کسان احتجاج: ’’ہم احتجاج کے حق کے خلاف نہیں ہیں لیکن کسان سڑکیں نہیں روک سکتے‘‘، سپریم کورٹ نے کسان یونینوں سے تین ہفتے میں جواب مانگا

نئی دہلی، اکتوبر 21: بار اینڈ بنچ کے مطابق سپریم کورٹ نے کسان یونینوں کو دہلی کی سرحدوں سے زرعی قانون مخالف مظاہرین کو ہٹانے کی درخواست پر جواب دینے کے لیے تین ہفتے کا وقت دیا ہے۔

جسٹس سنجے کول نے کہا کہ عدالت کسانوں کے احتجاج کے حق کے خلاف نہیں ہے ’’سڑکوں کو اس طرح بند نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر کوئی نہ کوئی حل ضرور تلاش کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ہزاروں کسان نومبر 2020 سے دہلی کی مختلف سرحدوں پر متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ یہ قوانین زرعی شعبے پر کارپوریٹ غلبے کا سبب بنیں گے۔

اس ناکہ بندی کے خلاف مونیکا اگروال نامی خاتون نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے اسے نوئیڈا سے کام کے لیے دہلی آنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

درخواست گزار نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے سڑکوں کی ناکہ بندی کو روکنے کے لیے مختلف ہدایات منظور کی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔

دریں اثنا کسانوں کے گروپس کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ دشینت دیو نے کہا کہ پولیس نے سڑکیں بند کی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا ’’یہ ان کے لیے اچھا ہے کہ وہ یہ لگنے دیں کہ کسان سڑک بلاک کر رہے ہیں۔ ہمیں رام لیلا میدان (احتجاج کے لیے) جانے دیں۔‘‘

دیو نے کہا کہ یہ معاملہ کسی اور بنچ کو منتقل کیا جائے۔ جسٹس سنجے کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے کہا کہ ہم سب سے پہلے اس معاملے کی شکلیں طے کریں گے اور اگر اسے کسی بڑے بنچ کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے تو کال کریں گے۔

سپریم کورٹ اب 7 اس دسمبر کو اس کیس کی سماعت کرے گی۔

ستمبر میں بھی ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے دہلی-قومی دارالحکومت کے علاقے میں شاہراہوں پر احتجاج کرنے والے کسانوں پر سوال کیا تھا۔

کول کی سربراہی میں بنچ نے کہا تھا کہ ’’ازالہ عدالتی فورم ایجی ٹیشن یا پارلیمانی مباحثوں کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن شاہراہوں کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور یہ دائمی نہیں ہو سکتا۔‘‘