’دلی فسادات کو پولیس کی ناکامی کے لیے یاد رکھا جائے گا‘

جانچ کے نام پر پولیس نے عدالت کی آنکھوں پر پٹی باندھی

افروز عالم ساحل

’فساد ہوتے نہیں ہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ان کی تفتیش کرنابہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ فسادات سے پہلے اور بعد کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا صرف ایک مختصر جائزہ ہی اس کی حقیقت کو آسانی سے بیان کر دیتا ہے۔‘

گزشتہ دنوں دلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے ’فروری 2020 میں دارالحکومت دلی کو دہلا دینے والے فسادات اچانک نہیں پھوٹ پڑے تھے۔ ویڈیو فوٹیج، جس میں مظاہرین کا طرز عمل، جسے پراسیکیوٹرز کے ذریعے ریکارڈ میں رکھا گیا ہے واضح طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ حکومت کے کام کاج میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ شہر میں لوگوں کی عام زندگی کو متاثر کرنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔‘

دلی ہائی کورٹ کے جسٹس سبرامنیم پرساد نے دلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں ضمانت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کو منظم طریقے سے تباہ کرنا بھی شہر میں امن وامان کو خراب کرنے کی ایک ’’منصوبہ بند‘‘ سازش تھی۔ یہ حقیقت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ بے شمار فسادی بے رحمی کے ساتھ لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ پولیس افسروں سے زیادہ تعداد میں اترے تھے۔

آپ کو بتادیں کہ فروری 2020 میں ہوئے دلی فسادات پر شروع دن سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ دلی پولیس شروع سے ہی سوالات کے گھیرے میں رہی ہے اور اس پر تعصب اور غیرمنصفانہ کارروائی کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ دلی پولیس نے اس معاملے میں جو یکطرفہ کارروائی کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے عدالت تک کو یہ کہنا پڑا کہ جو کچھ ہوا وہ ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے دلی پولیس کے ذریعے گرفتار کئی ملزموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم بھی دیا۔

ہفت روزہ دعوت نے دلی فسادات پر شروع سے لے کر اب تک کے عدالتوں کے کچھ اہم تبصروں کو یکجا کیا ہے، تاکہ دلی فسادات کی حقیقت کو سامنے لایا جا سکے اور آگے کی کارروائی کے امکانات کو تلاش کیا جا سکے۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمان کہتے ہیں کہ کسی اسٹیٹ کی پولیس کا سب سے پہلا کام جرائم کی روک تھام کرنا ہوتا ہے جس میں دلی پولیس پوری طرح ناکام رہی۔ اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ فساد کو ہونے سے نہیں روک سکی۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ دارالحکومت دلی سے متعلق ہے۔ یہاں ملٹی لیئر انٹیلی جنس ہے۔ تھانے کی بھی اپنی انٹیلی جنس ہوتی ہے۔ وہیں ہر تھانے کا ایس ایچ او اپنی کارکردگی بہتر رکھنے کی خاطر اپنے ذاتی مخبر رکھتا ہے۔ یہ ذاتی مخبر زیادہ تر جرائم کی دنیا سے ہوتے ہیں۔ پولیس ہیڈکوارٹرس کی اپنی انٹیلی جنس ہے۔ دلی میں انٹیلی جنس بیورو بھی ہے۔ وزارت داخلہ کی اپنی کچھ باڈیز ہوتی ہیں۔ لوکل انٹیلی جنس الگ ہوتی ہے۔ تو پھر ان سب کے ہوتے ہوئے بھی فساد کیسے ہو گیا؟

وہ مزید کہتے ہیں، دلی فسادات کے سلسلے میں تیار کیے گئے تمام مقدمے بنیادی طور پر جھوٹے ہیں۔ مظلوموں کو ہی ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دلی پولیس کا اصل مقصد مجرموں کو بچانا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جن سیاسی لیڈروں نے سڑک پر آکر مسلمانوں کے خلاف نعرے لگائے، کھلے عام گالیاں دیں، دھمکیاں دیں، ان کا چارج شیٹ میں کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ پولیس یہ سب کس کے اشارے پر کر رہی ہے؟ ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب دلی پولیس نہیں دے رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی چیزیں عدالت میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتیں۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا مقدمہ نہیں ہے، جو اسٹینڈ کر رہا ہو، جس کے حق میں ثبوت ہوں۔ عدالت جو ضمانتیں دے رہی ہے اس میں وہ پولیس رول کی بھی دھجیاں اڑا رہی ہے اور یہ سب کچھ ابھی ٹرائل کورٹ میں ہو رہا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں کیا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

طویل گفتگو میں اے رحمان کہتے ہیں، ہائی کورٹ نے یہ تو ضرور کہا ہے یہ منصوبہ بند فساد تھا، لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ وہ منصوبہ تھا کس کا؟ چونکہ عدالت کا یہ تبصرہ ایک مسلمان کے ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران کیا ہے تو سوئی یقیناً مسلمانوں کی طرف ہی جارہی ہے۔

