کابل کی مسجد میں دھماکہ، 30 نمازی ہلاک، متعدد زخمی

نئی دہلی، اگست 18: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نمازیوں سے بھری مسجد میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 30 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد نمازی زخمی ہو گئے۔

بین الاقوامی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بتایا کہ دھماکہ مسجد کے اندر رکھے گئے دھماکہ خیز مواد سے ہوا جس کے نتیجے میں 30 نمازی جاں بحق اور 40 دیگر زخمی ہوگئے۔

خیال رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پورے افغانستان میں بم دھماکوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں میں ایسے کئی حملوں، جس میں اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جن میں سے متعدد کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ ابھی تک کسی عسکری گروپ نے بدھ کی شام ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

کابل میں ایک ہسپتال چلانے والی اطالوی غیر سرکاری تنظیم ایمرجنسی نے ایک بیان میں بتایا کہ اس کے پاس دھماکے سے متاثرہ 27 افراد لائے گئے جن میں تین ہلاکتیں بھی شامل تھیں۔

تنظیم نے ایک ای میل کے ذریعے کہا کہ زیادہ تر مریض ‘شیل اور جلنے نیز دھماکے کی وجہ سے آنے والی چوٹوں سے زخمی ہوئے تھے’۔ بعد ازاں ایک ٹوئٹ میں ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ جن زخمیوں کا علاج کیا گیا ان میں 5 بچے بھی شامل تھے جس میں سے ایک کی عمر 7 سال تھی۔

بین الاقوامی میڈیا نے محکمہ دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی فہرست میں نامور مذہبی عالم دین امیر محمد کبالی بھی شامل ہیں۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے لیکن اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد گروپ (آئی ایس) کے عسکریت پسند پورے ملک  میں شہریوں اور پولیس پر حملے کرتے رہتے ہیں۔

دو ہفتے قبل کابل میں ہونے والے دو مہلک دھماکوں میں دس افراد ہلاک اور چالیس دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

یہ دھماکہ طالبان کے سرکردہ رہنما رحیم اللہ حقانی پر حملے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ہوا، جو کابل میں اپنے مدرسے میں اپنے بھائی کے ساتھ ہلاک کر دیے گئے تھے۔رحیم اللہ حقانی داعش کے خلاف سخت تقاریر کے لیے معروف تھے، جس نے بعد میں ان پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ یہ عسکری گروپ بنیادی طور پر اقلیتی برادریوں جیسے اہل تشیع، صوفیوں اور سکھوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔

تاہم ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ سخت گیر گروپ طالبان کے لیے اب بھی ایک اہم سیکیورٹی چیلنج بنا ہوا ہے، حالانکہ داعش، طالبان کی طرح ہی ایک سنی گروپ ہے لیکن دونوں سخت حریف ہیں اور نظریاتی بنیادوں پر بہت مختلف ہیں۔

کابل میں یہ دھماکہ ایسے وقت ہوا جب جمعرات کو طالبان کے سینئر رہنما جنوبی شہر قندھار میں 2 ہزار سے زائد مذہبی علماء اور عمائدین کے ایک بڑے اجتماع کی قیادت کرنے والے ہیں، جو تحریک کی اصل طاقت کا گڑھ ہے۔ میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس ‘کانفرنس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے’۔