فیفا عالمی کپ کا ہیرو: قطر ،مراقش یا فلسطین
عرب شائقین کا فلسطینیوں سے بھرپور اظہار یکجہتی۔اسرائیل نواز چراغ پا
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
قطر نے انتظامی صلاحیت کا لوہا منوالیا۔اسلام کی بہتر ترجمانی کے ذریعہ دل جیت لیے
قطر کے اندر فیفا عالمی کپ کے فیصلے نے ساری دنیا کو چونکا دیا اس لیے کہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کو یہ غلط فہمی تھی کہ اس کا اہتمام عرب یا مسلمان نہیں کرسکتے ۔ انہیں یقین تھا کہ وقت کے ساتھ قطر اپنی غلطی کا احساس کرکے از خود دستبردار ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ورلڈ کپ کی تیاریاں اپنےآخری مراحل میں پہنچیں تو یوروپی ممالک کو اپنی بھول کا احساس ہوا ۔ اس کے بعد تنقید و تنقیص کا آتش فشاں پھٹ پڑا اورطرح طرح کے اعتراضات ہونے لگے لیکن اس سے قطر کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی ۔اس نےنہایت مدلل انداز میں اپنا دفاع کیا اور اپنی کارکردگی سےمعترضین کے دانت کھٹے کردیئے ۔ قطر نے نہ صرف عالمی معیار سے بہتر اہتمام کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا بلکہ اس موقع کو اسلام کی دعوت پیش کرنے کا ایک ذریعہ بھی بنادیا ۔ اس طرح وہ اسلامی دنیا کی آنکھ کا تارہ تو بن گیا لیکن کھیل کے میدان میں اس کی ٹیم کوئی کامیابی درج نہیں کراسکی ۔ اس کمی کو مراکش نے نہایت خوش اسلوبی پورا کیا ۔ ان دونوں نے مل کر میدان کے اندر و باہر مسلمانوں کا دبدبہ قائم کردیا ۔
فیفاورلڈکپ کےکوارٹر فائنل میں مراکش نے عالمی شہرت یافتہ رونالڈو کی پرتگال کو 0-1 سے شکست دے کر پہلی مرتبہ سیمی فائنل میں جگہ بنائی ۔ فیفا ورلڈکپ کی تاریخ میں سیمی فائنل تک پہنچنے والی پہلی عرب اور پہلی افریقی ٹیم مراکش ہے۔ اس سے قبل تین افریقی ممالک کیمرون(1990 )، سنیگال (2002) اور گھانا(2010) نے کوارٹر فائنل میں کوالیفائی کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ٹیم اس راؤنڈ سے آگے نہیں جا سکی جبکہ مراکش کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوگیا ۔ اس عالمی مقابلے میں سیمی فائنل تک پہنچنےکے لیے مراکش نے 5 میچ کھیلے ۔ اس کی بہترین کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے صرف ایک میچ میں مخالف ٹیم اس کے خلاف گول کرنے میں کامیاب ہوسکی ۔
مراکش کی ابتداء بہت معمولی تھی۔ اس نےورلڈکپ کا پہلا گروپ میچ کروشیا کے خلاف کھیلا تھا جس میں دونوں ٹیمیں کوئی گول نہ کرسکیں اور یہ مقابلہ برابر ہوگیا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آگے چل کر یہ ٹیم کیا گُل کھلائے گی؟دوسرے میچ میں مراکش نے فیفا درجہ بندی میں نمبر 2 پر براجمان بیلجیم کو 0-2 سے شکست دے کر ہنگامہ مچا دیا۔ مراکش کے لیے وہ میچ خاصا مشکل تھا کیونکہ اس کے بہترین گول کیپر یاسین بونو ناسازی طبیعت کے باعث غیر حاضر تھےاس کے باوجود پہلی بڑی کامیابی ملی ۔ گروپ کے آخری اور اہم میچ میں مراکش نے کینیڈا کو 1-2 سے شکست دی۔ کوارٹر فائنل تک کے سفر میں یہ واحد میچ تھا جس میں مراکش کے خلاف حریف ٹیم ایک گول کرنے میں کامیاب ہوسکی۔