جی20 ممالک کی سربراہی

بھارت صحت کے شعبے میں دنیا کو بہت کچھ دے سکتا ہے

(دعوت نیوز ، کولکاتا بیورو)

دنیا کے سامنے اپنے کثیر ثقافتی تنوع کو اجاگر کرنے کا موقع
جی 20ممالک کی سربراہی نے دنیا کو صحیح سمت پر گامزن کرنے اور بابصیرت قیادت فراہم کرنے کا بھارت کے لیے بہترین موقع ہے ۔عالمی وبا کوویڈ۔19کے بعد دنیا بحرانی دور سے گزررہی ہےاور اس کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے مگر روس-یوکرین کی جنگ نے ایک نئے بحران کو پیدا کردیا ہے۔معاشی سست روی کی وجہ سے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کےسامنے کئی مسائل اور مشکلات ہیں ۔ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں بھی بحران کی زد میں ہیں جیسا کہ برطانیہ کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔چونکہ جی20سب سے مضبوط اور سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔یہ دنیا کی 20 بڑی معیشت والے ممالک کی تنظیم ہے۔اس کے علاوہ جی 20میں نو دیگرممالک بطور مہمان شریک ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ چودہ کثیرالجہتی تنظیمیں اقوام متحدہ (UN) ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن شامل ہیں۔ (ILO) جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی اسوسی ایشن (ASEAN)، افریقی یونین، انٹرنیشنل سولر الائنس (ISA) اور Coalition for Disaster Resilient Infrastructure (CDRI)اور دیگر تنظیمیں بھی جی 20کا حصہ ہیں۔ جی 20ممالک کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان اشتراک عمل اور جامع تعاون قائم کیا جائے ۔علاوہ ازیں اس پلیٹ فارم کے ذریعہ عالمی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو محفوظ بنانے میں اسٹریجک کردار ادا کیا جاتا ہے۔یہ پلیٹ فارم کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے جی 20کے اراکین عالمی جی ڈی پی کے 85 فیصد، عالمی تجارت کے 75 فیصد اور دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس لحاظ سے اتنے بڑے پلیٹ فارم کی سربراہی جہاں بھارت کےلیے عالمی نقشے پر اپنے وجود اور اہمیت کا احساس دلانے کا بہترین موقع ہے وہیں اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارت اپنی سربراہی میں دنیا کو کیا نیا دے سکتا ہے؟ بھارت نے جی20ممالک کی سربراہی کا تھیم “Vasudhaiva Kutumbakam” ’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ہے بنایا ہے۔یہ تصور بہت ہی عظیم ہےمگر اس کو عملی جامہ پہنانا اسی قدر مشکل بھی ہے۔ اس وقت دنیا تیزی سے کئی کیمپوں میں منقسم ہورہی ہے۔ان بکھرتے ہوئے خاندان کو سمیٹنا اورایک لڑی میں پرونا ایک بڑا چیلنج ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں الٹرا نیشنلزم کے حامیوں کا غلبہ ہے۔الٹرا نیشنلزم نے رواداری، برداشت اور ہمدردی کے جذبے کو ختم کردیا ہے۔ہرایک اپنے اپنے مفادات کا اسیر ہے۔نظریات اور فکر پس پشت چلی گئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ ،معاشی سست روی کے اثرات اور صحت کے وہ مسائل ہیں جن سے نمٹنے میں بھارت اپنی طاقت اور قائدانہ قیادت کا ثبوت پیش کرسکتا ہے۔جی 20ممالک کی یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو ٹالنے میں ناکامی نے اس کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی، تجارتی سہولت کاری اور صحت وہ ایشوز ہیں جو مغرب اور گلوبل ساوتھ کے درمیان کافی گہرے خلیج رکھتے ہیں۔ اگراس کوئی پاٹ سکتا ہے وہ بھارت ہی ہے۔اس کے ساتھ ہی کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی آواز بننے کا بھی یہ موقع ہے۔بالخصوص کورونا وائرس کی وبا کے دوران جس فیاضی کے ساتھ بھارت نے دنیا بھر کو ویکسین فراہم کیا ہے اس نے اس کی عزت و وقار کو بلند کیا ہے۔ڈیڑھ ارب کی اپنی آبادی کو ویکسین فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کوویڈ۔19 وبا کے دوران ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کو دوائیں اور ویکسین فراہم کرنا کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔
اس طرح صحت کا شعبہ بھارت کےلیے بہتر مواقع فراہم کرتا ہے۔اس شعبے کے ذریعہ بھارت کے پاس دنیا کو دینے کےلیے بہت کچھ ہے اور خود کےلیے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے اور بنیادی انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کےلیے تجربات حاصل کرنے کا موقع ہے۔صحت مستحکم انسان کا بنیادی حق ہے اور اقتصادی ترقی و صحت مندمعاشرے کا ایک لازمی عنصرہے۔کورونا وائرس نے دنیا بھر کو صحت کی ہنگامی صورت حال سے موثر طریقے سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کےلیے سنجیدہ کردیا ہے ۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ صحت عامہ کی ایمرجنسی اور وبائی مرض سے نمٹنے کےلیے اگر مستقل انتظامات نہیں کیے گئے تو کیا نتائج برآمد ہوں گے بلکہ اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے بعد دنیا سنجیدگی کے ساتھ صحت عامہ اور بہتر وبا سے نمٹنے کےلیے کب اقدامات کرے گی ۔اس وقت دنیا کو متعددی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔ کوویڈ۔19نے عالمی برادری کے سامنے ایک عظیم چیلنج رکھا ہے۔عالمی صحت کے نظام میں کمزوریوں اور خامیوں کو سمجھنے اور اس کے تدارک کےمواقع پیدا کیے ہیں۔کورونا نے صرف تیسری دنیا یا پھر ترقی پذیر ممالک کے نظام صحت ہی کی پول نہیں کھولی بلکہ اس وباکے دوران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک تک بے بس نظر آئے۔امریکہ،برطانیہ اور یورپی ممالک جس طرح کورونا وبا کے دوران بے بسی کی تصویر بنے رہے اور اسپتالوں کے باہر لمبی قطاریں نظر آئیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ایک طویل عرصے سے صحت کے شعبے کو نظرانداز کرتی رہی ہے۔انسانی زندگی کی اہمیت اس کی نگاہوں سے کم ہوگئی تھی۔چنانچہ کورونا کے دوران اس کی قیمت چکانی پڑی۔
2017 کے جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس میں صحت کے مسائل پر کھل کر بات کی گئی۔جرمنی کی سربراہی والی جی 20میں پہلی مرتبہ وزرائے صحت کی میٹنگ ہوئی۔برلن اعلانیہ میں وبائی امراض سے نمٹنے کی تیاری، صحت کے نظام کو مضبوط بنانے اور جراثیم کش دواوں سے نمٹنے کے ایشوز پر گفتگو کی گئی ۔اس کے ساتھ ہی یونیورسل ہیلتھ کرئیرکو مستحکم کرنے اور اس نظام کو مربوط کرنے پر بہت مباحث ہوئے مگر کوویڈ۔19نےیہ ثابت کردیا کہ صحت کے شعبے میں انشورنش جیسی اسکیمیں اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں جب بنیادی صحت اور انفراسٹکچر پر توجہ دی جائے۔چنانچہ انڈونیشیامیں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس 2022 میں صحت کا شعبہ سب سے زیادہ چھایا رہا ۔2018میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسیف نے آستانہ (قازقستان) کانفرنس میں مشترکہ ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یونیورسل ہیلتھ کیئر منصوبہ اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب پبلک ہیلتھ کیئر (بنیادی ڈھانچہ)بہتر بنایا جائے ۔