ڈاکٹر ف عبدالرحیم کی وفات ۔ ایک عہد کا خاتمہ
ایک درجن سے زائد زبانوں کے ماہر ، شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کامپلکس کے سابق ڈائریکٹر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
تنویر الہیٰ عمری، وانمباڑی
دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق خدا کے آخری کلام کو لوگوں تک پھیلانے کی کوشش کی۔ انہی شخصیات میں سے ایک شخص ڈاکٹر ف عبدالرحیم بھی ہیں۔ سال 2002ء میں جب میرا داخلہ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں ہوا تو نصابی کتابوں میں سے ایک کتاب ”دروس اللغۃ العربیہ“ جلد اول پڑھنے کا موقع ملا اور اس کتاب کو پڑھانے والے استاد ڈاکٹر سعید عمری نے کتاب کو پڑھانے سے پہلے مؤلف کا ذکر کیا اور تعارف کراتے ہوئے کہا کہ مؤلف شہر وانمباڑی سے تعلق رکھتے ہیں اور مدینہ میں شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کامپلکس میں ’مدیر مرکزالترجمات‘ ہیں ۔چونکہ میرا تعلق بھی وانمباڑی سے تھا تو مجھے اشتیاق ہوا کہ اس عظیم شخصیت سے ملوں۔ لیکن مجھے اس وقت علم نہیں تھا کہ میں کیسے ان سے رابطہ کروں۔ آخر کار سال 2004ء میں آپ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آئے تھے اور میں بھی وہیں موجود تھا، پھر مسجد ہی میں میں نے ملاقات کی اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کا طالب علم ہوں اور وہیں سے تعلق بڑھا۔ اس پہلی ملاقات کے بعد آپ نے میرے گھر اپنی کچھ کتابیں بھجوائیں اور بعد میں پتہ چلا کہ آپ میرے رشتہ دار بھی ہیں۔ پہلی چند ملاقاتوں کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے عربی گرامر سے متعلق اگر کسی بات کی وضاحت مطلوب ہوتی تو آپ کو خط لکھتا اور آپ بخوشی اس کا جواب خود اپنی تحریر میں روانہ کرتے۔
سن 2006ء میں میری فراغت ہوئی اور اسی سال سے میں آپ سے فون کے ذریعہ رابطے میں رہا اور سن 2008ء میں نوکری کی تلاش میں شہر مدراس کا رخ کیا اور انہی کے گھر میں میرا قیام رہا۔ ان ایام میں جب بھی آپ مدراس آتے تو اکثر میری ملاقات ہوجاتی تھی۔ بہت دیر تک ہم گفتگو کرتے۔ چونکہ آپ ماہر لسانیات تھے تو اس لیے الفاظ کی بناوٹ، اس کا اشتقاق اور مختلف زبانوں میں اس کا استعمال یہ سب عناوین موضوع بحث ہوتے اور جب بھی مدینہ سے آتے تو آپ خود کوئی کتاب یا ڈکشنری یا علم نحو سے متعلق کوئی کتاب میرے لیے تحفتاً ضرور لاتے اور کبھی کبھار میں خود منگوالیتا۔ سن 2008ء لے کر اب تک جتنی بھی کتابیں آپ کی بھارت میں چھپی ہیں ان میں سے اکثر کتابیں میں نے Proof Reading کی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے اس لائق بنایا۔
آپ بہت نرم مزاج کے مالک تھے اور بہت سلیقہ مند بھی۔ جب بھی کچھ پوچھنا ہو یا بولنا ہو تو میں تول تول کے بولتا کہ کہیں میں غلط تلفظ استعمال نہ کر بیٹھوں اور کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا کہ آپ اس کی تصحیح کرتے، خاص کر انگریزی زبان کے الفاظ کی۔
