عید : انفرادیت سے رفاہ عامہ تک

خوشی و مسرت کے ساتھ مستحقین تک ان کا حق پہنچانےکا دن

مجتبیٰ فاروق، حیدر آباد

ہر مذہب کی ماننے والوں کا اپنا کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا ہے۔عیسائیوں کا کرسمس ڈے، ہندوں کی ہولی و دیوالی اور پارسیوں کے ہاں نوروز کا تہوار ہے۔اسلام کی آمد سے پہلے عربوں کا تہوار ’یوم السبع ‘کہلاتا تھا ۔یہودیوں کی سب سے بڑی عید ’عید الخطاب‘ ہے ۔عیسائی رومن کیتھولک کے ہاں زیتونیہ کا تہوار روزوں کے ساتویں دن منایا جاتا ہے ۔ ان تہواروں میں کھیل کود ، عیش و عشرت ، فن کاری اور کھانے پینے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ان تہواروں میں متنوع تہذیبی علامات اور جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔اسلام نے عید کوایک بامقصد تہوار قرار دیا ہے ۔اسلامی تہذیب میں عید ،کھیل کود،نئے کپڑے پہننے ، زرق برق کے لباس خریدنے،مرغن کھانوں اور گھروں کی آرائش و زیبائش کا نام نہیں ہے یہ کام اگر چہ حرام یا ممنوع نہیں ہے لیکن یہ سب اعتدال میں ہونا چاہیے ۔اسلام نے فضول خرچی کرنے والوں کو سخت ناپسند کیا ہے اور ان کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے اور اس پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ عید اگرچہ فرط و انبساط اور خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے لیکن اسلام نے اس کو احکام الٰہی اور عبادات سے جوڑا ہے ۔اسلام نے مسلمانوں کے لیے دو ایسے دن مقرر کیے ہیں جو خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ عبادات سے بھی مزین ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے ان میں کھیل کود اور مختلف انداز سے خوشی کا اظہار کرتے تھے، تو اللہ کے رسول ﷺ نے دریافت کیا کہ ان دو تہواروں کی کیا حقیقت ہے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے ۔اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مہیا کر دیے ہیں ،عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ (ابوداؤد)
عید احتساب کرنے کا دن
عید اگرچہ خوشی و مسرت کا دن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے آپ کا جائزہ لینے کا بھی دن ہے ۔ایک مسلمان کو حساس طبعیت کا مالک ہونا چاہیے اور اس کو اس بات پر نہیں اترانا چاہیے کہ مکمل تیس روزہ رکھنے کے بعد میں نے تیر مار لیا ہے ۔ماہ رمضان میں جس طرح ایک مسلمان نے اللہ سے مضبوط تعلق پیدا کیا ہے اس تعلق کو عید کے بعد بھی برقرار رکھنا چاہیے ۔ عید کے دن اس بات کا جائزہ لینا چائیے کہ کہیں مجھ سے کوتاہیاں تو نہیں ہوئیں؟ اور اگر ہوئیں تو ان پر نادم ہوکر تعلق باللہ کو مضبوط کرنا چاہیے ۔اس تعلق سے ہمارے لیے حضرت عمرؓ ابن الخطاب کا یہ واقعہ عبرت کے لیے کافی ہے کہ جب عید آتی تو آپ زار و قطار روتے ۔ پوچھاجاتا کہ آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں آج تو عید ہے یہ مسرت شادمانی اور خوشی منانے کا دن ہے؟ یہ سن کر خلیفہ دوم فرماتے یہ خوشی کا دن بھی ہے اور خوف کا بھی دن ۔
خوشی ومسرت اس کے لیے جس کے روزے قبول ہوئے اور جس سے اللہ راضی ہوا ۔اور جس س اللہ راضی نہ ہوا اس کے لیے یہ عید اللہ سے ڈرنے کا دن ہے۔ اس کے بعد فرمایا اور میں نہیں جانتا ہوں کہ کہ میں مقبولوں میں سے ہوں یا غیر مقبولوں میں سے، اسی لیے رو رہا ہوں کہ نہ جانے اللہ تعالیٰ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک کرے ۔
اسی طرح سے ایک مرتبہ لوگ حضرت علیؓ کو عید کے مبارک باددینے کے لیے وفد کی شکل میں گئے تو انہوں نے دیکھا حضرت علیؓ خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرما رہے تھے تو لوگ حیرت میں پڑ گئے اور پوچھا کہ اے امیر المؤمنین آج تو عید کا دن ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں ایسے بہت سے اللہ کے بندے ہوں گے جنہیں یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں ہیں ۔تو ہمیں دھوم دھام سے عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘‘ ۔ یہ دونوں واقعات ہمارے لیے عبرت پڑنے اور اور غور و فکر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
