دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کی تاریخ مٹا نہیں سکتی

کسی بھی تاریخ کو مسخ کرنے والوں پر دنیا ملامت کرے گی

تاریخ ہند پر مختلف کتابوں کے مصنف سید عبیدالرحمن کی علمی و تحقیقی کاموں پر بات چیت
تاریخ اپنے آپ کو خود لکھتی ہے، ماضی کی تاریخ لکھی جاچکی ہے، اب اسے اگر کوئی بدلنا چاہے تو یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بھی لکھا جائے گا کہ کس نے تاریخ کو مسخ کرکے جھوٹی تاریخ لکھنے کی کوشش کی تھی۔
دلی میں مقیم ایک مسلمان مورخ سید عبیدالرحمن نے آزادی ہند کی جد و جہد میں شامل مسلم جہدکاروں، مسلم ریاستوں اور وسطی بھارت میں مسلمانوں کی ان سلطنتوں کی تفصیلات کا ذکراپنی پانچ کتابوں میں کیا ہے۔ ان کتابوں میں انہوں نے چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے درمیان، برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں مستند حوالوں کی روشنی میں معلومات پیش کی ہیں۔ وہ سیواگرام میں منعقدہ ایک تقریب میں بھارت رتن ایوارڈ یافتہ مجاہد آزادی خان عبدالغفار خان کی بھارت کی آزادی کی لڑائی میں ان کی جدوجہد کے بارے میں خطاب کر رہے تھے۔ اس تقریب کے بعد ناگپور میں بیشتر مسلم دانشوروں اور طلباء کے ساتھ انہوں نے بات چیت کی۔ ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے سرفرازاحمد کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں، مسلم تاریخی یادگاروں یا ان کے لگائے ہوئے باغات کے نام تبدیل کرنے کی جو روایت چل پڑی ہے اس سے حکومت کا مقصد دراصل نہایت سنجیدہ اور بے حد اہم عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاناہے۔ اس کے علاوہ حکومت اپنے وسیع تر مفادات کے حصول کی خاطر اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق، بھارت کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی کاوشیں بھی کررہی ہے۔ یاد رکھیے! تاریخ اپنے آپ کو خود لکھتی ہے، ماضی کی تاریخ لکھی جاچکی ہے، اب اسے اگر کوئی بدلنا چاہے تو یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بھی لکھا جائے گا کہ کس نے تاریخ کو مسخ کرکے جھوٹی تاریخ لکھنے کی کوشش کی تھی۔ مورخ سید عبید الرحمن کی تصنیف کردہ بیشتر کتابیں، جن کا حوالہ دیا گیا ہے، آج وہ ہمارے کتب خانوں اور بازار کی دکانوں میں دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بھارت کا ایک لازمی جز ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کی تاریخ کو مٹا نہیں سکتی۔
چند روپوں اوراپنے ذاتی مفادات کی خاطر کچھ بھارتی مورخین حکومت کی ایما پر عوام کو بھارت کی تاریخ کے حقائق سے گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مشہور مورخ عرفان حبیب کی تاریخی تحقیقاتی کتابیں، دنیا سے غائب نہیں ہوئی ہیں۔ آج بھی بین الاقوامی تاریخی حوالوں اور ثبوتوں کے لیے ان کی مستندکتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور آئندہ بھی دیا جاتا رہے گا۔ آج بھارت کے صاحب اقتدار طبقے کے ہاتھوں بکے ہوئے ان بھارتی مورخین کا نام خود تاریخ میں لکھا جائے گا جو ہمیشہ کے لیے ان کے منہ پر بدنامی اور بے عزتی کا گہرا داغ ثابت ہوگا۔
سوال: شہروں، تاریخی عمارتوں اور دیگر مقامات کے موجودہ ناموں کی تبدیل کرنے کے لیے حکومت کی چالوں کا آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟
جواب: کسی بھی شہر کا نام بدلنے کے لیے حکومت کو خصوصاً موجودہ حکومت کو کسی حقیقی بنیاد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مثال کے طور پر شہر احمد نگر کو لیجیے۔ شہر احمد نگر کو وہاں کے ایک بادشاہ نظام شاہ نے بسایا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس وقت اس کی ریاست میں احمد نگر نام کا کوئی اور شہر بھی نہیں تھا۔
