دنیا میں سب سے بڑا مذہب اسلام ہےعیسائیت نہیں

ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل دنیا میں مسیحی آبادی میں کمی کا ایک سبب

ڈاکٹر جاویدؔ جمیل

آپ کسی سے بھی سوال کریں یا گوگل سے پوچھیں کہ آج دنیا کے سب سے بڑے مذاہب کون سے ہیں تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا عیسائیت اور عیسائیت کے بعد اسلام۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی عیسائیت کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھنے والے عیسائیوں کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔اسی موضوع پر ایک امریکی ادارے PEW کی رپورٹ میں شائع شدہ اعداد وشمار، جو ظاہر ہے کہ بہت پرانے ہیں، آج بھی پوری دنیا میں زیر گردش ہیں، جو بتلاتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کا 32 فیصد یعنی 2.2 بلین عیسائی، 23 فیصد یعنی 1.6 بلین مسلمان، 15 فیصد یعنی 1.0 بلین ہندو، 7 فیصد یعنی 500 ملین بدھسٹ اور 0.2 فیصد یعنی 14 ملین یہودی ہیں۔ wikipedia کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سو فی صد آبادی اپنے مذہب کے بنیادی عقائد اور اصولوں پر نہایت مضبوطی کے ساتھ قائم ہے مثلاً ایک اللہ، محمدؐ بحیثیت اللہ کے آخری نبی، قرآن، اللہ کی کتاب اور آخرت پر پکا یقین۔ دوسری طرف عیسائیت کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھنے والے عیسائیوں کی تعداد دن بہ دن مسلسل گھٹتی جارہی ہے جیسے حضرت عیسیٰ کو بطور خدا یا خدا کا بیٹا اور انجیل کو مقدس کتاب نہ ماننا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ، اللہ کے معجزے کے طور پر ایک کنواری ماں کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے جب کہ عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد اس معجزے کا کھلم کھلا انکار کرتی ہے۔ ایک نہایت جدید تحقیق کے مطابق امریکی عیسائیوں کی اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ صرف ایک ’’بلند پایہ استاد‘‘ تھے چنانچہ 52 فیصد امریکی عیسائی حضر ت عیسیٰ کو صرف ایک عظیم ترین استاد کی حیثیت ہی سے جانتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ یوروپ اور آسٹریلیا کے براعظموں میں آج بھی عیسائیوں کی تعداد قدرے زیادہ ہے۔ Harriet Scerwook کی تصنیف شدہ ایک کتاب ’’عیسائیت دراصل عیسائی برادریوں سے عملاً عنقا ہو چکی ہے‘‘ کے حوالے سے ایک جگہ خود مصنف لکھتا ہے کہ مختلف یوروپی ممالک میں بسنے والی عیسائی برادریوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ 12 یوروپین ممالک کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہے یعنی عملاً وہ کسی بھی مذہب کی پیروی نہیں کرتے۔ 16 تا 29 سال کی عمر کے عوام میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق چیکوسلواکیہ کے 91 فیصد عوام کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور نہ کسی مذہب سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ اس کے علاوہ ایسٹونیا، سویڈن اور ہالینڈ کے 70 تا 80 فیصد نوجوانوں نے اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے لا تعلق قرار دیا ہے۔ ایک اور تحقیقی مضمون حیرت انگیز انکشاف کرتا ہے کہ آسٹریلیا کے نوجوانوں کی اکثریت اپنے عیسائی مذہبی عقائد کو ماننے کے لیے تیار ہے اگر ان میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس کے علاوہ Mc Crindle Recendle جنہوں نے ’’آسٹریلیا میں عیسائی عقائد کے بدلتے منظر نامے‘‘ کے عنوان پر تحقیق کے بعد لکھا کہ آج آسٹریلیا کی صرف 40 فیصد آبادی کا تعلق عیسائیت سے باقی رہ گیا ہے، 13 فیصد آبادی نے خود کو کسی بھی مذہب یا عقیدے پر عمل نہ کرنے کا اقرار کیا ہے اور 33 فیصد لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کافر ہیں۔ 