2012ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت سے مجھے عمرہ کرنے کا موقع ملا۔ دو دن میں آپ کے ساتھ رہا۔ وہ مجھے مدینہ میں واقع اپنے دفتر ساتھ لے گئے۔ سادہ لوحی اور سادہ مزاجی آپ کا شعار تھا بہت معمولی کھاتے اور بہت کم مقدار میں کھاتے۔ آپ مہمان نوازی تو خوب کرتے لیکن خود اپنے لیے کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے۔ جب میری آخری ملاقات پچھلے مہینے ہوئی تب بھی اصرار کر رہے تھے کہ میں ظہرانہ آپ کے ساتھ کروں مگر میں نے معذرت کرلی۔
جب میرا قیام آپ کے ساتھ مدینہ میں رہا تو انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں نے مسجد قباء میں نماز ادا کی ہے؟ جب میں نے نفی میں جواب دیا تو فوراً اپنے شاگردِ خاص مولانا الطاف صاحب مالانی عمری کو حکم دیا کہ وہ مجھے مسجد قباء لے جائیں اور نماز ادا کرکے واپس آئیں کیونکہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
بہت سے لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ دس پندرہ زبانیں جانتے ہیں لیکن جب آپ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کئی زبانوں کے علم الاشتقاق سے بھی خوب واقف تھے اور یہ جانتے تھے کہ کونسا لفظ کس زبان سے نکلا اور کس طرح آگے چل کر دوسری زبانوں میں مستعمل ہوا اور اس کے اندر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جیسے بھارت کی بہت ساری زبانوں اور خاص کر دکن میں بولی جانے والی زبانوں کے بعض الفاظ سنسکرت زبان سے لیے گئے ہیں۔ سنسکرت سے بھی آپ اچھی طرح واقف تھے۔ دوران گفتگو آپ نے بتایا تھا کہ لفظ ”رات“ کس طرح سنسکرت کا لفظ ”راتری“ سے بنا ہے اور وہی لفظ تمل زبان میں بھی رائج ہے۔ بہت سارے یورپی زبانوں کی اصل لاطینی زبان سے بھی آپ اچھی طرح واقف تھے آپ کو یہ شوق زمانۂ طالب علمی سے ہی رہا جب آپ انگریزی زبان میں( B A (Honsکررہے تھے تو لاطینی زبان بھی نصاب میں شامل رہی اور اسی شوق نے انہیں اس موضوع کا بہترین محقق بنادیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس موضوع پر آپ کی لکھی گئی پانچ کتابیں ’امہات الکتب‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
جس طرح آپ سادہ مزاج تھے بولنے اور لکھنے کی زبان میں بھی سادگی جھلکتی تھی آپ کی نصابی کتابیں ہوں یا آپ کی وہ کتابیں جو قرآن و حدیث کی تشریح کرتی ہیں نہایت ہی سلیس زبان میں لکھی گئی ہیں اور جب میں کسی پروف میں غلطی کی نشاندہی کرتا یا کوئی تجویز پیش کرتا تو آپ اکثر قبول کر لیتے یا اس کو رد کرنے کی وجہ بھی ضرور بتاتے۔
جب بھی آپ بھارت آتے تو پہلی ملاقات ہی میں میں آپ سے پوچھتا کہ کیا کوئی تازہ تصنیف لے کر آئے ہیں تو آپ بتلاتے کہ اس پر کام چل رہا ہے اور آپ اسے پروف کے لیے ای میل کے ذریعہ میرے پاس بھیج دیں گے۔ میری آخری ملاقات 16 ستمبر 2023ء کو ہوئی تو میں نے یہی سوال آپ سے کیا تھا تو آپ نے کہا کہ ’ہاں قرآن مجید کے بعض الفاظ کو لے کر میں نے تشریح کی ہے اور میں انشاءاللہ واپس مدینہ جاکر بھیجوں گا“ اس کتاب کا نام آپ نے ”الصافنات الجیاد“ بتایا تھا لیکن مجھے بھیج نہیں پائے اور انتقال کر گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے۔ جتنے بھی طلبا آپ کی کتابوں سے قرآن کی زبان سیکھ رہے ہوں ان تمام لوگوں کی طرف سے اجر عطا فرمائے آپ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور سیئات کو حسنات میں بدل دے۔ آمین۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023