الیکشن کمیشن الیکٹورل بانڈز کے عطیات کا ریکارڈ برقرار رکھے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، نومبر 1: سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا تمام سیاسی عطیہ دہندگان اور الیکٹورل بانڈز کے ذریعے عطیات کا تازہ ترین ریکارڈ رکھنے کا پابند ہے۔
انتخابی بانڈز ایسے مالیاتی آلات ہیں جنھیں شہری یا کارپوریٹ گروپ بینک سے خرید سکتے ہیں اور کسی سیاسی جماعت کو دے سکتے ہیں، جو پھر انھیں چھڑانے کے لیے آزاد ہے۔
یہ پورا عمل گمنام ہے کیوں کہ کسی کو بھی ان سود سے پاک بانڈز کی خریداری کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں کو ان سے حاصل رقم کا ذریعہ ظاہر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے جنوری 2018 میں اس اسکیم کو متعارف کرایا تھا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گوائی، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل پانچ ججوں کی بنچ منگل کو سیاسی جماعتوں کو عطیات کے اس اہم ذریعہ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی ایک بیچ کی سماعت کر رہی تھی۔
بنچ نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ وہ انتخابی بانڈز کے ذریعے سیاسی فنڈنگ کی تفصیلات کو دیکھنے کے لیے تیار رہے۔ تاہم پولنگ پینل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس صرف 2019 تک کا ڈیٹا ہے۔
ججز نے پوچھا ’’صرف 2019 تک کیوں؟ یہ ایک مسلسل مینڈیمس تھا۔ یہ ایک عبوری حکم تھا اور اسے حتمی حکم تک جاری رہنا تھا۔ آپ کو آج تک اس طرح کا ڈیٹا رکھنا تھا۔‘‘
ججز 12 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں تمام فریقوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس سال 30 مئی تک الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بانڈز کے ذریعے ملنے والے عطیات کے بارے میں معلومات جمع کرائیں، جس میں عطیہ دہندگان کی شناخت، وصول کی گئی رقم، ادائیگیوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شامل ہوں۔
یہ ایک عبوری اقدام تھا اس وقت تک کے لیے، جب تک کہ انتخابی بانڈز کی درستگی کو چیلنج کرنے والی زیر التواء درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ امت شرما سے پوچھا کہ کیا ان کی سمجھ میں یہ آیا تھا کہ اس طرح کی معلومات اکٹھا کرنے کو 30 مئی 2019 تک محدود رکھا جائے۔ شرما نے ججوں سے کہا کہ وہ پول پینل سے اس بارے میں بات کریں گے پھر جواب دیں گے۔
وہیں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے منگل کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ عطیہ دہندگان کی سیاسی وابستگیوں کے تحفظ کے لیے انتخابی بانڈز کو گمنام رکھا جاتا ہے کیوں کہ یہ ان کی نجی زندگی کا حصہ ہے۔
مرکز نے کہا کہ یہ جاننے کا حق کہ سیاسی جماعتوں کو کس طرح مالی امداد دی جاتی ہے، کسی شخص کی سیاسی وابستگیوں سے متعلق رازداری کے حق کے خلاف متوازن ہونا چاہیے۔ مہتا نے سپریم کورٹ میں ایک تحریری عرضی میں کہا ’’کوئی بھی حق مطلق نہیں ہو سکتا۔‘‘
مہتا نے کہا کہ عطیہ دہندگان کے نام ظاہر کرنے سے یہ اسکیم غیر موثر ہو سکتی ہے اور یہ ممکنہ طور پر نقد پر مبنی سیاسی فنڈنگ کی طرف واپسی کا باعث بن سکتی ہے۔
پیر کو سماعت کے پہلے دن کے دوران عدالت نے انتخابی بانڈز سے متعلق لین دین پر کنٹرول کے فقدان اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ حمایت کرنے والے بااثر اداروں پر اس کے اثرات کو بھی نشان زد کیا تھا۔