عیسائی دنیا کے سب سے اعلیٰ مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے امریکہ کے ایک عیسائی مذہبی رسالے ‘امریکہ’ کے ادارتی عملے کے پانچ افراد کے ساتھ مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی۔ ان میں امریکی کلیسا کی نسلی بنیادوں پر تقسیم، نسل پرستی، کلیساوں میں پادریوں کے ذریعے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں، چین کے ساتھ ویٹیکن کے تعلقات کے علاوہ روس یوکرین جنگ جیسے موضوعات بھی شامل تھے۔
نومبر کی 22 تاریخ کو پوپ فرانسس کے ساتھ اسپینی زبان میں ہونے والی اس گفتگو کو جریدہ ‘امریکہ’ نے انگریزی میں ترجمہ کر کے 28 نومبر کے شمارے میں شائع کیا ہے۔ گفتگو کے دوران پوپ فرانسس نے بعض ایسے نامناسب تبصرے کیے ہیں جو نہ صرف یہ کہ دنیا کے ایک بڑے مذہبی پیشوا کے شایان شان نہیں ہیں بلکہ اندیشہ ہے کہ ان کے اس تبصرے کی وجہ سے ان کے مذہبی عقیدت مندوں میں ایک دوسرے مذہب یعنی اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق منفی جذبات ابھریں گے، دنیا کے مختلف ممالک میں اسلاموفوبیا کی کیفیت میں اضافہ ہو گا اور امن عالم کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
روس یوکرین جنگ کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ ‘مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے اور جنگ کے دوران روس کی مسلح افواج میں موجود چیچن دستوں نے یوکرینی عوام پر زیادہ بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چیچنیا روس کا مسلم اکثریتی صوبہ ہے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے بریات نسل کے فوجیوں کا بھی تذکرہ کیا۔ بریات منگول نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اکثریت بودھ مذہب کو ماننے والی ہے۔ اپنے اس تبصرے کے ذریعے انہوں نے ایک طرف تو انتہائی عیاری کے ساتھ روسی فوج کو نسلی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب انہوں نے دانستہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور اپنے فالوورز کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ مسلمان وحشی اور سفاک ہوتے ہیں۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ روس میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب محض 7 فیصد ہے اور 80 فیصد سے زائد آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود پوپ فرانسس ایک چھوٹی سی اقلیتی آبادی کے چند فوجیوں کے سر پر ساری جنگ کا ٹھیکرا پھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق عیسائی و مغربی دنیا کی یہ الزام تراشی نئی نہیں ہے۔ مولانا مودودی کے مطابق "دور جدید میں اہل مغرب نے اپنے سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب بڑا بہتان یہی ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے، وہ اپنے ماننے والوں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ حالاں کہ اس بہتان کی کچھ بھی حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب مسلمان کرہ ارض کے ایک بڑے حصے کو فتح کر کے اپنی سلطنت قائم کر چکے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کا جنم اس وقت ہوا جب مسلمانوں کی تلوار تو اپنے نیام میں واپس جا چکی تھی اور خود اس الزام کے تراشنے والوں کا دامن دنیا بھر کے بے گناہوں کے خون سے تر ہوچکا تھا۔ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے ذریعے بے شمار چھوٹی چھوٹی اقوام کو انہوں نے اس طرح نگل لیا جیسے کوئی اژدہا چھوٹے جانوروں کو نگل لیتا ہے”
اس الزام کی تخلیق کو ایک عرصہ بیت گیا ہے، وقت بدل گیا ہے لیکن مغربی اقوام کی اس ذہنیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ چناں چہ آج بھی روس یوکرین جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما پوپ فرانسس نے اسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چیچن مسلمانوں کو سفاک اور وحشی قرار دیتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ بوسنیا میں عیسائیوں نے کس طرح بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی، کس طرح انہوں نے سربرینکا میں آٹھ ہزار سے زیادہ نہتے لوگوں کو خاک و خون میں لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کس طرح انہوں نے عراق و افغانستان کے نہتے عوام پر لاکھوں ٹن بارود برسا کر انہیں خاک میں ملا دیا تھا۔ ان سب معاملات میں ان کی ہم مذہب حکومتوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں کس طرح وحشت و بربریت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ لیکن عالمی امن کے پیامبر کو اس وقت اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس بربریت کے خلاف کوئی آواز اٹھاتے۔
اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ روس کے علاوہ کسی اور ملک نے پوپ کے اس بیان کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اعتراض کیا ہے۔ پوپ فرانسس کے اس تبصرے کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ مختلف یورپی و عیسائی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت کے جذبات پہلے ہی سے پائے جاتے ہیں ان میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ صورت حال عالمی امن کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
گذشتہ اسٹوری