مرکز نے الزام لگایا کہ پنجاب میں کھیت مزدوروں کو نشہ دیا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے،کسان رہنماؤں نے اسے سازش قرار دیا

نئی دہلی، اپریل 3: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مرکز نے پنجاب حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں الزام لگایا ہے کہ اتر پردیش اور بہار سے آنے والے تارکین وطن مزدوروں کو ریاست میں کھیتوں میں غلام مزدور کی حیثیت سے ملازمت دی جارہی ہے اور انھیں منشیات دی جاتی ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔

یہ خط ایسے وقت میں آیا ہے جب کسان مہینوں سے مرکز کے تینوں زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کسانوں کا یہ احتجاج نریندر مودی کے لیے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سب سے بڑا چیلنج ہے، کیوں کہ انھیں اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ اتحادیوں سمیت ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔

وزارت نے 17 مارچ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ بارڈر سیکیورٹی فورس نے 2019 سے 2020 کے درمیان گرداس پور، امرتسر، فیروز پور اور ابوہر اضلاع سے ایسے 58 مزدوروں کو بازیاب کرایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق وزارت داخلہ نے کہا ہے ’’پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے بیش تر یا تو ذہنی طور پر معذدور یا کمزور دماغ میں تھے اور وہ پنجاب کے سرحدی دیہات میں کسانوں کے ساتھ غلامی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ گرفتار کیے گئے افراد کا تعلق پس ماندہ خاندانوں سے ہے اور وہ بہار اور اتر پردیش کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

مرکز نے الزام لگایا کہ ان مزدوروں کو اچھی تنخواہ کے وعدے پر انسانی اسمگلروں نے ہائر کیا تھا۔ وزارت داخلہ نے کہا ’’لیکن پنجاب پہنچنے کے بعد ان کا استحصال کیا جاتا ہے، ان کو ناقص تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘

وزارت نے مزید کہا کہ کھیتوں میں طویل عرصے تک کام کرنے کے لیے ان مزدوروں کو اکثر ایسی دوائیں دی جاتی ہیں، جو ان کی جسمانی اور ذہنی حالت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ بی ایس ایف بازیاب افراد کو مزید ضروری کارروائی کے لیے ریاستی پولیس کے حوالے کر رہا ہے۔

مرکز نے کہا کہ یہ معاملہ نہایت سنجیدہ ہے۔ وزارت داخلہ نے حکومت پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور ترجیحی طور پر اس سلسلے میں کی جانے والی کارروائی سے آگاہ کریں۔

دریں اثنا زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان رہنماؤں نے وزارت داخلہ کے اس خط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ریاست کے کسانوں کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی کے ممبر جگ موہن سنگھ نے پوچھا کہ مرکز نے پہلے بی ایس ایف کی خبروں پر کارروائی کیوں نہیں کی۔ انھوں نے کہا ’’ایم ایچ اے کے مطابق یہ سروے بی ایس ایف نے سنہ 2019 -2020 میں کیا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے اب تک اس رپورٹ پر خاموش رہ کر حکومت پنجاب کو صرف اس وقت لکھا جب کسانوں کا احتجاج عروج پر ہے۔‘‘

سنگھ نے الزام لگایا کہ حکومت کسانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد ایک اور ’’فرقہ وارانہ کارڈ‘‘ کھیل رہی ہے۔ انھوں نے مرکز سے اس خط کو واپس لینے کی اپیل کی۔

دی ٹریبیون کے مطابق بی جے پی کے سابق حلیف شیرومانی اکالی دل نے بھی اس خط کو ریاست کے کسانوں کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔

سابق ممبر پارلیمنٹ پریم سنگھ چندرومجرا نے کہا کہ وزارت داخلہ کا خط ملک بھر میں ایک غلط پیغام بھیجے گا اور ’’تصادم کی فضا پیدا کرے گا‘‘۔