دراصل نظام شاہ کے والد بحری نے اسلام قبول کیا تھا جو سلطنت بہمنی میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ بہمنی سلطنت اس وقت ایک نہایت طاقتور اور اہم ریاست تھی۔ چنانچہ آج ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہمارے موجودہ حکمران کس بنیاد پر اس شہر کا نام بدلنا چاہتے ہیں؟
اسی طرح بھارت کا ایک مشہور تاریخی اہمیت والا شہر اورنگ آباد ہے۔ کسی منطق کے بغیر اس مشہور شہر کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بغیر کسی صلاح و مشورے کے اس کا نام بدل دیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس شہر میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ کسی بھی فرقے کے عوام کو اس شہر کا نام اورنگ آباد ہونے پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اس کا نام بدلنے کی پوری سازش کی عمارت کسی بنیاد کے بغیر کھڑی کی ہے۔ دراصل اس طرح شہروں کے ناموں کی تبدیلی کا نظریہ، عوام کی توجہ ان کے حقیقی مسائل سے ہٹانا ہی ہوتا ہے جو ان چالاک خود غرض سیاست دانوں کے لے بہت آسان کام ہے۔
سوال: اس طرح شہروں اور دیگر عمارتوں اور مقامات کے ناموں کی تبدیلی سے مسلمانوں اور بھارت کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
جواب: عموماً نام بدلے جانے والے شہر، مقامات، عمارتیں یا دیگر چیزیں، رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھودیں گی یعنی آگے چل کر اپنی اصلی شناخت سے محروم ہوجائیں گی۔ مستقبل میں عوام بھی ان کی اصلیت کو بھول جائیں گے کیوں کہ اصلی نام بدل کر حکومت دراصل اس شہر یا عمارت کی حقیقت اور اس کے پس منظر کو گمنام کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ آنے والے نسلیں ان کے اصلی نام کی وجہ تسمیہ بھی نہ جان سکیں اور اس مقام کی تاریخی اہمیت سے غافل ہی رہیں۔ موجودہ حکومت کا بھی یہی منشاء اور ارادے ہیںکہ اس طرح آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے بھارت میں مسلمان بادشاہوں کا نام ونشان اور تاریخ مٹ جائے کیونکہ تمام مسلم بادشاہوں نے بھارت میں بلا شبہ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل حیرت انگیز تاریخی عمارتیں، قلعے، باغات، تالاب اور عجائب گھر تعمیر کیے ہیں۔
سوال: ناموں کی اس تبدیلی سے آج کے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب: شہروں کے مسلم ناموں کی تبدیلی سے مسلمانوں پر خطرناک اور تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ اس میں اپنی بے عزتی، ناقدری اور بھارتی سماج سے انہیں لاتعلق کرنے کی سازش کو بری طرح محسوس کرنے لگیں گے۔ آج ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ بھارت کی بیشتر ریاستوں کے اسکولوں اور کالجوں کی نصابی کتابوں میں مغلوں کی سنہری اور پرامن حکومت کرنے کی تاریخ کے خلاف گمراہ کن حوالے اور فرضی اقتباسات شامل کیے جاچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ان نصابی کتابوں میں سلطنت وجئے نگر کے متعلق جھوٹے من گھڑت واقعات کی بھرمار کے ذریعے، اسے حد سے زیادہ اہمیت اور شہرت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود حیرت اس بات کی ہے کہ ان کی یہ جھوٹی کہانیوں اور من گھڑت قصوں کی اہمیت، رفتہ رفتہ طلباء میں مسلسل گھٹتی جارہی ہے اس کے برخلاف بہمنی سلطنت کے حقیقی کارناموں کو یا تو نہایت مختصر کر دیا گیا ہے یا ان کے عوامی فلاحی کاموں کو غلط پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ تاریخ کی اصل کتابیں دنیا سے ہرگز غائب ہونے والی نہیں ہیں۔ دنیا کے کتب خانوں میں وہ آج بھی موجود ہیں اور جب تک یہ لائبریریاں موجود ہیں انشاءاللہ تب تک یہ کتابیں بھی موجود رہیں گی اور عالمی تاریخی شہادتیں محققین کے مطالعے کے لیے دستیاب رہیں گی۔ پوری دنیا صحیح تاریخی واقعات کو مسخ کرنے والوں پر ملامت کرتی رہے گی اور حقائق کو مشکوک کرنے والوں کے نام تاریخ میں لکھے جائیں گے جس کے بعد آئندہ آنے والی نسلیں بھی ان پر ملامت کرتی رہیں گی۔
سوال: آپ کے نزدیک، زیر ترتیب بھارت کی جدید تاریخ کی قبولیت کا کیا پیمانہ ہوگا؟
جواب: قدیم حقیقی تاریخی حوالوں کو بدلنے کی موجودہ حکمرانوں کی کوششیں بلا شبہ رائیگاں جائیں گی۔ انشاءاللہ وہ وقت بھی آئے گا جب بھارت کی حقیقی تاریخ پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ عوام کے سامنے آجائے گی۔ یاد رکھیے، حقیقی تاریخ کسی بھی صور ت میں غائب نہیں کی جاسکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح محض ذاتی مفادات، سیاسی فوائد اور دولت کی خاطر دنیا کے سامنے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں چند نام نہاد بھارتی مورخین دنیا کے سامنے اپنے آپ کو احمق ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مشہور مورخین عرفان حبیب اور رچرڈ ایلٹنکی تحقیقی کتابیں، دنیا کے کتب خانوں سے یوں ہی یکسر غائب نہیں ہوجائیں گی جن کا حوالہ بین الاقوامی مورخین ہمیشہ دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بھارت کی مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں کرنے والے موجودہ صاحب اقتدار ٹولے کے چہروں پر آنے والی تاریخ ایک بدنما داغ چھوڑے گی اور تاریخ کو مسخ کرنے کی موجودہ مذموم حرکتیں خود تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔
سوال: آپ اس سازش کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
جواب: آج سے ہماری یہ اخلاقی ذمہ داری ہوگی کہ مشہور ومعروف مورخین کی تاریخ کی مستند کتابوں کو اپنے بچوں، طلباء، اساتذہ اور محققین تک پہنچائیں۔ ان کا مطالعہ کرنے کے لیے مناسب ذہن سازی بھی کرنی ہوگی۔ ہمیں شہر حیدرآباد کے ایک مشہور بے غرض مخلص سماجی کارکن شری رام پنیانی کی تائید، حمایت اور زیادہ سے زیادہ ہمت افزائی اور ان کا تعاون کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب جیسے ہائی ٹیک وسائل کا بھی بھرپور استعمال کیا جانا چاہیے۔انشاءاللہ اس طرح ہماری یہی چھوٹی چھوٹی کوششیں، چند جھوٹے مورخین کے خلاف، بہت کارگر ثابت ہوں گی۔
سوال: مسلمان حکمرانوں کی تاریخ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ بھارت کا مسلمان، بھارت کا ایک ناقابل انکار حقیقی جز ہے۔ کوئی طاقت ان کی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی۔ چھٹی صدی سے مسلمان، کیرالا، تمل ناڈو اور گجرات میں رہتے بستے آئے ہیں۔ مٹھی بھر فرقہ پرست عناصر یہ کہنے کی جرات کرلیتے ہیں کہ بھارت کی تاریخ اور اس کی ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ شاید انہیں یاد نہیں کہ 1693ء میں دلی کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ ’ڈاکٹر ذاکر حسین کالج‘ مسلمانوں ہی نے قائم کیا تھا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمان بھارت کا ایک بنیادی اور ضروری جز ہیں اور کوئی بھی طاقت مسلمانوں کی تاریخ کو ختم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
سوال: آپ اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور پر کیا کہنا چاہیں گے کہ کوئی بھی طاقت مسلمانوں کی تاریخ کو ختم نہیں کرسکتی؟
