اخباراب کے لیے مضامین لکھنے کی بنیاد پر ہرش مندر کے تھنک ٹینک کا ایف سی آر اے لائسنس معطل کر دیا گیا
نئی دہلی، جون 20: وزارت داخلہ نے کارکن ہرش مندر کے تھنک ٹینک سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کا فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ لائسنس 180 دنوں کے لیے معطل کر دیا ہے۔
مندر انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے سابق افسر ہیں اور نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ’’لاکنگ ڈاؤن دی پوور‘‘ اور ’’پارٹیشنز آف دی ہارٹ: ان میکنگ دی آئیڈیا آف انڈیا‘‘ شامل ہیں۔ وہ سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے بانیوں میں سے ایک ہیں، جو ایک خود مختار تھنک ٹینک ہے جو سماجی انصاف کے مسائل کی وکالت میں مصروف ہے۔
14 جون کو ایک حکم میں وزارت نے کہا کہ مندر باقاعدگی سے انڈین ایکسپریس، دی ہندو، دی وائر، ہندوستان ٹائمز، دی کوئنٹ اور اسکرول جیسے اخبارات کے لیے کالم لکھ رہے ہیں۔
حکم میں کہا گیا ہے ’’ہرش مندر، ٹرسٹی، نے مالی سال 2011-’12 سے 2017-’18 کے دوران ایسوسی ایشن [سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز] کے ایف سی آر اے اکاؤنٹ سے پیشہ ورانہ رسیدیں/ ادائیگیوں کے طور پر 12,64,671 روپے کی غیر ملکی شراکت کو قبول کیا ہے۔ یہ ایکٹ کے سیکشن 3 اور 8 اور ایکٹ کے سیکشن 12(4)(a)(vi) کے تحت رجسٹریشن کی شرائط کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
غیر ملکی فنڈز حاصل کرنے کے لیے فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ، یا FCRA کے تحت رجسٹریشن لازمی ہے۔ لائسنس کی معطلی سے تھنک ٹینک وزارت داخلہ کی منظوری کے بغیر بیرون ملک سے تازہ عطیات حاصل کرنے یا موجودہ غیر ملکی عطیات کو استعمال کرنے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔
ایکٹ کا سیکشن 3 رجسٹرڈ اخبار کے نامہ نگاروں، کالم نگاروں، کارٹونسٹوں، ایڈیٹرز، مالکان، پرنٹرز اور پبلشرز کی طرف سے غیر ملکی تعاون کو قبول کرنے سے منع کرتا ہے۔ ایکٹ کے سیکشن 8 میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی امداد حاصل کرنے والی تنظیموں کو انھیں صرف اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جس کے لیے انھوں نے امداد حاصل کی ہے۔
ایکٹ کا سیکشن 12(4)(a)(vi) ذاتی فائدے کے لیے غیر ملکی شراکت کے استعمال یا ناپسندیدہ مقاصد کے لیے ان کا رخ موڑنے سے منع کرتا ہے۔
اپنے نوٹس میں وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ مندر نے دوسرے لوگوں کے ساتھ کالم شائع کیے، جنہیں سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ایف سی آر اے اکاؤنٹ سے ادائیگی کی گئی تھی۔
وزارت نے کہا ’’اس طرح کی ایک مثال ہرش مندر، انجلی بھردواج اور امرتا جوہری کا 6 اگست 2018 کو اسکرول میں لکھا گیا مضمون ہے۔ اطلاع ہے کہ امرتا جوہری اور انجلی بھردواج کو ایسوسی ایشن کے ایف سی آر اے اکاؤنٹ سے 1,13,251 روپے اور 25,64,550 روپے ادا کیے گئے ہیں۔‘‘
وزارت نے تھنک ٹینک پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ غیر ایف سی آر اے ایسوسی ایشنز کی طرف سے تصنیف کردہ رپورٹس بنانے اور جاری کرنے کے لیے غیر ملکی تعاون کا استعمال کر رہا ہے۔ اس نے 2020 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا۔ ’’لیبرنگ لائوز: ہنگر اینڈ ڈسپیئر ایمڈ لاک ڈاؤن‘‘ رپورٹ دہلی ریسرچ گروپ اور کاروانِ محبت کے اشتراک سے تیار کی گئی تھی اور اسے جرمن فاؤنڈیشن روزا لکسمبرگ سٹفٹنگ نے سپورٹ کیا تھا۔
وزارت نے یہ بھی الزام لگایا کہ مندر کے تھنک ٹینک کو غیر ملکی عطیہ دہندگان سے غیر ملکی تعاون موصول ہوا ہے ’’جنھوں نے خاص طور پر ان مقاصد کے لیے فنڈز دیے ہیں جو ٹرسٹ کے مقاصد سے باہر ہیں۔‘‘
حکم میں کہا گیا ہے ’’اس طرح کے مقاصد کے لیے غیر ملکی شراکت کے استعمال سے ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت پر منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔‘‘
وزارت نے مزید کہا کہ تھنک ٹینک کے سالانہ گوشواروں کی چھان بین سے معلوم ہوا کہ مالیاتی عدم مطابقت ہے اور یہ 3 مارچ کو بھیجے گئے سوالنامے کا جواب دینے میں ناکام رہا۔
مارچ میں وزارت داخلہ نے مندر کی غیر سرکاری تنظیم امن برادری کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے اصولوں کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن انکوائری کی سفارش کی تھی۔
اس سے قبل مندر منی لانڈرنگ کے الزامات کے سلسلے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانچ کے تحت رہے ہیں۔ ستمبر 2021 میں ایجنسی نے دہلی کے وسنت کنج علاقے میں واقع ان کے گھر، شہر کے سروودیا انکلیو علاقے میں واقع سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز میں واقع ان کے دفتر، اور ان بچوں کے گھر پر چھاپے مارے جو مندر کی تنظیم مہرولی کے پڑوس میں چلاتی ہے۔
600 سے زیادہ نامور افراد کے ایک گروپ نے اس وقت کہا تھا کہ یہ چھاپے مرکز کی جانب سے اپنے ناقدین کو ’’دھمکانے اور خاموش کرنے‘‘ کے لیے سرکاری اداروں کے استعمال کا حصہ تھے۔
اکتوبر 2020 میں دو بچوں کے گھروں پر، جن سے مندر کا تعلق ہے، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے چھاپے مارے۔ بچوں کے حقوق کی تنظیم نے مندر سے وابستہ تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ان گھروں سے بچوں کو احتجاجی مقامات پر لے جایا گیا تھا۔
اس نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کو ’’بھاری فنڈز‘‘ ملے ہیں جو ’’مذہبی تبدیلی جیسی غیر قانونی سرگرمیوں‘‘ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