ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

مسلمانوں کے مابین اتحاد واتفاق وقت کی سب سے بڑی ضرورت

ولی اللہ سعیدی فلاحی

خاندان و قبیلے صرف باہمی پہچان کے لیے ہیں ورنہ اللہ کے نزدیک مقام و مرتبہ متقیوں کا ہے
یہ اللہ رب العزت کا کرم اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ہم سب کو ایک ایسا دین عنایت کیا یعنی دین اسلام جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ دین زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کے مکمل ہونے کا اعلان میدان عرفات میں رسول اللہ (ﷺ) کی زبانی کیا گیا۔ یہ دین چونکہ بنی نوع انسان کو سلیقہ زندگی سکھاتا ہے، اس لیے اس کا استحضار ہمہ دم لازمی و ضروری ہے اور اس کی تذکیر ہوتی رہنی چاہیے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کسی شئے کا تذکرہ کم ہوتا ہے تو وہ بتدریج نظروں سے اوجھل ہونے لگتی ہے۔ ہمیں اپنے دین و شرعی احکام کو کبھی بھی اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے اور اس کی تذکیر جاری رہنی چاہیے۔ یہ دین ہمیں طریقہ زندگی سکھاتا ہے، اس لیے اس کا اعادہ ہوتے رہنا چاہیے تاکہ اس کا استحضار برقرار رہے۔ یاد رکھیں مسلمان ہونا کسی مسلم قوم میں پیدا ہوجانے کا نام نہیں ہے، نہ ہی کسی خاص رنگ، کسی خاص طبقے، کسی خاص علاقے میں بسنے کا نام ہے۔ جب نبی (ﷺ) نے دین اسلام پیش کیا تو ان کے مخاطب کالے، گورے، عرب و عجم، غلام و آقا سبھی تھے۔ جس نے نبی کی بات مان لی، وہ مسلمان ہوا اور جس نے انکار کیا وہ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوا۔یہاں تک کہ نبی (ﷺ) کے گھر کا کوئی ممبر ان کی بات ماننے سے انکار کیا تو اسے بھی مسلمان تسلیم نہیں کیا گیا۔ رنگ، ذات، قبیلے یا خطے کی بنیاد پر کوئی مسلمان نہیں ہوتا، مسلمان کوئی قومیت نہیں ہے بلکہ اسلام ایک ٹائٹل ہے۔ جب کوئی یہ عہد کرتاہے کہ میرے مالک، دنیا میں وہی ہوگا جو تو چاہتا ہے اور میں عہد کرتا ہوں کہ میری زندگی میں وہی ہوگا جو تو فرماتا ہے اور تیرے نبی جس کی تعلیم دیتے ہیں وہ حق ہے تو وہ اسلامی ٹائٹل میں شامل ہو جاتا ہے۔
عرب کے لوگ قبل از بعثت مشرک و کافر تھے، مختلف عصبیتوں میں گرفتار تھے لیکن نبی (ﷺ) نے ان عصبیتوں کے خلاف آواز بلند کی اور کہا کہ سارے انسان برابر ہیں، سب ایک ماں اور باپ سے پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ”اے لوگو! میں نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ پھر قبائل و جماعتوں میں تقسیم کیا تاکہ تم پہنچانے جا سکو۔ لیکن یہ وجہ امتیاز، نہیں ہے۔ وجہ امتیاز یہ ہے کہ تم اللہ کے نزدیک زیادہ تقویٰ والے بنو“۔ جو لوگ اللہ کے رسول (ﷺ) پر ایمان لائے، ان کا نام ’مسلمین کی اجتماعیت‘ رکھا گیا۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کی بات ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا۔ یہ نام عمل، کردار اور اخلاق کی بنیاد پر رکھا گیا۔ ورنہ رسول اکرم (ﷺ) کا چچا جنت میں جانے کا زیادہ مستحق تھا۔ اس کی رگوں میں وہی خون تھا جو خون نبی اکرم (ﷺ) کی رگوں میں دوڑ رہا تھا مگر وہ ایمان نہیں لایا اور اس اجتماعیت سے الگ رہا۔ یہ بات بنی اسرائیل کو بھی بتائی گئی کہ لوگو! تمہارے دادا اور پردادا نبی تھے، اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔ اگر تم خود وفادار ہوگے تو ہماری رحمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں گی۔ فرمایا ”اے بنی اسرائیل تم میری نعمتوں کو یاد کرو، تم مجھ سے کیا گیا وعدہ پورا کرو تو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو“۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہؓ سے کہا کہ ”اے پھوپھی جان آپ کا بھتیجا نبی ہے، اس وجہ سے آپ جنت میں چلی جائیں، ایسا نہیں ہے“۔ بیٹی سے فرمایا ”اے میری بیٹی فاطمہ محنت و مجاہدہ کرو، تم باپ کے پیغمبر ہونے کی وجہ سے جنت میں نہیں جاؤگی، تمہیں محنت کرنی پڑے گی“۔ ہم مسلمان ہیں اس وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے، ایسا نہیں ہے، ہمارے اعمال بھی مسلمانوں جیسے ہونے چاہئیں۔ مسلمان ہونے کا ہمارا یہ ٹائٹل اعمال کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔
آج یہ مان لیا گیا ہے کہ جو مسلم خاندان میں پیدا ہوگا، وہ مسلمان ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ صرف مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانے سے کوئی جنت میں نہیں چلا جائے گا اور نہ ہی کوئی کافر گھرانے میں پیدا ہونے کے سبب جنت سے محروم ہو گا، یہ انصاف کی بات  نہیں ہے۔ حق تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے عقیدے اور اعمال کی بنیاد پر ہی جنت یا جہنم میں جائے گا۔ یہ جو ہماری اجتماعیت ہے، اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی اجتماعیت ہے جس کی بنیاد قرآن و حدیث ہے، جس کی بنیاد حق وصداقت ہے اور حق و باطل کی کشمکش میں حق کا ساتھ دینا اس کی بنیاد ہے، اس کی بنیاد اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے غلبے کی فکر اور جہد مسلسل پر قائم رہنا ہے۔ صرف نام رکھ لینے یا مسلم گھرانے میں پیدا ہو جانے سے حقیقی مسلمان کا شرف نہیں مل جاتا۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ تمہاری جو اجتماعیت ہے، اس اجتماعیت کی بنیاد اللہ اور اس کا رسول ہے۔ اس اجتماعیت میں اتحاد ہو اور تمہاری یہ اجتماعیت مضبوط و مستحکم ہو۔ قرآن میں فرمایا گیا ’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ آپس میں انتشار کے شکار نہ بنو‘۔  یہاں بقول مفسرین رسی سے مراد اللہ کی کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھو، اس کے احکام کو سمجھو اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارو۔ اس مقدس کتاب یعنی قرآن میں اللہ کے بندوں کی خصلتیں بتائی گئی ہیں اور متحد رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم ایک جماعت ہو۔ اس جماعت کا حصہ وہ سب ہیں جو نبی پر ایمان لائے، چاہے وہ کسی بھی ملک و قوم، رنگ و نسل، طبقے یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس جماعت میں جب تک ایمان کا غلبہ تھا۔ اجتماعیت تھی تو ان کی چھوٹی سے چھوٹی جماعت بھی بڑی بڑی  جماعتوں پر غالب آتی چلی گئی جس کے نتیجے میں جو اقلیت میں تھے، وہ اکثریت میں بدل گئے۔ جب اجتماعیت کمزور ہوئی تو ان کی طاقت کمزور پڑنے لگی اور ان کا شیرازہ بکھر گیا۔
جس نے نبی کی باتوں کو تسلیم نہیں کیا، چاہے ان کا چچا ابو لہب ہی کیوں نہ ہو، جہنم کا مستحق ہوا۔ اس کا مال و دبدبہ اسے ہلاکت سے بچا نہ سکا۔ سورہ لہب میں اس کی پوری وضاحت موجود ہے۔ لیکن وہیں پر ایک شخص جس کی زبان نبی سے نہیں ملتی، اس کا خطہ بھی الگ ہے، اس کا رنگ و روپ بھی جدا ہے، اس کے وجود کے ساتھ غلامی کا لیبل چسپاں ہے، مگر رتبہ ایسا کہ معراج کی شب نبی (ﷺ) اپنے آگے اس کے قدموں کی آہٹ سنتے ہیں۔ یہ حضرت بلالؓ ہیں جنہوں نے نبی کے پیغام کو سنا، ان پر ایمان لائے تو رتبہ یہ ملا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر اصحاب بھی انہیں سیدنا کہہ کر خطاب کرتے تھے۔ یہ اجتماعیت کا کمال تھا۔ آج ہماری جو یہ اجتماعیت ہے، ہم سب ایک خدا اور ایک رسول کو ماننے والے ہیں۔ ہماری شریعت ایک ہے اور اس ملک میں ہمارے مسائل بھی یکساں ہیں۔ مثلاً بھارت میں وجود و بقاء کا مسئلہ ہم سب کا مشترک ہے،  شعائر اسلام کی حفاظت مشترک ہے۔ اگر باہمی کچھ اختلافات ہیں تو اسے نظر انداز کرنا ہوگا۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے اوس و خزرج کی عداوت کو محبت میں بدل دیا، انصارو مہاجر کے درمیان مثالی اخوت قائم کردی۔ ان میں ایسی محبت پیدا ہوئی کہ ایک دوسرے کے بغیر قرار نہیں ملتا۔ اسلام مسلمانوں سے ایسی ہی اجتماعیت اور ایسی ہی محبت کا طلب گار ہے۔ جب ایسی محبت ہوتی ہے تو اللہ کی تائید و نصرت آتی ہے۔ قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ’تم سب ایک ہی امت ہو اور میں تم سب کا رب ہوں، تم میری ہی عبادت کرو‘۔ عبادت اور بندگی میں کوئی مسلکی اور نظریاتی تعصب نہیں ہونا چاہیے۔ ایک جگہ فرمایا گیا، تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ جب ایک شخص کلمہ توحید پڑھ کر دین کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے تو مومنین سے اس کا رشتہ، خونی رشتے پر بھاری ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلام کی خاطر لوگوں نے اپنے باپ، بھائی اور بیوی و بچوں کو ٹھکرایا اور اپنے سارے خاندان کو چھوڑ دیا۔
ہمارا یہ دین ایک انقلابی اور تحریکی دین ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے باہمی تعلقات حب الٰہی پر قائم ہونا چاہیے اور بغض بھی ہو تو وہ صرف اللہ کی خاطر ہی ہونا چاہیے، یہی اصل دین ہے۔ جب معاملہ حق و باطل کا آجائے تو آدمی حق کے ساتھ کھڑا ہو، چاہے بات اس کے بیٹے اور رشتہ داروں کے خلاف ہی جائے۔ یہ صفت ہمارے اندر ہونی چاہیے۔ ہم کسی کو کمتر یا دوسروں سے خود کو برتر نہ سمجھیں، امت مسلمہ کا ہر فرد معزز ہے، حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ ”تمہارے اندر رنگ و نسل اور علاقے کی بنیاد پر کوئی عصبیت نہیں ہونی چاہیے“۔ یاد رکھیں، اللہ کی نصرت اور اس کی تائید جماعت پر ہوتی ہے۔ مل جل کر رہنے میں اس کی نصرت ہے، انتشار میں نہیں۔ عزت اجتماعیت میں ہے، افتراق میں نہیں۔ آج مسلمانوں میں اجتماعیت نہیں ہے تو ذلت و خواری کا سامنا ہے۔ جس دن ہم نے اسلام کو صحیح طور پر اپنا لیا اور اجتماعیت کو مضبوط کرلیا تو پھر ہمارے خلاف کوئی سازش کرنے کی نہیں سوچ سکتا۔ ہمارے درمیان کوئی مسئلہ ہے تو آپس میں بیٹھ کر حل کرنا چاہیے کہ شیطانوں کو ہمارے اندر دراڑ پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ قرآن و سنت ہمارے پاس ہے۔ ہمیں مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کا ہی سہارا لینا چاہیے ورنہ ہم بکھر جائیں گے۔
***

 

***

 یاد رکھیں، اللہ کی نصرت اور اس کی تائید جماعت پر ہوتی ہے۔ مل جل کر رہنے میں اس کی نصرت ہے، انتشار میں نہیں۔ عزت اجتماعیت میں ہے، افتراق میں نہیں۔ آج مسلمانوں میں اجتماعیت نہیں ہے تو ذلت و خواری کا سامنا ہے۔ جس دن ہم نے اسلام کو صحیح طور پر اپنا لیا اور اجتماعیت کو مضبوط کرلیا تو پھر ہمارے خلاف کوئی سازش کرنے کی نہیں سوچ سکتا۔ ہمارے درمیان کوئی مسئلہ ہے تو آپس میں بیٹھ کر حل کرنا چاہیے کہ شیطانوں کو ہمارے اندر دراڑ پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ قرآن و سنت ہمارے پاس ہے۔ ہمیں مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کا ہی سہارا لینا چاہیے ورنہ ہم بکھر جائیں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023