ورلڈ بینک نے 2021میں Walking the Talk Covid -19کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے بنیادی صحت کے نظام کو مستحکم بنانے پر زور دیا ہے ۔بنیادی ڈھانچہ کا دائرہ کار صرف طبی خدمات، کم قیمت کے ساتھ معیاری دوائیوں کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ معیاری خوراک، محفوظ اور صاف پانی کی فراہمی اور صحت مند روزگار کے مواقع کی فراہمی تک وسیع ہے۔
صحت کا شعبہ بہت ہی وسیع ہے۔ چونکہ اس کا تعلق براہ راست انسانی زندگی سے ہے اس لیے اس شعبے کو بہتر بنانے کےلیے کئی اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچہ کا ڈیزائن مکمل طور پر خود انحصاری پر ہونا چاہیے۔ ہرخاندان کو اس قدر باشعور ہونا چاہیے کہ وہ اپنی دیکھ بھال کرسکے۔ یعنی کم سے کم اتنا شعور ہر خاندان میں ہونا چاہیے کہ وہ بیماری کی نوعیت کو سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ یہ بھی جانتا ہو کہ کب اور کہاں اور کس ڈاکٹرسے رجوع کرنا ہے۔دوسرے یہ کہ کمیونیٹی سروسز پرائمری لیول کی پیرامیڈیکل سروسز اورپھر اسپتال بنیادی ڈھانچے کا لازمی حصہ ہے۔بہتر اور کارآمد ٹکنالوجی کی مدد سے معیاری اور کم قیمت کی دواووں کی پیدوار میں اضافہ اور بیماریوں کی تشخیص کےلیے لیبارٹری میں استعمال میں آنے والی مشینوں کے ایجاد کےلیے اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔
انڈین فارماسیوٹیکل انڈسٹری آج پچاس بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے پچیس بلین ڈالر سے زیادہ برآمدات بیرون ممالک سے آتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ 2030 تک بڑھ کر 130 بلین ڈالر ہو جائے گی۔ایسے میں بھارت کو درآمدات پر کم سے کم انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کےلیے جامع پالیسی فریم ورک بنانا ہوگا۔ کوویڈ ویکسین فراہمی میں بھارت نے تاریخی اقدامات کیے ہیں، بچوں کو ویکسین فراہم کرنےکے معاملے میں دنیا بھر میں بھارت کی حصہ داری اسی فیصد ہے۔مگر اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کورونا کے بعد بچوں میں پھیلنے والی بیماری میزلس سے متاثرہ دس ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ دواسازی اور ویکسین کی فراہمی میں بہتر پوزیشن کے باوجود بنیادی ڈھانچہ میں خامیاں کئی مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ 2050تک بھارت کی آبادی 170 کروڑ ہوجائے گی ۔اس دوران بزرگ شہریوں کی تعداد میں سولہ فیصد اضافہ ہوجائے گاجو مزید مسائل پیدا کرے گا ۔اتنی بڑی آبادی کو صحت کی سہولتیں پہنچانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔اس کےلیے بھارت کو سب سے زیادہ بنیادی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے اور کمیونٹی سطح تک طبی سہولتیں فراہم کرنے کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے ۔دسمبر میں جی20کی سربراہی بھارت نے سنبھال لی ہے۔بھارت کی سربراہی میں جی 20ممالک کے ہیلتھ ٹریک کے تحت چار ہیلتھ ورکنگ گروپ کی میٹنگ ہوگی اور ایک وزرائے صت کی میٹنگ ہوگی۔بھارت میں ورکنگ گروپ کی میٹنگ ہوگی اور یہ چاروں میٹنگس بھارت کے مختلف شہروں میں ہوں گی جس کا آغاز ترواننتا پورم سے گزشتہ مہینے 18تا20جنوری کے درمیان ہوا۔ دراصل اس کے ذریعہ بھارت اپنے ثقافتی تنوع اور کلچر کو بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔مرکزی وزارت صحت نے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کےلیے اے ایم آر ویکسین کی فراہمی کے ساتھ ،محفوظ، موثر، معیاری اور سستی طبی دوائیوں کی فراہمی فارماسیوٹیکل سیکٹر میں تعاون اور سرمایہ کاری پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھارت کا بنیادی مقصد صحت کی ترجیحات اور گزشتہ صدارتوں سے اہم نکات کو جاری رکھنا اور مضبوط کرنا ہے اور ان اہم شعبوں کو اجاگر کرنا ہے جن کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کا مقصد صحت سے متعلق تعاون میں مصروف مختلف کثیر جہتی فورمس پر بات چیت میں ہم آہنگی اور مربوط کارروائی کرنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں صحت کا نظام بہتر ہوا ہے۔پی پی ماڈل کے تحت پرائیوٹ اور معیاری اسپتال قائم ہوئے اور اب بھارت کے چھوٹے شہروں میں بھی پرائیوٹ کمپنیاں اسپتال بنارہی ہیں ۔دوسری طرف مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے انشورنش کے ذریعہ عام لوگوں کی رسائی آسان کی ہے۔مگر چندریاستوں کو چھوڑ کر بھارت کے بیشتر ریاستوں میں بنیادی طبی نظام نہیں ہونے کی وجہ سے شہروں کے بڑے بڑے اسپتال پر وسعت سے کہیں زیادہ بوجھ ہے۔اس کی وجہ سے کالا بازاری میں بھی اضافہ ہوا ہے اور علاج کافی مہنگا ہوچکا ہے اور عام لوگوں کےلیے مشکلات بڑھ گئی ہے۔کیرالا اور جنوبی ہند کی دیگر ریاستوں نے کمیونٹی سطح پر اسپتال قائم کرنے پر توجہ دی اس کی وجہ سے کورونا وبا کے دوران انسانی جانوں کا نقصان ان ریاستوں میں کم نظرآیا۔بھارت اگر دنیا کے سامنے ماڈل صحت کا نظام پیش کرنا چاہتا ہے تو اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ انفراسٹکچر پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرے۔یہ بات قابل غور ہے کہ بنیادی ڈھانچہ میں صرف اسپتال بنانے اور معیاری دواسازی کافی نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کو صحت مند رکھنے کےلیے صاف پانی ،آلودگی سے پاک فضا اور معیاری خوراک فراہم کرنا بھی اہم چیلنج ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔گزشتہ جی 20ممالک کی سفارشات کوآگے بڑھانے کے ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ مربوط صحت کے نظام کے ساتھ معیاری اور آسان طبی نظام کی تشکیل کرنی ہوگی اور اس کےلیے سرمایہ کاری جہاں ضروری ہے وہیں ویلفیئر اسٹیٹ ہونے کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔
***

 

***

 انڈین فارماسیوٹیکل انڈسٹری آج 50 بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے 25 بلین ڈالر سے زیادہ برآمدات سےبیرون ممالک سے آتے ہیں ۔ مقامی مارکیٹ 2030 تک بڑھ کر 130 بلین ڈالر ہو جائے گی۔ایسے میں بھارت کو درآمدات پر کم سے کم انحصار کرنے کا ضرورت ہے۔اس کےلیے جامع پالیسی فریم ورک بنانا ہوگا۔ کوویڈ ویکسین فراہمی میں بھارت نے تاریخی اقدامات کئے ہیں، بچوں کو ویکسین فراہم کرنےکے معاملے میں دنیا بھر میں بھار ت کی حصہ داری 80فیصد ہے۔یعنی 100ممالک میں سے 80ممالک کو بھارت ویکسین فراہم کرتا ہے۔مگر اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کورونا کے بعد بچوں میں پھیلنے والی بیماری میزلس سے متاثرہ دس ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ دواسازی اور ویکسین کی فراہمی میں بہتر پوزیشن کے باوجود بنیادی ڈھانچہ میں خامیاں کئی مسائل پیدا کرسکتے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023