گاہے گاہے باز خواں

پیغام عید

مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ
(سابق امیر جماعت اسلامی ہند)

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہزار شکر و احسان ہے کہ اس نے ہم سب کو پھر ایک بار تقویٰ و پرہیزگاری اور خیر و بھلائی کے مقدس مہینے رمضان المبارک کے فیوض و برکات کو حاصل کرنے اور اس کے ساتھ عید کی مسرتوں سے ہمکنار ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
اس پُر مسرت موقع پر میں اپنے اہل وطن کو بالخصوص اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اپنی ان تمام رحمتوں اور برکتوں سے جن کی رسول الله ﷺ نے روزہ داروں کو خوش خبری دی ہے۔ اور خداوند تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اس ماہ مبارک میں فرزندان توحید کو اپنے مالک و پروردگار کے احکام کی بجا آوری اور تقویٰ کے حصول کی جو تربیت ملی ہے اس کے اثرات ہماری آینده زندگی پر بھی پھیل جائیں۔ ہم اپنے جملہ امور و معاملات میں اسی کی مرضی کے پابند ہوں اور اسی کی رضا کے طالب ہو کر رہیں۔ عید نہایت اہمیت کا حامل مبارک دن ہے، انعام و اکرام کا دن، خوشی و مسرت کا دن، مگر گزشتہ برسوں کی طرح اس بار پھر یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ جب دنیا کے کروڑوں مسلمان اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے اور اس کی نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے لیے کشاں کشاں عیدگاه جا رہے ہوں گے تو کس طرح اُن کے قلوب حقیقی مسرتوں سے لبریز ہوں گے اور کس طرح ان کے چہروں پر حقیقی اطمینان و سکون کی لہریں نمایاں ہو سکیں گی! ایک ارب کی عظیم تعداد پر مشتمل دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی امت مسلمہ گونا گوں پیچیدہ مسائل سے دو چار اور ہزار طرح کی مصیبتوں میں گرفتار ہے۔ جب امریکی سامراج کی سازشوں اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کے سبب بیت المقدس اقصیٰ اور دیگر مقامات مقدسہ اغیار کے قبضے ہوں۔ جب روسی سامراج کے مکروہ جارحانہ عزائم کے نتیجہ میں ایک آزاد مسلم ملک کے لئے غلامی کا پھندا ہو اور لاکھوں افغانی مرد، عورتیں اور بچے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے ہوں۔ جب خود دو برادر مسلم ملک گھناؤنی شازش کا شکار ہو کر دنیا کی طویل ترین جنگ لڑ رہے ہوں۔ ایسی لا حاصل تباہ کن جنگ، جس میں لاکھوں مسلمانوں کا خون خود اپنے ہاتھوں بہ چکا ہو اور یہ سلسلہ پھر بھی جاری ہو۔ اس کے علاوہ جب قدرتی آفات و مصائب، سیلاب، طوفان باد و باراں اور خشک سالی کا شکار ہو کر بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہوں اور تباہی ابھی جاری ہو۔ اور جب خود ہمارے اپنے ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی کے ہاتھوں احمد آباد اور دوسرے علاقوں کے بے گناہ مسلمانوں کا کشت و خون ہو رہا ہو، جب اللہ کی کتاب قرآن مجید تک پر بھی پابندی عائد کرنے کی سازش کی جا رہی ہو، جب الہی قوانین پر انسانی قوانین کی بالا تری ثابت کرنے کی دھن سوار ہو جائے اور اسلامی شریعت میں اس طرح کی مداخلت کی جا رہی ہو کہ عائلی قوانین کی حد تک بھی دین پر چلنا اور اس پر عمل کرنا مسلمانوں کے لیے دوبھر ہونے لگے، تو بھلا کون مسلمان ہوگا جو اس ناگفتہ بہ صورت حال میں عید کی خوشیوں سے حقیقی طور پر بہرہ مند ہو سکے گا۔ کوئی شک نہیں کہ ہر صاحب ایمان کو یہ لمحاتِ انبساط مزید مضطرب اور پریشان کریں گے۔ لیکن ہمارے دین کی تعلیم یہی ہے کہ سخت اور پیچیده حالات میں بھی ہم کسی مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہ ہوں اور عید کی صبح جب کروڑوں کی تعداد خدا کے حضور اپنی خطاؤں کی معافی اور اس کی کرم فرمائی کا شکر ادا کرنے کے لیے حاضر ہوں تو مسلمانان عالم کے لیے بالخصوص اور عام انسانی برادری کے لیے بالعموم خیر و فلاح کی دعائیں کریں. اللہ تعالیٰ کا خصوصی وعدہ ہے کہ عید کے دن کی دعائیں اس کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں۔
دوسری بات جو خاص طور پر غور و توجہ کے لائق ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے جس قدر کمزور ہو رہا ہے اتنی ہی زیادہ دین اور ملت کے بارے میں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پھیل رہی ہیں اور لوگوں کی تہمتیں بڑھ رہی ہیں کہ وہ ہمارے عقائد و ایمانیات تک پر حملے کریں۔ وقت اور حالات کا شدید تقاضا ہے کہ مسلمان بیدار ہوں اور کتاب و سنت کو صحیح معنوں میں اپنا شعار بنائیں اور انہیں مضبوطی سے تھام کر ایسی بامعنی اجتماعیت اختیار کریں جس سے اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ سامنے آتا چلا جائے۔ اور مسلسل بھرپور جدوجہد کی جائے کہ اسلام کی مظلومیت باقی نہ رہے۔ بلکہ اس کے تعارف و اشاعت اور قیام و سربلندی کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے۔ امت وسط اور خیر امت ہونے کے حیثیت سے بھی اہل ایمان کی ذمہ داری ہے دین کی سرفرازی کی راہوں کا کشادہ و ہموار ہونا ہی عید کی حقیقی مسرتوں کا پیش خیمہ ہوگا۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے مقام و منصب کی ذمہ داریوں کا شعور بخشے اور انہیں ہمت و حوصلے کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا کرے۔
(سہ روزہ دعوت، ۱۹ جون ۱۹۸۵)

 

یہ بھی پڑھیں

***

 مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے جس قدر کمزور ہو رہا ہے اتنی ہی زیادہ دین اور ملت کے بارے میں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پھیل رہی ہیں اور لوگوں کی تہمتیں بڑھ رہی ہیں کہ وہ ہمارے عقائد و ایمانیات تک پر حملے کریں۔ وقت اور حالات کا شدید تقاضا ہے کہ مسلمان بیدار ہوں اور کتاب و سنت کو صحیح معنوں میں اپنا شعار بنائیں اور انہیں مضبوطی سے تھام کر ایسی بامعنی اجتماعیت اختیار کریں جس سے اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ سامنے آتا چلا جائے۔ اور مسلسل بھرپور جدوجہد کی جائے کہ اسلام کی مظلومیت باقی نہ رہے۔ بلکہ اس کے تعارف و اشاعت اور قیام و سربلندی کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے۔ امت وسط اور خیر امت ہونے کے حیثیت سے بھی اہل ایمان کی ذمہ داری ہے دین کی سرفرازی کی راہوں کا کشادہ و ہموار ہونا ہی عید کی حقیقی مسرتوں کا پیش خیمہ ہوگا


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023