تو پھر کرنا کیا چاہیے؟

ملک کے کچھ دانشوراور وکلاء ساتھ مل کر یہ سارا معاملہ ہائی کورٹ کے سامنے رکھ دیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دلی ہائی کورٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے، دلی پولیس کی چارچ شیٹ کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اب تک عدالتوں نے جو بھی تبصرے دلی پولیس کی تفتیش اور ان کے رول پر کیے ہیں، اس پر بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے کہ دلی پولیس کے مقدمے جھوٹے ہیں۔

اے رحمان کہتے ہیں کہ جب ہائی کورٹ خود ہی کہہ رہا ہے کہ یہ فسادات منصوبہ بند تھے تو اس کی انکوائری سی بی آئی یا کوئی دوسری ایجنسی سے کرائی جانی چاہیے کہ وہ لوگ کون تھے جو ٹریلر سے پتھر لے کر آئے تھے؟ فساد سے ایک دن پہلے اس علاقے میں باہر کے کتنے لوگ آئے تھے؟ فساد میں ان کا رول کیا تھا؟ مرنے والوں میں کئی ایسے لوگ تھے جو مقامی نہیں تھے۔ اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ وہ یہاں کیسے پہنچے؟ کہیں وہ منصوبہ کا حصہ تو نہیں تھے؟ انکوائری اس بات کی بھی ہونی چاہیے کہ پولیس نے مجرموں کے بجائے بے قصوروں کو کیوں گرفتار کیا؟ پولیس تفتیش میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی ہے؟ چارج شیٹ میں اتنی الٹ پھیر کیوں ہے؟ پولیس غفلت کیوں برت رہی ہے؟

وہ مزید کہتے ہیں، ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو لوگ دلی فسادات کے معاملے میں جیلوں میں بند ہیں اگر چھوٹ بھی جائیں تب بھی اصلی مجرم پکڑے نہیں جائیں گے کیونکہ انہیں خود دلی پولیس نے بچایا ہے۔

پیش ہے دلی فسادات سے متعلق عدالت کے اہم تبصروں کی کچھ جھلکیاں!

>> 26 فروری 2020 کو دلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے پولیس کی سرزنش کی کہ اور سوال کیا کہ ’اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے لیڈروں پر ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی؟‘ ان کا اشارہ بی چے پی کے لیڈروں کی طرف تھا۔ باضابطہ طور پر ان لیڈروں کی تقریروں کی ویڈیو کلپس انہوں نے عدالت میں چلا کر دکھائیں۔ اس کے باوجود آج تک ان لیڈروں پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہاں! البتہ جج صاحب کا تبادلہ ضرور کر دیا گیا۔

آپ کو بتادیں کہ 24 اگست 2021 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انجمن طلبائے قدیم کے صدر شفاالرحمٰن دلی کی ایک عدالت میں یہ سوال پوچھ چکے ہیں کہ قومی دارالحکومت میں فسادات کو مبینہ طور پر اکسانے کے لیے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی ہے؟ اس کے بعد بھی آج تک ان لوگوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے جبکہ شفاالرحمان کو دلی فسادات کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور وہ ابھی تک جیل میں بند ہیں۔

>> 27 مئی 2020 کو دلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے جج جسٹس دھرمیندر رانا نے دلی پولیس کی سرزنش کی اور اس کی تفتیش پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کیس ڈائری دیکھنے سے آپ کی کارروائی یکطرفہ نظر آرہی ہے۔‘ اس کے پیش نظر عدالت نے متعلقہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو ہدایت دی کہ وہ منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنائے۔

>> 24؍ جولائی 2020 کو دلی ہائی کورٹ کے جسٹس سریش کمار کیت نے ایک ہی معاملے میں الگ الگ عرضیاں دائر کرنے پر دلی پولیس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دلی پولیس عدالتی نظام کا غلط استعمال کررہی ہے اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔

>> 24؍ جولائی 2020 کو دلی کی ایک عدالت نے کہا کہ دلی پولیس نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شمال مشرقی دلی کے جعفرآباد اور موج پور کے میٹرو اسٹیشنوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج اکٹھا کر رہی ہے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے مقامات کی فوٹوگرافروں کے ذریعہ لی گئی تصاویر اور ویڈیوز بھی جمع کر رہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس ہریدے بھوشن اور انسپکٹر انل کمار فوٹو گرافر کے ذریعہ بنائی گئی ویڈیوز اور میٹرو اسٹیشنوں پر نصب ویڈیو کیمروں سے متعلقہ ویڈیو فوٹیج کی فراہمی میں ناکام رہی ہے۔ وہ یہ بتانے میں بھی ناکام رہی ہے کہ میٹرو کے متعلقہ عہدیدار کو متعلقہ ویڈیو فوٹیج کے تحفظ کے لیے کوئی نوٹس/درخواست پیش کی گئی ہے تاکہ ثبوت کے ایک اہم حصہ کو بچایا جاسکے؟ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ پولیس کو بتائے کہ کس طرح اور کن شواہد کو جمع کرنا ضروری ہے، تاہم یہ عدالت منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس متعلقہ ویڈیو فوٹیج اکٹھا کرنے میں قابل بھروسہ نہیں رہی۔ یہ صورت حال باعث تشویش ہے۔

