سپریم کورٹ کے ذریعے این جے اے سی کو ختم کرنا عوام کے مینڈیٹ کی واضح نظر اندازی ہے: جگدیپ دھنکھر

نئی دہلی، دسمبر 8: نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھر نے بدھ کو سپریم کورٹ کے 2015 میں نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے فیصلے پر اپنی تنقید کا اعادہ کیا۔

دھنکھر نے ایوان بالا کے چیئرپرسن کے طور پر اپنے پہلے اور پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے افتتاحی دن کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ’’پارلیمانی خودمختاری کے ساتھ شدید سمجھوتہ کرنے اور لوگوں کے مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کی ایک واضح مثال تھا۔‘‘

یہ تبصرے ججوں کی تقرری کو لے کر مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان ایک نئے سرے سے جاری تنازعہ کے درمیان آئے ہیں۔ مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے 26 نومبر کو نیوز چینل ٹائمز ناؤ سے کہا تھا کہ کالجیم نظام آئین کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے دو دن بعد سپریم کورٹ نے اس بیان پر اعتراض کیا تھا۔

جسٹس ایس کے کول نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا حکومت اس لیے عدالتی تقرریوں کے لیے تجویز کردہ ناموں کو آگے نہیں بڑھا رہی ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو خارج کر دیا ہے۔

اس قانون میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، وزیر قانون اور چیف جسٹس اور وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے نامزد کردہ دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کو کالجیم سسٹم کو تبدیل کرنا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔

بدھ کے روز اپنے خطاب میں نائب صدر نے کہا کہ جمہوریت اس وقت ’’پھلتی پھولتی‘‘ ہے جب مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکیٹو اپنے اپنے دائرہ کار پر قائم رہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق دھنکھر نے مزید کہا ’’ایک کی طرف سے دوسرے کے دائرہ کار میں کوئی بھی دراندازی، خواہ کتنی ہی ہلکی ہو، گورننس ایپل کارٹ کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘

یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ قومی عدالتی تقرری کمیشن بل کو دونوں ایوانوں میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں آئینی قانون سازی کے لیے اتنی زبردست حمایت شاذ و نادر ہی ہوئی ہے۔

نائب صدر نے کہا کہ اس ’’تاریخی پارلیمانی مینڈیٹ‘‘ کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا، جس نے پایا کہ یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق نہیں ہے۔ بنیادی ڈھانچے کا نظریہ کہتا ہے کہ ایک خودمختار ملک کے آئین میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جنھیں اس کی مقننہ کے ذریعے ختم نہیں جا سکتا۔

نائب صدر نے مزید کہا کہ جمہوری تاریخ میں اس طرح کی ترقی کی کوئی مثال نہیں ہے جہاں ایک ’’حقیقی قانونی آئینی نسخے کو عدالتی طور پر کالعدم کر دیا گیا ہو۔‘‘

دھنکھر نے 2 دسمبر کو بھی قومی عدالتی تقرری کمیشن ایکٹ کے بارے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