زرعی قوانین: 26 مئی کو دہلی میں ’’یوم سیاہ‘‘ منانے کے لیے ہریانہ اور پنجاب سے کسانوں نے دہلی کا رخ کیا
نئی دہلی، مئی 24: نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے اتوار کو ہریانہ اور پنجاب کے مختلف حصوں سے قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر احتجاج کرنے والوں میں شامل ہونے کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق کسانوں نے 26 مئی کو ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منانے کا ارادہ کیا ہے جب قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے چھ ماہ مکمل ہوجائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اتوار کی صبح ہزاروں کسان کرنال سے دہلی روانہ ہوئے ہیں۔
کسانوں کی یونین بھارتیہ کسان یونین (چارونی) کے رہنما گرنام سنگھ چارونی نے ہریانہ کے کرنال میں کسانوں کے جلوس کی تصاویر ٹویٹ کیں۔ بھارتیہ کسان یونین ایکتا اُگرہن کے ٹویٹر ہینڈل سے پنجاب کے ضلع سنگرور کے کھنوری بارڈر سے ٹکری جاتے ہوئے مظاہرین کی تصاویر بھی پوسٹ کی گئیں۔
Under the leaderdhip of BKU Ekta Ugrahan, Thousands of farmers leaving from Khanauri Border in Chardi kala to join their fellows at Tikri Border,Delhi.#FarmersFightFascistModi #FarmersProtest pic.twitter.com/rKMKJ0v2IX
— BKU EKTA UGRAHAN (@Bkuektaugrahan) May 23, 2021
وہیں این ڈی ٹی وی کے مطابق ہریانہ کے ضلع ہسار میں پولیس نے سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے کیوں کہ کسانوں نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (ہسار رینج) کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس اقدام کا منصوبہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے 300 سے زائد کسانوں کے خلاف دائر فوجداری مقدمات کے خلاف احتجاج ظاہر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
کسان یونینوں کی جانب سے یہ نئے اقدامات اس کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں جب انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا اور زرعی قوانین پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا۔
مرکز اور کسانوں کے درمیان دسمبر کے بعد سے 11 مرتبہ بات چیت ہوئی ہے، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا ہے کیوں کہ کسان تینوں قوانین کی مکمل منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں جب کہ حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ 22 جنوری کو آخری مرتبہ بات چیت ہوئی تھی۔
جنوری میں حکومت نے زرعی قوانین کو 12-18 ماہ کے لیے معطل کرنے کی پیش کش کی تھی، جسے کسان یونینوں نے مسترد کردیا تھا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے اگلے احکامات تک قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی ہے اور اس تعطل کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں کسانوں کی یونینوں کی مشترکہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے مرکز کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’’ان کے صبر کا امتحان‘‘ نہ لے اور اس کے بجائے بات چیت کا آغاز کرے اور ان کے مطالبات کو قبول کرے۔