جب کانگریسی رہنما جئے رام رمیش کو اپنے ایک معمر اور جہاں دیدہ قائد شیوراج پاٹل کی ایک تقریر کے بعد کھڑے کیے گیے تنازع پر وضاحت کرتے ہوئے لکھنا پڑا کہ ’’کانگریس کا موقف صاف ہے، بھارتی تہذیب میں بھگوت گیتا کو ایک ’کلیدی بنیادی ستون‘ کا مقام حاصل ہے۔‘‘ تو یہ بات عیاں ہو گئی کہ کانگریس پارٹی نظریاتی بنیادوں اور سیاسی اور تمدنی افکار کے معاملے آج بھی انتشار کا شکار ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ آل انڈیا کانگریس پارٹی میں ہمیشہ سے ’ہندوتوا‘ عناصر کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی علانیہ مصروفِ کار رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی کے سیاسی عروج نے سخت گیر ہندوتو عناصر کو ایک پلٹ فارم فراہم کر دیا تو کانگریس پر ’مسلم نواز پارٹی‘ کا لیبل چسپاں کر کے ان سخت گیر عناصر نے کانگریس کے بجائے ’سناتنی اور برہمنی‘ نظام کو نافذ کرنے والی پارٹی کو دلی کے تخت پر بٹھا کر ہی دم لیا۔ کانگریس میں موجود یہ ’سلیپر سیل‘ کئی دہائیوں تک مرکز سے لے کر دیہات کی سطح تک اپنا کام انجام دیتا رہا، ان میں صرف مسلم مخالف لوگ ہی نہیں تھے بلکہ قبائیلی، او بی سی اور دلتوں کے مفادات کو ضرب لگانے والے بھی موجود تھے۔ اسی لیے امبیڈکر کو کانگریس کا سیاسی اور سماجی ایجنڈا کبھی راس نہیں آیا اور رفتہ رفتہ علاقائی پارٹیوں کو جو عروج حاصل ہوا اسے بھی اسی سیاسی چپقلش اور رد عمل پر مبنی ایک مظہر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اس سے قبل کانگریسی قائد سلمان خورشید کی ایک کتاب میں ’سیاسی ہندوتوا‘ کو داعش اور نائجیریا کے بوکو حرام جیسے انتہا پسند گروپوں کے ہم نظریہ قرار دینے پر بھی اس وقت کے کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد نے اسی قبیل کی وضاحت پیش کی تھی کہ ایسا موازنہ ’’سچ سے پَرے‘‘ اور ’’مبالغہ آرائی‘‘ ہے۔ اب جناب پاٹل اور اس وقت سلمان صاحب اپنی صفائی دیتے رہے اور کانگریس پارٹی ایسے بیانات سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے ڈھب پر گامزن رہی۔
ملک عزیز پر دوبارہ حکم رانی کے خواب دیکھنے والی اس 137 سالہ تاریخ کی حامل پارٹی کے صفِ اول کے قائد راہول گاندھی کا یہ بیان مشہور ہو گیا تھا کہ ’’میں ہندو ہوں، ہندوتوادی نہیں۔‘‘ جے پور میں ایک عظیم ریالی سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا تھا کہ ’’بھارت کی سیاست میں دو الفاظ کی جنگ جاری ہے: ہندو اور ہندوتودای اور ان دونوں اصطلاحوں کے دو جدا جدا معنی ہیں۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ راہول گاندھی کانگریس کو نظریاتی لحاظ سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار کر رہے ہیں اور غالب گمان یہ بھی ہے کہ سونیا گاندھی بھی اس میں ان کی ہم خیال ہیں۔ اگر سچائی یہی ہے تو اتنی پھرتی کے ساتھ میڈیا اور کمیونکیشن شعبے کے انچارج انجنئیر جیے رام رمیش کو اس نوعیت کی وضاحت پیش کرنے کے لیے آخر کس نے کہا تھا؟