عید اوررفاہ عامہ کا تصور :
آج کے مادی ترقی اور سائنس و ٹکنالوجی کے دور میں رفاہ عامہ اور سماج کی خدمت کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اسلام اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جائے تو خدمت کرنے کی ترغیب خوب ملتی ہے ۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں رفاہ عامہ کے حوالے سے بہت مثالیں ملتی ہیں ۔ اسلام میں نیکی اور رفاہ عامہ کا تصور بہت وسیع ہے ۔ یہ صرف چند عقائد یا عبادات تک محدود نہیں ہے ۔ اس میں پسماندہ طبقات کے حقوق کی ادائیگی کی پر زور تلقین کی گئی ہے ۔خدمت خلق کادائرہ کار اپنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سب تک پھیلاہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اللہ ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنادل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ،نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے‘‘۔(البقرہ:177)
عیدکے دن دو کام کافی اہمت کی حامل ہیں ،ایک مستحقین کو صدقہ فطر دیا جائے گا ،دوسری اجتماعی طور دو رکعت نماز ادا کی جائے گی ۔اس طرح اس عید کو رفاہی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ اسلام نے عید الفطر کو شکرانہ کے طور دو رکعت نماز اور نادار اور غریب لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے مخصوص کیا ہے ۔دور نبوت میں عید کا چاند دیکھ کر سب سے پہلا کام جو آپ اور صحابہ کرام کرتے تھے وہ صدقہ فطر کی ادائیگی ہوتی تھی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عید خوشی و مسرت اور عبادات کا ہی دن نہیں بلکہ مستحقین کا حق ان تک پہنچانا بھی ضروری ہے ۔ اسلام کا یہ پہلو مابہ الامتیاز ہے کہ اس نے نہ صرف فرد کو بلکہ ریاست کو بھی عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا پابند بنایا ہے اور حکمرانوں کو مسئول بنایا ہے کہ وہ رعایا کی ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔اسلام نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کی غیر معمولی اہمیت دی ہے ۔اسلام میں معاشرتی فلاح و بہبود کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود یہ مذہب خود پرانا ہے۔یہاں رفاہی عامہ کا تصور ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی ہوا ہے اور مسلمان مادی منفعتوں سے بالا تر ہوکر ہر دور میں سماجی ومعاشرتی بہبود کی خاطر مسلسل مصروف عمل رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔مسلمانوں میں سے ہر کوئی حاجت مند اور محتاج افراد کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری کتاب و سنت کے عائد کردہ احکامات کے مطابق محسوس کرتا ہے ۔عید جیسی تقریب بھی ایک مسلمان کو یہی احساس دلاتی ہے ۔ اس تعلق سے اللہ کے رسولﷺ کا یہ طرز عمل ذہنوں میں مستحضر رکھیے کہ جب رسول اللہ ﷺ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے بچے کھیل رہے ہیں لیکن ان میں سے ایک بچہ رو رہا تھا اور اس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے ۔آپ نے اس بچے کے سر پر دست مبارک رکھا اور اس سے پوچھا کہ بیٹا کیا بات ہے تو کیوں رو رہا ہے؟تو اس بچے نے جواب دیا کہ میں یتیم ہوں اور میرا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور میری ماں نے دوسرا نکاح کرلیا اور میرے سوتیلے باپ نے میرا سارا مال کھا لیا ہے۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔آپ نے اس یتیم بچے کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا کہ کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ آج سے میں تیرا باپ ، عائشہ تیری ماں ، فاطمہ تیری بہن ، علی تیرا چاچا اور حسن و حسین تیرے تیرے بھائی ہوں؟ اس پر بچے نے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں اس بات پر کیوں راضی نہیں ہوں یہ تو میری نیک بختی ہے ۔اس کے بعد آپ ﷺ کو اس بچے کو گھر لے آئے اور حضرت عائشہ سے کہا کہ وہ اس بچے کو نہلائیں نئے کپڑے پہنائیں اور اچھا کھانا کھلائیں۔ اس طرح آپ نے ایک یتیم اور روتے ہوئے بچے کو عید کی خوشی میں شامل فرمایا ‏۔ یہ بچہ آپ کے آخر وقت تک زیر کفالت رہا ۔
عید اور مابعد عید
دین کی نظر میں مطلوب انسان کا ایک معیار ہوتا ہے اور مطلوبہ معیار پر اترنے کے لیے اسلام فرد کو تزکیہ نفس و تربیت کے مراحل سے گزارتا ہے ۔ عید کو ہر مسلمان ایک تربیت یافتہ فرد کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے بشرطیکہ اس نے تربیت پائی ہو۔ اب اس تربیت یافتہ انسان سے آگے کی زندگی میں احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اسے اللہ کی نافرمانی اور روگردانی کا شکار ہونا چاہیے۔ تربیتی مرحلہ سے گزرنے کے بعد انسان میں ایک خاص کیفیت پیداہوجاتی ہے جس کو ہم ایمانی کیفیت کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ ایمانی کیفیت انسان کے دل و دماغ سے تعلق رکھتی ہے اور ان دونوں میں ایک خاص تبدیلی لاتی ہے ۔ اسی تبدیلی کے لیے اللہ تعالی انسان کو تربیت کے مراحل سے گزارتا ہے ۔ ایمانی کیفیت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے بندہ کو ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔ جب بھی یہ تعلق ضعف کا شکار ہوجائے تو فورا مالک حقیقی کو پکارنا چاہیے۔ اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں محفوظ رکھا ہے:اور جب میرے بندے تم سے میرے بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں ،پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے تو چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔(البقرہ:186)
رمضان فرد اور سماج میں اچھے محاسن پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ محاسن اور صفات اگر فرد میں پیدا نہ ہوں تو اس کے روزے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔روزوں کی مقصدیت تقوی سے مشروط ہے اور اگر فرد میں تقوی کا رنگ اور اس کے اثرات نمایاں نہ ہوں تو حقیقی معنوں میں روزوں کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا طرز عمل بھی ان ہی جیسا ہوجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :
چورخت خویش بربستم ازیںخاک ہمہ گفتند بامن آشنا بود
ولیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت وباکہ گفت وازکجابود
جب میں اس دنیا سے رخصت ہونے لگا تو سب نے انتہائی محبت اور اپنائیت کے ساتھ کہا کہ مجھے اس سے قلبی لگاؤ تھا اور یہ مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھا لیکن حقیقت کوئی نہیں جان سکا کہ یہ مہمان کہاں سے آیا تھا اور کس لیے آیا تھا، اس نے کیا کہا اور کس سے کہا؟
عید کو یوم الجائزہ بھی کہا گیا ہے ،کیوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے ۔یہ انعام و اکرام درحقیقت ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے روزوں کے تقاضے بھی پورے کیے ہوں اور ماہ رمضان کا بھر پور احترام بھی کیا ہو۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 دین کی نظر میں مطلوب انسان کا ایک معیار ہوتا ہے اور مطلوبہ معیار پر اترنے کے لیے اسلام فرد کو تزکیہ نفس و تربیت کے مراحل سے گزارتا ہے ۔ عید کو ہر مسلمان ایک تربیت یافتہ فرد کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے بشرطیکہ اس نے تربیت پائی ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023