فیضان احمد کی موت کا ذمہ دار کون ؟

آئی آئی ٹی کھڑگپور میں انجینئرنگ کے طالب علم کی پُراسرار موت اور انتظامیہ کی خاموشی!

شبانہ جاوید، کولکاتا

ایس آئی ٹی کو کلکتہ ہائی کورٹ کی پھٹکار۔ ثبوتوں اور گواہوں کو عدالت میں فوراً پیش کرنے کا حکم
فیضان احمد ایک ہونہار طالب علم تھا جس پر نہ صرف والدین رشک کرتے تھے بلکہ محلے والوں کو بھی اس سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ فیضان ہمیشہ ہی پڑھائی میں اول آتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی اس کی پرفامنس کافی اچھی تھی۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے مقابلہ جاتی امتحان میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسے ملک کے اہم اداروں میں سے ایک آئی آئی ٹی کھڑگپور میں داخلہ ملا تھا۔ آئی آئی ٹی کھڑگپور ایک ایسا ادارہ ہے جہاں تعلیم حاصل کرنا انجینئرنگ کے ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے۔ ہونہار طالب علموں کو ہی یہاں مقابلہ جاتی امتحانات کے بعد ہی داخلہ ملتا ہے۔ فیضان احمد نے بھی مقابلہ جاتی امتحان میں بہتر نمبرات حاصل کیے اور اسے پہلے ہی کوشش میں آئی آئی ٹی کھڑگپور میں میکانیکل انجینرنگ کے شعبے میں داخلہ مل گیا تھا۔  یہاں تعلیم حاصل کرنا فیضان احمد کے لیے بھی خوشی کی بات تھی، اس کا خواب تھا کہ وہ اپنی انجینئرنگ کی تعلیم اسی ادارے یعنی آئی آئی ٹی کھڑگپور سے حاصل کرے لیکن اسے یہ  نہیں معلوم تھا کہ اس ادارے میں اسے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینا پڑے  گا۔ انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کی جھولتی ہوئی لاش گزشتہ سال اس کے ہاسٹل کے کمرے سے ملی تھی۔ فیضان احمد کی موت کی خبر سن کر اس کے والدین حیران رہ گئے تھے،  کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کی امنگ رکھنے والا فیضان احمد اس طرح خاموشی سے موت کو گلے لگا لے گا۔ اس کے والدین جب ہاسٹل پہنچے اور انہوں نے ادارے سے اس بارے میں کچھ پوچھنا چاہا لیکن ادارے کی انتظامیہ بھی زیادہ کچھ کہنے سے قاصر تھی۔ اس کے والدین اپنے بیٹے کے انصاف کے لیے لگاتار آواز اٹھاتے رہے۔ فیضان اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس کی موت سے اس کے والدین ٹوٹ چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو انصاف ملے اور اس کے موت میں کون لوگ ملوث تھے یہ حقیقت دنیا کے سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے پر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہ ہونے پر فیضان کے والدین نے کلکتہ ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے بھی اس ہونہار طالب علم کی یوں موت پر حیرانی کا اظہار کیا۔ چنانچہ جج نے پہلی سماعت میں ہی پولیس کو اس معاملے پر لتاڑتے ہوئے خصوصی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت دی۔ کورٹ کے حکم کے بعد فیضان کی موت کی تحقیقات کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) بنائی گئی جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ (SIT) نے اپنی پہلی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ فیضان کی گردن میں بھاری چیز سے چوٹ کے گہرے نشان ملے ہیں جس کی نشان دہی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نہیں کی گئی تھی تاہم کلکتہ ہائی کورٹ نے ایک سماعت کے دوران حیرانی کا اظہار کیا کہ ایس آئی ٹی نے گہرے نشان ہونے کے دعوے کے باوجود اب تک کھڑگپور آئی آئی ٹی کے طلبا سے اس معاملے پر بات کیوں نہیں کی یا فیضان کے ساتھیوں کے ساتھ پوچھ تاچھ کیوں نہیں کی گئی؟ فیضان کے وہ ساتھی جو اس کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے تھے ان سے کسی بھی قسم کی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت نے آئی آئی ٹی کھڑگپور کے رویے کو بھی حیران کن بتایا ہے۔عدالت نے ہدایت دی ہے کہ ادارے کی انتظامیہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی ٹیم کا بھرپور تعاون کرے۔ بہرحال عدالت نے اس معاملے کی سنوائی کے لیے دسمبر میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے جس کے بعد باقاعدہ سماعت  شروع ہوگی۔
فیضان کی فیملی کے وکیل رنجیت چٹرجی نے عدالت کے کردار اور ایس آئی ٹی پر کی گئی پھٹکار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کی تحقیقات میں پیش رفت ہوگی اور سچائی دنیا کے سامنے آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیضان ایک ذہین طالب علم تھا وہ اس طرح اپنی زندگی کا خاتمہ نہیں کر سکتا اس کی بہتر کارکردگی پر آئی آئی ٹی کھڑگپور انتظامیہ نے بھی فخر کا اظہار کیا تھا، اور جب کہ وہ اپنی تعلیم کے تیسرے سال میں تھا اور اچھی پرفارمنس دے رہا تھا وہ موت کو کیسے گلے لگا سکتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کے فیضان کی موت کے بعد کئی گھنٹے تک اس کی لاش ہاسٹل کے کمرے میں ہی کیوں پڑی تھی؟
فیضان کے والدین اپنے ہونہار بیٹے کا غم بھلا نہیں پا رہے ہیں، وہ پوری طرح ٹوٹ چکے ہیں، وہ اپنے بیٹے کی خودکشی کے ذمہ داروں کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے تاکہ کسی دوسرے طالب علم کے ساتھ یہ نہ ہو۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی ممبر عظمیٰ عالم نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طالب علم کی موت ہو جاتی ہے اور انتظامیہ سچائی کو چھپا رہی ہے یعنی موت پر سیاست کی جا رہی ہے جو کہ افسوسناک پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی تنظیمیں بھی اس معاملے میں مرحوم فیضان کے والدین کی لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے سب سے مشہور و معروف تعلیمی ادارے میں پر پُراسرار طریقے سے ایک ہونہار طالب علم کی موت ہوجاتی ہے تو ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں طلبا کے تحفظ کا کیا حال ہوگا۔ اس میں ادارے کی انتظامیہ اور مقامی پولیس اہلکاروں کی غفلت اور سستی بھی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی خاموشی اور کئی واضح پہلوؤں کو سرے سے نظر انداز کر دینا یہ ایسے امور ہیں جو بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔
***

 

***

 فیضان احمد کی موت کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی ایس آئی ٹی کی پیش رفت پر کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنی  ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے سنوائی کے دوران صاف طور پر کہا کہ ایس آئی ٹی نے اس معاملے میں اس طرح تحقیقات نہیں کی ہے جس طرح کرنی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی ساتھ کورٹ نے ایس آئی ٹی کو جلد از جلد تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023