پری کوارٹر کے ناک آؤٹ میچ میں مراکش کے سامنے اسپین کے بڑی ٹیم تھی ۔ اس میچ کے دورانیہ میں کوئی بھی ٹیم گول نہیں کرسکی اس لیے پنالٹی ککس کے ذریعہ فاتح کا فیصلہ کرنا پڑا۔ مراکش نے لگاتار 3 گول کردیئے جب کہ ہپسانوی فٹبالر ایک بار بھی گیندگول پوسٹ تک نہیں پہنچاسکے۔ ویسے تویاسین بونو کی شاندار گول کیپنگ نے تین صفر سے کامیابی دلا کرشائقین کا دل جیت لیا لیکن اس میچ کا ہیرو تیسرا گول داغنے والا اشرف حکیمی تھا۔
پری کوارٹڑ فائنل میں کلیدی کردار ادا کر نے والے مراکش کے اسٹار کھلاڑی اشرف حکیمی کی پیدائش اسپین ہی میں ہوئی ۔ وہ اسپین کی معروف ترین ریال میڈرڈ میں رائٹ بیک پر کھیلتے تھے۔ عالمی کپ کے لیے 24 سالہ اشرف نے اسپین کے بجائے اپنے والدین اور آباؤ و اجداد کے ملک مراکش کی ٹیم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسپین کے خلاف تیسرے پنالٹی کک سے گیند کو گول پوسٹ میں داغنے کے بعد اشرف حکیمی دوڑکر شائقین میں موجود اپنی والدہ کے پاس پہنچے ان کے بوسہ کی سعادت حاصل کی ۔ اشرف حکیمی ایک غریب خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔ ان کی والدہ گھروں کی صفائی کرتی تھیں اور والد پھیری کرتے تھے۔ اپنے والدین کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اب ہر روز ان کے لیے محنت کرتا ہوں‘۔ اسپین کے خلاف میچ میں کامیابی کے بعد مراکش کے مینیجر وليد الركراكی نے کہا تھاکہ ’یہ بڑی کامیابی ہے اور کھلاڑی پُرجوش ہیں۔ انھوں نے پختہ یقین کا مظاہرہ کیا۔‘
اس اہم کامیابی پر ٹیم کے مینیجر کو مراکش کے بادشاہ کا فون آیا تو انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی شہری کے لیےبادشاہ کا فون غیر معمولی بات ہے۔وليد الركراكی نے اعتراف کیا تھاکہ وہ ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور فون کر کے مشورے دیتے ہیں ۔ وہ پوری جان لگانے کی ترغیب دیتے ہیں۔بادشاہ سلامت جب کھلاڑیوں پر فخر جتاتے ہیں تو وہ بہتر سے بہتر کھیل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسپین پر ملنے والی یہ کامیابی اکیلے اشرف حکیمی کاکارنامہ نہیں تھا ان سے قبل عبدالحامد صابری اور حکیم زیاش کےکامیاب پینلٹی ککس نے مراکش کو دو صفر کی برتری دلادی تھی ۔ مراکش کے گول کیپر ياسين بونو دو پینلٹی روک چکے تھے اس لیے یہ ایک اجتماعی کامیابی تھی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ یاسین بونو ہسپانوی لیگ لالیگا میں سیویلا کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اپنا بیشتر وقت اسپین میں ہی گزارا ہے۔
مراکش کی فٹبال ٹیم کو ورلڈ کپ میں ہلکا سمجھا جارہا تھا لیکن کپتان رومان سایس کا زخمی ہونا انہیں میدان سے دور نہیں کرسکا۔ نایف اکرد زخمی ہوکر واپس آئے تو مڈ فیلڈر سفيان امرابط نے تیزی سے ان کی جگہ لےکر اسپین کو روکا۔اسپین جیسی ٹیم کو جارحانہ انداز میں کھیل کر ہرانا ممکن نہیں تھا اس لیے مراکش نے تحمل کا دامن تھامے رکھا ۔ وہ اپنی دفاعی حکمت عملی کے گیم پلان پر ڈٹے رہے اوراسےاتنا مضبوط بنایا کہ اسپین کوصرف ایک آن ٹارگٹ شاٹ لگا نے کا موقع ملا۔اپنے بہترین گول کیپرپر یقین ان کے کام آیا۔ مراکش کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ کے سابق فٹبالر پیٹ نوین نے کہا’مراکش اس جیت کے مستحق تھی ۔ انھوں نہ اپنی جدوجہد، جنون اور دلیری سے پینلٹی شوٹ آؤٹ جیت کر میچ اپنے نام کیا۔یہ تاریخی لمحہ ہے۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ وہ اس قدر دور تک پہنچ پائیں گے۔‘اس کے برعکس مراکش کے مداح اعظم نے کہا کہ ’کسی کو یقین نہ تھا مگر ہمیں اپنی ٹیم پر مکمل یقین تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم دوبارہ بھی جیت سکتے ہیں۔‘ پرتگال کے مقابلے میں کامیابی نےاعظم کے اعتماد کی تائید کردی ۔
قطر کے الثمامہ اسٹیڈیم میں کھیلےگئے کوارٹر فائنل میں مراکش کرسٹینا رونالڈو کی پرتگال کو 0-1 ہرا کر ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ مراکش کی جانب سے پہلے ہاف میں کیےگئےگول کو پرتگال مقررہ وقت میں برابر نہ کرسکاکیونکہ اس کے سامنے یاسین بونو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے تھے۔ مراکش کےگول کیپر نےاس اہم میچ میں کئی یقینی گول بچا کر جیت میں اہم کردارادا کیا۔ اسلامی تاریخ کا یہ دوسرا موقع ہے ۔ اس سے قبل 2002 کے ورلڈکپ میں ترکی سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔ پرتگال کو ہرانا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ وہ سوئٹزرلینڈ کی مضبوط ٹیم کو 6-1 سے شکست دے کر کوارٹر فائنل میں آیا تھا اور 2016میں اسے یورو کپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا تھا لیکن اس ٹورنامنٹ کے اندر پرتگال کی ٹیم کا اپنے اسٹار کھلاڑی رونالڈو کے اوپر سے اعتماد اٹھ رہا تھا۔مانچسٹر یونائیٹڈ سے جھگڑاکرکے لا تعلق ہوجانے والے 37 سالہ رونالڈو کو سوئزرلینڈ کے خلاف باہر بنچ پر بیٹھا دیا گیا ۔ ان کے بغیر 39 سالہ پیپے نے دو گول کیے، راموس و رافیل گوریرو نے ایک ایک گول کرکے اسکور کو 4-0 کر دیا۔
راموس نے جب دوسرا گول کرکے پرتگال کو 5-1 تک پہنچا دیا تو اسٹیڈیم رونالڈو-رونالڈو کے نعروں سے گونجنے لگا۔ میچ ختم ہونے سے 16 منٹ قبل رونالڈو کوجواؤ فیلکس کی جگہ میدان میں لایا گیا توان کا کسی پاپ اسٹار کی طرح استقبال ہوا مگر وہ ان آخری لمحات میں کوئی گول نہیں کرسکے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس دوران کوئی گول ہی نہیں ہوا بلکہ رافیل لیو نے پرتگال کے لیے چھٹا گول کردیا ۔
مراکش کے خلاف اپنی ناکامی کے بعد فٹبال کا ایک عظیم کھلاڑی روتے ہوئے رخصت ہوا ۔ اس میچ نے گویا رونالڈو کے مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا اور اب اس ٹوٹے ہوئے تارے کا پھر سےابھرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس میچ کے آخر میں کیمرے کی آنکھ کبھی تو رونالڈو کو نمناک دکھاتیں تو کبھی مراکش ٹیم کے کھلاڑیوں کے میدان میں سجدہ ریز ہونے کا ایمان افروز منظر پیش کرتی تھی۔
