 18 تا 19 سال کے بچے ملک کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے نوجوان اس عمر میں تہوار اور سالگرہ منا رہے ہیں۔ صرف نوجوانوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے، ’’تہوار کے دوران نوجوانوں کی محنت کی طاقت ضائع ہو جاتی ہے۔ ایک دن گنیش تہوار منانے کے بعد ملک کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی جگہوں پر جائیں جہاں حکومت 9 دن سے نہیں پہنچی ہے۔ سڑکیں، پل، اسکول، اسپتال بنائیں اور ان بنیادی عوامی سہولیات کو فعال کرنے کے لیے کام کریں۔ گنیش کے بھکتوں کو یہ گنیش کے نام پر کرنا چاہیے۔ لیکن تعمیری کام کرنے چاہئیں۔
سورج اینگڈے افریقی اور افریقی امریکن اسٹڈیز کے شعبہ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے چار بر اعظموں (ایشیا، افریقہ، یورپ، شمالی امریکہ) میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ہندوستان کے پہلے دلت ہیں جس نے افریقی یونیورسٹی   (یونیورسٹی آف وٹ واٹرسرینڈ، جوہانسبرگ) سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ فی الحال وہ سنٹر فار ریسرچ ان اینتھروپولوجی (CRIA) ISCTE یونیورسٹی آف لزبن میں وزٹنگ اسکالر ہیں۔
انہوں  نے تقریب میں مزید کہا کہ اگر کسی نظریاتی تحریک کو زندہ رکھنا ہے تو نوجوانوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ وہ احمق ہیں جو ساحل پر بیٹھ کر دوسروں کو کشتی چلانے کا حکم دیتے ہیں۔ تحریک بھی اسی طرح ہے۔ صرف باہر رہنے اور بات کرنے سے تحریک کو طاقت نہیں ملے گی۔ نوجوانوں کو شامل کرنا ہو گا۔ کارپوریٹ سے لے کر کسی بھی شعبے میں ذات پرستی کو ختم کرنے کے لیے کمزور طبقات کو اوپر اٹھنا ہوگا۔ اینگڈے نے یہ بھی مشورہ دیا کہ نوجوانوں کو ذہانت کی طاقت سے کام کر کے اپنا مقام بنانا چاہیے۔
دی نیوز بیک (The News Beak)/ دی شودر امبیڈکرائٹ میڈیا وینچرز ہیں جو سماج کے پسماندہ اور کمزور طبقے کے لیے وقف ہیں۔ بنیادی طور پر ذات، طبقے، صنف، سماجی انصاف، مساوات، اقلیت، ماحولیات، انسانی حقوق، دلت حقوق اور آئین پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک فیچر شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لوک مانیہ تلک کے ذریعہ گنیش اتسو کے آغاز کے مقاصد میں ایک مقصد جیوتی با پھلے کی تعلیمی و سماجی تحریک کو کمزور کرنا تھا۔ دلت اور کمزور طبقات میں تعلیمی و سماجی شعور بیدار کو روکنے اور مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کے لیے لوک مانیہ تلک نے گنیش اتسو کا آغاز کیا۔ گنیش اتسو کے دوران انگریزوں کے علاوہ مسلمانوں اور دلتوں و پسماندہ طبقات کے تعلق سے غلط باتیں باور کرائی جاتی تھیں۔ جیوتی با پھلے کی سماجی تحریک سے برہمن طبقہ ناراض تھا۔ لوک مانیہ تلک نے جیوتی با پھلے کی تحریک کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جیوتی با پھلے نے خواتین کی تعلیم پر زور دیا۔ پہلا خواتین کا اسکول کھولا، بیواؤں کی شادیاں کروائیں، برہمن کے بغیر شادی کروانے کی شروعات کی، بچپن کی شادی کی مخالفت کی۔ یہ کام برہمنوں کو قطعی پسند نہیں تھے اور برہمنوں کی نیندیں اُڑ گئی تھیں کہ اگر دلت اور کمزور طبقات کے افراد پڑھ لیں گے اور سوال جواب کرنے لگیں گے تو ان کی دکانداری بند ہوجائےگی۔ بال گنگا دھر تلک ان کے اخبار کیسری اور مراٹھا میں مہاتما پھلے کی تنظیم ’’ستیہ شودھک سماج‘‘ کے خلاف سخت تنقیدیں کرتے تھے۔ جس سے کچھ اثر نہیں ہوا تو انہوں نے برہمنوں کے مفاد کے لیے گنیش اتسو کا آغاز کیا۔ وہ ذات پات کے نظام کے قائل تھے اور اسے ملک کے مفاد کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔
سورج اینگڈے نے مذہبی تہواروں میں نوجوانوں کے اوقات کو کم کرتے ہوئے سماجی بیداری اور سماجی تعمیر کے کاموں میں صرف کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
(ترجمہ : ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023