کانگریس پارٹی کے سامنے چیلنج صرف نظریاتی ہی نہیں ہے بلکہ معاشی پالیسی میں دیانت داری اور بد عنوانی سے لڑنے میں ایماندارانہ اپروچ اختیار کرنے کا بھی ہے۔ سرمایہ داروں کو اقتدارِ وقت سے دوستی رکھنے پر نشانہ بنانے اور اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں ان ہی سرمایہ داروں کے لیے سرخ قالین بچھانے کا رویہ کیا سگنل دیتا ہے؟ کرناٹک میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران وہاں کی حکومت کو 40 فی صد کمیشن والی حکومت کہنا اور خود کانگریسی حکومتوں کے کرپشن کو قالین کے نیچے ڈھک دینا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ بھٹکنے والی کانگریس کو بھارت کو جوڑنے کے ساتھ ساتھ کئی محاذوں پر اپنی اندرونی جنگ کو لڑنا اور جیتنا ہو گا تب کہیں وہ ملک کی دوبارہ قیادت کا خواب دیکھنے کی حق دار ہو گی۔
محسنہ قدوائی کی کتاب ’’مائی لائف اِن انڈین پالیٹیکس‘‘ کے اجرا کے موقع پر سابق مرکزی وزیر داخلہ شیو راج پاٹل نے جہاد کے بارے میں ایک تبصرہ کیا کر دیا بس ایک زلزلہ سا آ گیا۔ حالاں کہ اس پروگرام میں کانگریس کے رکنِ پارلیمان ششی تھرور، منی شنکر ائیر، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور سابق مرکزی وزیر سشیل کمار شندے اور دیگر کئی اہم شخصیات اسٹیج پر موجود تھیں۔ شیوراج پاٹل صاحب جو تازہ بیان ہے وہ بھی نیا نہیں ہے کہ سری کرشن نے ارجن کو میدانِ جنگ کے دوران جو نصیحت کی تھی وہ بھی ’جہاد‘ ہے، مہا بھارت کے اس پہلو پر گاہے بہ گاہے رائے زنی ہوتی رہی ہے۔ سابق مرکزی وزیر شیوراج پاٹل نے پچھلے ہفتے دلی میں اپنی مراٹھی لہجے والی ہندستانی زبان میں جو کہا وہ یوں تھا کہ ’’سب کچھ سمجھانے کی کوشش کرنے کے بعد بھی اگر سمجھ نہیں رہے ہیں اور وہ ہتھیار لے کر سامنے آجاتے ہیں تو آپ بھاگ کر جا نہیں سکتے۔ اس کو آپ جہاد بھی نہیں کہہ سکتے ہیں اور اس کو آپ غلط بات بھی نہیں کہہ سکتے۔‘‘ بھگوت گیتا اور قرآن شریف کے علاوہ حضرت عیسیٰ نے بھی اسی نوعیت کی بات کہی تھی کہ ’میں تلوار بھی لے کر آیا ہوں‘‘ ان کی باتوں سے صرف جہاد والا بیان الگ کر کے حکم راں پارٹی کی جانب سے حملہ آور ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کو گھیرنے کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ان ہی شیو راج پاٹل کے ذریعے زعفرانی دہشت گردی اور ہندو دہشت گردی کی اصطلاحوں کے بعد ان پر عوامی بحثیں ہونے لگیں تھیں۔
اس معاملہ کے تناظر میں ملت کو بھی غور کرنا ہو گا کہ اب ملکی سیاست میں ان کا کوئی نام لیوا نہیں یہاں تک کہ ان کے ایشوز پر کسی کو علمی اور نظریاتی گفتگو کو بھی روا نہیں رکھا جا رہا ہے۔ البتہ ایک علمی بحث کو فورا سیاسی بیان بازی میں تبدیل کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جاتی۔ اللہ کے تمام بندوں کو بھارت اور دنیا کے موجودہ استحصالی نظام سے چھٹکارا دلانے میں اسلام کے ان عَلم برداروں کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے جو ایک متبادل، متوازن اور منصفانہ نظام کو عوامی رائے کو ہموار کر کے نظریاتی و عملی طور پر جمہور کے سامنے پیش کرنے کے اہل ہیں۔ لیکن تادمِ تحریر نہ کسی دانشور نے نہ کسی تنظیم و جماعت نے اور نہ ہی کسی سوشل میڈیائی جہدکار نے اس بحث میں کوئی نمایاں حصہ لیا ہے۔ مہمات کی منصوبہ بندی کی افادیت اپنی جگہ مسلّم لیکن سوشل میڈیا کے زمانے میں ہمارے ایشوز پر اٹھنے والی بحثوں میں فوری اپنا موقف پیش کرنے والوں کی ایک ٹیم کھڑی کرنے کی ضرورت پر توجہ کب دی جائے گی اسی سوال کے جواب میں ہماری شناخت اور شعائر کے تحفظ کا جواب بھی پوشیدہ ہے۔