مراکش کی قومی ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے قطر ورلڈ کپ 2022ء میں کینیڈا کے خلاف 2-1 سے فتح کے بعد جشن مناتے ہوئے فلسطین کا پرچم لہرا کر شائقین کو چونکا دیا۔ ان کے علاوہ ’’اٹلس لائنز‘‘ اور اسپانوی کلب کے کھلاڑی جواد الیامیق نے فلسطینی جھنڈا اٹھا کر اسٹیڈیم کے گرد چکر لگایا۔ مراکش کی قومی ٹیم کے انتظامی عملے کے کچھ ارکان مثلاًسلیم آملاح اور عز الدین اوناحی بھی پرچم سمیت ان کے ساتھ تھے ۔ مراکش کے پرجوش شائقین بھی نہ صرف پرچم لہرا رہے تھے بلکہ فلسطینی ٹی شرٹ بھی زیب تن کررکھی تھی۔ یہ دوطرفہ معاملہ تھا ۔ مراکش کےکوارٹر فائنل میں کوالیفائی کرنے سے فلسطین کے اندر بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں نے مراکش کی کامیابی کے جشن میں خوشی کااظہار کرتے ہوئے جلوس نکالے اور مغربی کنارے میں آتش بازی کی گئی۔ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان نے برادر ملک قطر میں منعقدہ فیفا ورلڈ کپ میں مراکش کو کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے پر مبارکباد دی۔حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ ’’عرب کھیلوں کی یہ کامیابی تعریف کی مستحق ہے، امید ہے مراکش کی ٹیم آئندہ میچوں میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گی‘‘۔فلسطینی پرچم کے ساتھ مراکش کی حمایت علامہ اقبال کے اس شعر کی تصدیق تھی کہ ؎
نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بناء ہمارے حصار ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
فلسطین کا یہ منفرد اعزازہوا کہ ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے سے محروم رہنے کے باوجود اس کا پرچم وہاں لہرایا گیا۔ ٹورنامنٹ کے دوران فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی نے عملاً چار عرب ممالک کے ذریعہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تعلقات بحال کرنے اقدام کو عوامی سطح پر مسترد کردیا ۔ اسرائیل ہیوم نامی اخبار نےلکھا کہ قطر ورلڈ کپ نے ’’اسرائیل کو ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت سے روبرو کردیا جو ایک عرب اور مسلم ملک میں اس کے مسترد، نظرانداز، نفرت اور عدم قبولیت کی علامت ہے۔‘‘مذکورہ اخبار نے کھلے عام اعتراف کیا کہ ’’جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خلیجی ممالک کے باشندوں کی اسرائیل کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے وہ دھوکے میں ہے اور حقیقت کو مختلف انداز سے دیکھتا ہے۔‘‘
اسرائیلی چینلز کے نامہ نگاروں نے اس بار بڑے جوش و خروش سے قطر کا سفر کیا۔ کیمرے لگائے اور عربوں کی طرف سے اسرائیل کی تعریف کرنے کا انتظار کیا، لیکن جلد ہی انہیں اپنی حقارت، غفلت اور تضحیک کا احساس ہوگیا۔ اخبار ہیوم کے مطابق بہت سے عربوں نے کہا کہ ’’اسرائیل جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ صرف فلسطین ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ امن دسترس میں ہے اور عرب ممالک کے ساتھ معمول کے معاہدے صرف وقت کی بات ہے‘‘۔اخبار نے زور دے کر کہا کہ ’’اسرائیل کے ساتھ عرب باشندوں کا رویہ 70 سالوں سے جاری دشمنی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ کہ مسئلے کی جڑ ابھی تک موجود ہے۔‘‘
اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والوں میں مراکش بھی شامل ہے مگر مراکش کمیشن فار فرنٹنگ نارملائزیشن کے سربراہ احمد ویحمان مراکشی حکومت کی طرف سے نام نہاد مسودہ امن کی شدید مذمت کرتے ہوے اس کو مراکش کے قومی وقار کی توہین قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ فلسطینی عوام کے تئیں مراکش کی ذمہ داریوں اور ان کی منصفانہ جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسےوقت میں کیا گیا ہے جب قابض ریاست فلسطینیوں کے خلاف ننگا ناچ کررہی ہے۔ فوج اور نسل پرست پولیس نے فلسطینی عوام کے خلاف پے درپے قتل عام کا ارتکاب کیا ہے۔ویحمان نے اس معاہدے کو صدر مراکش پر استعماری طاقتوں اور صہیونی لابی کے دباؤ کا نتیجہ اور عوام پر صیہونی دراندازی اور تسلط کو معمول پر لانے کے لیےکیا جانے والا اقدام بتایا ۔یہ ایک انفرادی رائے نہیں بلکہ عام خیال ہے۔
عبرانی چینل 12 کے نامہ نگار اوہاد حمو نے اس کا اعتراف یوں کیا کہ ’’عرب عوام کی اکثریت قطر میں ہماری موجودگی کو پسند نہیں کرتی حالانکہ ہمارے اسرائیل کے چار عرب ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم ہیں ۔حمود کے بیان میں یہ اشارہ ہے کہ عرب عوام نے ’’اسرائیل‘‘ کو ’’ناقابل قبول‘‘ ہونے کا واضح پیغام دیا ہے۔ عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے تو صفحہ اول پر ایک وسیع سرخی لگائی : ’’نفرت کا ورلڈ کپ‘‘۔ قطر میں موجود اخبار کے نامہ نگار نے کہا کہ’’ہم خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہم نفرت میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔ ہر طرف سے دشمنی اور ناپسندیدگی میں گھرے ہوئے ہیں۔‘‘ نامہ نگار نے مزید کہا کہ ’’ایک قطری کو جب معلوم ہوا کہ ہم اسرائیلی ہیں تو وہ بولا تمہارا کوئی استقبال نہیں پرندے کی تیزی کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ‘‘۔
اخبار یدیعوت احرونوت کےمطابق ’’فلسطینی، ایرانی، قطری، مراکش، اردنی، شامی اور مصری اس عالمی کپ میں ہمارے خلاف دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘اس زبردست ناپسندیدگی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’ ہم ان کے بھائیوں کو مار رہے ہیں۔‘‘شائقین کا سوال تھا کہ اسرائیلی کیوں چاہتاہے کہ ان کی موجودگی کو قبول کیا جائے جبکہ اس نے ہماری سرزمین کی بے حرمتی کی ہے، ہمارے گھروں کی خلاف ورزی کی ہے اور ہر روز ہمارے بھائیوں کو قتل کرتا ہے؟‘‘المیادین ٹی وی نے متعدد نوجوانوں کو اسٹیڈیم کے سامنے فلسطین کا جھنڈا اٹھا کر انصاف کا مطالبہ کرتے دکھایا۔ اس حمایت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ فلسطینی مظلوم ہیں۔ ان کی آواز پوری دنیا تک پہنچانی ہے۔اس ورلڈ کپ نے یہ حقیقت ظاہر کردی کہ عرب اسرائیل معاہدوں کے باوجود عرب عوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں اور یہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ یوم انتفاضہ کی سالگرہ کے موقع پر مراکش کی ٹیم نے پرتگال کو ہرا کر سیمی فائنل میں قدم رکھا۔ اس طرح موجودہ ورلڈ کیمپ نے قطر اور مراکش کے ساتھ فلسطین کو بھی ہیرو بنادیا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022