اداریہ

’خلیج اسلام ‘سے خوش خبری ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں!

برسوں کے بعد غربِ ایشیا کی دو بڑی مسلم طاقتوں کے مابین سفارتی تعلقات کو از سر نو معمول پر لانے کے اعلان کو بادِ صبا کے ایک فرحت بخش جھونکے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بروز جمعہ بتاریخ دس مارچ کو عراق اور عمان کی کوششوں کے علاوہ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے مابین معاہدے پر امریکہ، فرانس اور اردن سمیت کئی مغربی ایشیائی ممالک نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے لیکن بھارت کی جانب سے اس اہم عالمی پیش رفت پر تین چار دنوں تک کسی طرح کا رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ کیا عالمی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھارت کی پالیسی اس خاموشی کی متحمل ہو سکتی ہے؟ اس سے قبل بھی افغانستان سے امریکی افواج کے اچانک انخلا کے وقت اور ما بعد بھارت کا رول بہت ہی محدود رہا۔ اگرچہ روس اور یوکرین کے بیچ تال میل کی کوشش تو ہوئی اور آج کل ہم جی۔20 کو لے کر فخر بھی جتا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کے جارحانہ رویے پر حکمراں ٹولیاں سوشل میڈیا پر مسلسل تالیاں بجا رہی ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہم اس اہم معاہدے کے وقت ہم بغلیں جھانکتے رہ گئے؟ ایران سے ہمارے تاریخی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہیں لیکن سعودی عرب کے ساتھ گرم جوشانہ تعلقات کے تقاضے کے تحت بھارت کو اپنا موقف ظاہر کرنے میں اتنی تاخیر ہو رہی ہے تو کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ خلیجِ فارس جسے ایرانی قائدین نے کبھی ‘خلیجِ اسلام‘ سے بھی تعبیر کیا تھا، مسلم مملکتوں کی قربت سے اندیشوں میں گرفتار ہے یا یہ کہ اس معاہدے کے پس پشت ہمارے حریف پڑوسی چین کے ہونے سے ہمیں کوئی تشویش لاحق ہو گئی ہے؟ بہر حال سعودی عرب اور ایران دونوں ہی ممالک عملا بھارت کے دوست ممالک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اب جبکہ ایک طویل مذاکراتی مرحلے کے بعد اس طرح کا ایک دور رس اثرات رکھنے والا معاہدہ طے پایا ہے تو ہمیں نہ صرف یہ کہ خود کو ’فوٹو آپ‘ اور اندرونی ووٹ بنک کی خوشنودی والی خارجہ پالیسی سے باہر نکل آنے کی ضرورت ہے بلکہ اس میں طویل مدتی ملکی مفادات کے تحفظ کی خاطر اسلاموفوبیا، تعصب اور جانب داری سے پاک پالیسی پر چلنے کی بھی دعوت ہے۔
ممکن ہے کہ ایران کو عالمی سطح پر یکا و تنہا کر دیے جانے کے بعد اسے کسی مضبوط حلیف کی ضرورت رہی ہوگی جس کی تلاش یہاں آکر ٹھہر گئی ہو! نیز، سعودی عرب کا ’’رُویَۃ 2030’‘ منصوبہ مملکت کو تیل کی معیشت سے باہر نکال کر تجارت اور سیاحت تک لے جانے کی چاہت میں جاری ہے لیکن چین کی اس کوشش کی ہمیں بھنک نہ لگنا ہمارے ’وِشوَ گرو‘ بننے کے خوابوں کی تکمیل میں بڑا روڑا بن سکتا ہے۔
متوقع طور پر اسرائیل نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے جمہوریت کو ختم کرنے کی کوششوں کے الزامات اور اقدامات کے بیچ دو لاکھ احتجاجیوں کا سڑکوں پر اترنا جہاں اس کے لیے سر درد بنا ہوا ہے وہیں اس معاہدے کے سے اسرائیل کی تشویش بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کے پالیسی سازوں نے اسے ’خطرناک اور ایران کی فتح‘ تک کہہ ڈالا۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کو علاقائی استحکام کے حصول میں معاون قرار دیا ہے جو ایک نئے مثبت مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
خبر ہے کہ جلد ہی نومنتخب چینی صدر شی جن پنگ پوتن سے ملنے کے لیے روس کا دورہ کرنے والے ہیں۔ روس کی جانب چین کے تئیں مزید کچھ اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اگر بھارت بھی اپنے ہمسایوں اور خطے کی جانب توجہ مرکوز کرے اور اندرونی سلامتی، جمہوریت کی برقراری اور تجارت کے لیے سازگار ماحول کے ساتھ ساتھ اپنی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عالمی پالیسی کی سابقہ روش پر چلنا شروع کرے تو اس کا بہت کچھ اثر عالمی سیاست پر پڑ سکتا ہے۔
اس معاہدے کے ذریعے سے چین کی جارحانہ عالمی سیاست میں اپنا رول بڑھانے کی خواہشیں اور امنگیں واضح ہیں لیکن دوسری جانب خلیجی ممالک بھی اپنے مفادات دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب اور ایران کو استقامت دکھانے اور دیرپا امن کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے جس کا سب سے پہلا فائدہ یمن میں امن کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی امریکہ سے پرے ایشیائی ممالک کے درمیان اپنے کردار کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ کواڈ اور ابراہیمی معاہدہ کا کارڈ کھیل کر امریکہ نے عالمی سیاست میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ چین کی اس ثالثی کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دیگر ممالک بھی اس سے کسی نہ کسی حیثیت میں متاثر ہوں گے۔ عالم اسلام اس سے یہ سبق ضرور لے سکتا ہے کہ ہر قیمت پر مسلم ملکوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اعتماد کی فضا پیدا ہو اور ملی اور دینی تشخص کو بچانے میں عالمی سفارت کاری کا بڑا کردار شامل ہو جائے۔ اس سے قبل ترکی نے یوکرین کے گیہوں کے ذریعے عالمی تجارت کی راہ ہموار کر کے اپنے عالمی کردار کی چھاپ چھوڑی ہے اور اب خلیج میں امن و استحکام کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ چاہے خلافت عثمانیہ ہو یا کوئی اور مسلم مملکت ہو انہوں نے اپنی حکمرانی کے دوران علم و فن، امن و انصاف اور تجارت کو خوب فروغ دیا ہے اور ظلم و زیادتی کو مٹایا ہے۔ برصغیر ہند و پاک میں بھی جب تک مسلمان حاکم رہے امن و امان رہا، فن و تجارت اور ہم آہنگی کو فروغ ملا۔محکوم ہونے کے باوجود یہاں کے عوام اکثر و بیش تر ان سے خوش اور مطمئن رہے ورنہ بغیر سیکڑوں برس تک طویل حکمرانی کیسے ممکن ہوتی؟ امید کی جانی چاہیے کہ مسلم مملکتوں کی یہ قربت، عالم اسلام کے لیے نیک فال ثابت ہو اور دنیا میں کچھ تشویش اگر پائی جاتی ہے تو اس کو اپنے عملی اقدامات سے دور کرنے کا کام بھی انہیں ملکوں کو کرنا ہوگا۔ واضح ہو کہ آج بھی یورپ، روس اور چین میں اسلامی تاریخ و تمدن اپنی آن بان شان کے ساتھ موجود ہے۔ اس عظیم الشان کا احیا چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہی ہو سکتا ہے جس کے لیے موجودہ دور کے قومی اور عالمی منفی پروپیگنڈے سے دل برداشتہ یا متاثر ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