جواب: ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی طرف سے انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کے قیام کا مقصد، اگلے پانچ برسوں میں قرون وسطیٰ کی تاریخی حقیقتوں کو بھارتی سیاست دانوں کے اپنے حساب سے ترتیب دے کر اسے دنیا کے سامنے نئی تاریخ پیش کرنا ہے۔ اس کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی صورت میں فارسی اور انگریزی تحقیقی ذرائع سے تیار شدہ تاریخی مواد سے کوئی استفادہ نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ زیادہ تر مقامی ذرائع اور مقامی افراد کے بیانات اور فرضی معلومات کی بنیاد پر مسلم حکمرانوں کا کوئی ذکر کیے بغیر نئی تاریخ مرتب کی جائے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ قرون وسطیٰ کے دور میں سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔ بعد میں انگریزی کا استعمال بھی ہونے لگا۔ ایک فوجی قلم کار و مصنف رچرڈ ایلٹن کے مطابق بھارت میں تاریخ کو دستاویز کی شکل دینے کے لیے مقامی زبانوں کے استعمال کا اس دور میں رواج تھا نہ روایت۔ چنانچہ آج کے یہ بھارتی منافق مورخین، اس دور کا مذہبی منظر نامہ اب مقامی زبانوں میں اپنی مرضی سے تیار کر رہے ہیں۔ دلی میں منعقدہ ایک حالیہ نمائش میں ان کے انہیں منظر ناموں کی روشنی میں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق لکھی گئی فرضی تاریخ کے حوالے سے ہی مکمل مواد پیش کیا گیا جس میں چھوٹے چھوٹے قصبوں، دیہاتوں اور تعلقوں کے چند گمنام مقامی قائدین کو بہت بڑی قد آور مذہبی رہنماوں اور سماجی جہدکاروں کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ اس نمائش میں بہمنی خاندان یا سلطنت دلی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ کسی مسلمان شاہی خاندان کے کسی فرد کا نام لیا گیا۔ منتظمین نمائش اور وہاں پر موجود نام نہاد مورخین کے اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے نام و نشان کو ہندوستان کی تاریخ سے مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک وقت انشاء اللہ ضرور آئے گا جب بھارتی مسلمانوں کی حقیقی تاریخ اور کارنامے دوبارہ زندہ ہوں گے جسے پھر کبھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔
(بشکریہ : ٹائمس گروپ۔ ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد)
***

 

***

 آج کے یہ بھارتی منافق مورخین، اس دور کا مذہبی منظر نامہ اب مقامی زبانوں میں اپنی مرضی سے تیار کر رہے ہیں۔ دلی میں منعقدہ ایک حالیہ نمائش میں ان کے انہیں منظر ناموں کی روشنی میں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق لکھی گئی فرضی تاریخ کے حوالے سے ہی مکمل مواد پیش کیا گیا جس میں چھوٹے چھوٹے قصبوں، دیہاتوں اور تعلقوں کے چند گمنام مقامی قائدین کو بہت بڑی قد آور مذہبی رہنماوں اور سماجی جہدکاروں کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ اس نمائش میں بہمنی خاندان یا سلطنت دلی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ کسی مسلمان شاہی خاندان کے کسی فرد کا نام لیا گیا۔ منتظمین نمائش اور وہاں پر موجود نام نہاد مورخین کے اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے نام و نشان کو ہندوستان کی تاریخ سے مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک وقت انشاء اللہ ضرور آئے گا جب بھارتی مسلمانوں کی حقیقی تاریخ اور کارنامے دوبارہ زندہ ہوں گے جسے پھر کبھی ختم نہیں کیا جاسکے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023