6 فیصد لوگوں نے کہا کہ اگرچہ کہ وہ عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے ہیں لیکن عملاً کسی اور مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔ عمر کی مناسبت سے آسٹریلیا کے کم عمر نوجوانوں کی اکثریت عیسائی مذہب کے عقائد اور احکامات ہی واقف ہی نہیں ہے اور نہ وہ انہیں جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں 73 فیصد عمر رسیدہ اور ضعیف حضرات آج بھی اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں، اس کے باوجود ان کے 38 فیصد بزرگ خود کو عیسائی مذہب سے بیزار بتاتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان مذہب اسلام سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس رجحان میں دن بہ دن مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ امریکی مسلمانوں کے بارے میں K.Servine کے مضمون (Non-belief: An Islamic Perspective, Securalism and Non-Religion) کے مطابق دنیا میں خدا کو ماننے والوں کی شرح 94.5 فیصد ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان کی شرح 97 فیصد ہے۔ یہی حال پوری مسلم دنیا کا بھی ہے جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت 95 تا 99 فیصد افراد علانیہ اللہ، اس کے پیغمبر محمدؐ اور قرآن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ یوروپ کے بشمول دنیا کے دیگر ممالک میں صرف 40 تا 50 فیصد یا اس سے بھی کم لوگ عیسائی مذہب کے ماننے والے بتائے جاتے ہیں لیکن وہ خود حضرت عیسیٰ کو ہی نہیں مانتے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ان حقائق کے باوجود عیسائیوں کی آبادی 2.3 بلین سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں عیسائی عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد 1.3 بلین سے ہرگز زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلام ہی دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور یہ تعداد یقینا اگلی دہائی تک بہت بڑھ جائے گی۔ نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آج 25 فیصد امریکی مسلمان جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے پہلے عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے۔ اسی طرح برطانیہ میں ہر سال 6000 عیسائی اسلام قبول کرتے ہیں۔ جون میں Huffington Post میں شائع شدہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں عیسائیت سے اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی اکثریت ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ ہر سال 20,000 سے زیادہ امریکی عیسائی، اسلام قبول کرتے ہیں۔
جب عیسائیوں میں اسلام کے پھیلنے کی وجوہات کا چرچا ہوتا ہے تو مغربی ماہرین حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان خاندانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح عیسائیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی رہتے ہیں زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ وہ دراصل اس حقیقت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے کہ اسلام آج سارے عالم میں مختلف مذہب کے ماننے والوں کا ایک پسندیدہ مذہب بن چکا ہے۔
مسلمان خاندانوں میں بچوں کی شرح پیدائش اگر زیادہ ہے تو اس کی کئی انتہائی سادہ اور ساری انسانیت کے لیے قابل غور وجوہات ہیں۔ عالمی سطح پر مسلم معاشرے کے افراد میں خاندانی نظام آج بھی نہایت مضبوطی سے قائم اور نافذ ہے۔ اس کے برخلاف مغربی خاندانی معاشرہ اور نام نہاد عیسائی خاندانی نظام مکمل طور پر بکھر چکا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسقاط حمل کے رجحان کا تناسب بہت کم ہے جب کہ یوروپ اور امریکہ میں اسقاط حمل کی سماجی اور سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیموں کو بھی اسقاط حمل کے ذریعے انسانی نسل کشی کی کوئی پروا نہیں۔ اسقاط حمل کا گھناونا کاروبار، عالمی سطح پر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے جس کے نتیجے میں ہر سال 70 ملین عیسائی بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی اسقاط حمل کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، فرق بس اتنا ہے کہ ہندو قوم کی اکثریت صرف لڑکی کے جنین کو ختم کرنے کی حمایت کرتی ہے اور ملک میں لڑکیوں کو ان کی پیدائش سے پہلے مار ڈالنا، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت میں مرد و خواتین کی آبادی کا تناسب بگڑ کر 100 مردوں کے مقابلے میں 80 عورتوں کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔
مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو سمجھائیں کہ جنسی آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کی حمایت کی وجہ سے مرد و عورت کو جسمانی، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا کے مرد و خواتین کے درمیان غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر طبعی، غیر فطری، غیر طبی افعال کے نتیجے میں بہت جلد وہ وقت وہ بھی آئے گا جب ایسے تمام آزاد خیال انسان اپنے برے اعمال کی وجہ سے امراض خبیثہ سے متاثر ہو کر دواخانوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑیں گے۔
جو لوگ جنسی بے راہ روی کی حمایت کرتے ہیں وہ دراصل اپنے آپ کو نہایت مہذب اور جدید خیالات کے علمبردار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ دولت کے لالچ اور محض اقتصادی بنیاد پرستی کے غلبے کے لیے انسانی زندگیوں، انسانی صحت اور سماج میں امن و امان کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ دولت کے ان پجاریوں کے لیے جنسی بے راہ روی کے بعد دیگر انسانی معاملات کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ وہ انہیں صرف ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود آج کا مغرب زدہ میڈیا بھی اس ضمن میں یقینا مسلسل غلط اعداد و شمار ہی پیش کرتا رہے گا اور وہی کچھ پیش کرے گا جو اس کے مفاد میں ہوگا۔ اگر وہ عیسائیوں کی آبادی سب سے زیادہ بتاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے بذات خود عیسائیت پسند ہے، ہرگز نہیں، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ عیسائیت اپنی روحانی اور اخلاقی اعتقادات کے بجائے صرف برائے نام باقی رہے تاکہ اسے اپنی من مانی زندگی گزارنے میں کوئی رکاوٹ یا کوئی خطرہ حائل نہ رہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تمام اخلاقی اقدار کو تجارتی نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے جو ایک مہذب معاشرے میں غیر اخلاقی حرکات اور اعمال سمجھے جاتے ہیں۔ در حقیقت وہ اسلامی اصولوں، اقدار اور اعتقادات سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے کیوں کہ اسے یقین ہے کہ اسلام میں ممنوعہ افعال، ساری انسانیت کے لیے ہمیشہ کے لیے ممنوع ہوتے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں جائز قرار دینے کی مجاز نہیں۔ اسلام میں حرام و حلال کا رواج اور چلن بہت زیادہ سختی کے ساتھ رائج ہے جس میں ذرہ برابر ترمیم کی گنجائش نہیں۔
میں یہاں اس نکتے پر زور دیتا چلوں کہ عیسائیت کی چمک دمک میں مسلسل گراوٹ اور زوال نے خود مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ عیسائی رہنماوں، مبصروں اور مذہبی قائدین کو اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے ملحدانہ نظریات سے عیسائیت مسلسل کیوں شکست کھا رہی ہے؟ میں اس نکتے پر بھی بحث کرتا آرہا ہوں کہ بجائے ہمیں ایک دوسرے کی مخالفت میں لڑنے اور وقت ضائع کرنے کے بجائے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد
(ڈاکٹر جاویدؔ جمیل، معروف ادیب، مصنف اور صدر اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، یینیپویا یونیورسٹی منگلورو ہیں جنہوں نے بیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں ان کی تازہ کتاب
A systematic study of the Holy Quran شامل ہے)
***

 

***

 مختلف یوروپی ممالک میں بسنے والی عیسائی برادریوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ 12 یوروپین ممالک کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہے یعنی عملاً وہ کسی بھی مذہب کی پیروی نہیں کرتے۔ 16 تا 29 سال کی عمر کے عوام میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق چیکو سلواکیہ کے 91 فیصد عوام کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور نہ کسی مذہب سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ اس کے علاوہ ایسٹونیا، سویڈن اور ہالینڈ کے 70 تا 80 فیصد نوجوانوں نے اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے لاتعلق قرار دیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023