’’حملہ آوروں‘‘ کے نام سے منسوب جگہوں کے نام تبدیل کرنے کی درخواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا
نئی دہلی، فروری 27: سپریم کورٹ نے پیر کو ایسے تمام شہروں اور تاریخی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا جن کا نام ’’وحشی بیرونی حملہ آوروں‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر درخواست میں ان قدیم تاریخی ثقافتی مذہبی مقامات کے اصل ناموں کا پتہ لگانے کے لیے اور ان کا نام تبدیل کرنے کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی تھی، جو اس وقت مسلم حکمرانوں کے نام پر ہیں۔
عرضی میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو شہریوں کے آئین کے بارے میں جاننے کے حق کے تحت ایسے ناموں کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اپادھیائے نے دعویٰ کیا تھا کہ اس طرح کے مقامات کا نام تبدیل کرنا ضروری ہے کیوں کہ ہندو بہت سے تاریخی مقامات پر اقلیت بن چکے ہیں۔
بی جے پی لیڈر نے پوچھا ’’تاریخ غزنی اور غوری کے بعد ہی کیوں شروع ہو؟ اورنگزیب کا بھارت سے کیا رشتہ ہے؟‘‘
اپادھیائے نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی حملہ آوروں کو آئینی تحفظات نہیں دی جانی چاہئیں۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگرتھنا کی بنچ نے اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئین کے سیکولر اصولوں کے خلاف قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے کہا ’’آپ ماضی کو چن چن کر دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان آج ایک سیکولر ملک ہے۔ آپ کی انگلیاں کسی خاص کمیونٹی کی طرف اٹھ رہی ہیں، جسے وحشی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ ملک کو ابال میں رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کچھ تاریخی مقامات یا شہروں کے نام بدلنے سے ہندوستان کی تاریخ نہیں بدل سکتی۔
بنچ نے کہا ’’کیا ہم تاریخ کو دوبارہ لکھ سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے حملہ نہیں کیا؟ یہ تاریخ کی ایک حقیقت ہے۔ کیا آپ اسے دور کرنے کی خواہش کر سکتے ہیں؟ ہاں ہم پر غیر ملکی حملہ آوروں کی حکومت رہی ہے۔ ہم پر کئی بار حملے ہوئے ہیں اور تاریخ نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ آپ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے ملک کے موجودہ دیگر مسائل کو نہیں سنا؟‘‘
عدالت نے مزید کہا ’’کسی بھی قوم کی تاریخ کسی قوم کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس مقام تک پریشان نہیں کر سکتی کہ آنے والی نسلیں ماضی کی قیدی بن جائیں۔ بھائی چارے کا سنہری اصول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور آئین کے دیباچے میں اسے بجا طور پر جگہ ملی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ہم آہنگی ہی ملک کی یکجہتی کا باعث بنے گی۔‘‘
عدالت نے اپادھیائے سے کہا ’’ہم اس قسم کی درخواستوں سے معاشرے کو نہ توڑیں، براہ کرم ملک کو ذہن میں رکھیں، کسی مذہب کو نہیں۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’ہندو ازم ایک طرز زندگی ہے، اس کی وجہ سے ہندوستان نے سب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ایک ساتھ رہنے کے قابل ہیں۔ انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی نے ہمارے معاشرے میں تفرقہ پیدا کیا۔ اسے واپس نہیں لانا۔ اس میں کسی مذہب کو مت گھسیٹیں۔‘‘
بنچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ آئین کی دفعہ 32 کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے نفاذ کا کام سونپا گیا ہے۔ بنچ نے کہا ’’ہندوستان قانون کی حکمرانی، سیکولرازم، آئین پرستی سے منسلک ہے، جس میں سے دفعہ 14 ریاستی اقدامات میں مساوات اور انصاف دونوں کی ضمانت دیتا ہے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاستوں اور مرکز میں بی جے پی حکومت نے ایسے شہروں اور دیگر تاریخی مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں جن کا نام مسلم حکمرانوں کے نام پر تھا یا جن کا اسلامی ثقافت سے کوئی تعلق تھا۔ گذشتہ ماہ راشٹرپتی بھون کے اندر واقع مغل گارڈن کا نام بھی بدل کر ’’امرت ادیان‘‘ رکھ دیا گیا۔
مئی میں بی جے پی کی دہلی یونٹ نے نئی دہلی میونسپل کونسل سے کہا تھا کہ وہ پانچ سڑکوں کے نام تبدیل کرے، جن میں تغلق روڈ، اکبر روڈ، اورنگزیب لین، ہمایوں روڈ، شاہجہاں روڈ اور بابر لین شامل ہیں، جو کہ ’’غلامی کی علامت‘‘ ہیں۔
2018 میں آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت نے الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا تھا۔