واضح رہے کہ پولیس نے متعدد چارج شیٹوں میں دعویٰ کیا تھا کہ دلی میں تشدد مودی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا نتیجہ تھے، جن لوگوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کیے تھے وہی لوگ اس کے ذمہ دار تھے۔ لیکن پولیس نے ان کے خلاف ابھی تک کوئی خاطرخواہ ویڈیو ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

>> 27؍ جولائی 2020 کو دلی ہائی کورٹ کے جسٹس سریش کمار کیت نے پولیس کو شمال مشرقی دلی تشدد کی تحقیقات کرنے والی ٹیموں کے سربراہوں کے لیے خصوصی کمشنر آف پولیس پرویر رنجن کے اس حکم کی ایک کاپی داخل کرنے کی ہدایت دی، جس میں انہوں نے انہیں ہندوؤں کی گرفتاری کے دوران محتاط رہنے کے لیے کہا تھا۔آپ کو بتادیں کہ اپنے حکم میں رنجن نے تفتیشی ٹیموں سے کہا تھا کہ متاثرہ علاقوں سے کچھ ہندو نوجوانوں کی گرفتاری کے نتیجے میں ہندوؤں میں سخت ناراضگی پھیل گئی ہے لہٰذا احتیاط برتیں۔ تاہم دلی ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ کسی خبر کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی جب تک کہ یہ دعوے مستند نہ ہوں۔ جسٹس کیت نے دلی پولیس کو حکم دیا کہ وہ 8 جولائی کا حکم دو دن کے اندر ریکارڈ پر رکھیں، اور دوسرے فریق کو بھی اس کی کاپی فراہم کی جائے۔

>> 12 اکتوبر 2020 کو دلی ہائی کورٹ نے محمد ریحان نامی شخص کی ضمانت منظور کی جسے دلی فسادات کے دوران مبینہ رول کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ استغاثہ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج، ویڈیو کلپ یا تصویر پولیس پیش نہیں کر سکی۔

>> 13؍ اکتوبر 2020 کو دلی ہائی کورٹ نے قاسم نامی شخص کی ضمانت منظور کی جسے دلی فسادات کے دوران مبینہ رول کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار کو سوشل میڈیا سے موصول ہونے والی 11 فوٹیجس میں سے کسی میں بھی نہیں دیکھا گیا۔

>> 14 ؍اکتوبر 2020 کو دلی کی کڑکڑ ڈوما کورٹ نے گلفام نامی شخص کی ضمانت منظور کی جسے دلی فسادات کے دوران مبینہ طور پر دلی کے مولا نگر کی گلی نمبر 5 میں واقع ایک شیوا مندر میں توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ گلفام کے اقرارِ بیان کے علاوہ اس کے جرم سے متعلق ریکارڈ پر کوئی بھی چیز نہیں ہے۔

اسی دن دلی ہائی کورٹ نے مشٹھان سنگھ نامی شخص کی ضمانت منظور کی جسے دلی فسادات کے دوران مبینہ رول کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار ایک 65 سالہ شخص ہے اور وہ خود فسادات کا شکار تھا اور اس کے گھر کو فسادات کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں سے بھی نقصان پہنچا تھا۔

>> 23؍ نومبر 2020 کو دلی کی ایک عدالت نے پولیس کو دلی فسادات سے متعلق ایک معاملے کی ایف آئی آر درج کرنے اور ’’منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ‘‘ تحقیقات کرنے کی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ پولیس نے اس کیس کو بند کر دیا تھا جبکہ یمنا وہار کے رہائشی محمد سلیم نے عدالت کو دی گئی اپنی شکایت میں کہا ہے کہ اس کے پڑوسی سبھاش تیاگی اور اشوک تیاگی نے ایک ہجوم کے ساتھ 24 فروری کو اس کے گھر پر حملہ کیا تھا۔ گولیوں کے نشانات اب بھی میرے گھر کی دیواروں پر موجود ہیں۔ انہوں نے پٹرول بم بھی پھینکے، جسے خوش قسمتی سے ہم نے وقت پر پانی ڈال کر ناکارہ بنا دیا۔ تیاگی نے اوپن فائرنگ بھی کی تھی اور نصیر احمد نامی ایک شخص اس واقعے میں گولی لگنے سے ہلاک بھی ہوا تھا۔ سلیم نے 16 افراد کی نشان دہی بھی کی جن کے بارے میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ اس ہجوم کا حصہ تھے۔ محمد سلیم نے ملزموں کے خلاف ویڈیو گرافک ثبوت جمع کروائے ہیں۔

تاہم پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سلیم نے تشدد میں ملوث ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ’’جھوٹی شکایت‘‘ درج کی تھی اور اسے 19 مارچ 2020 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس وقت سلیم اس معاملے میں ضمانت پر باہر ہے۔ لیکن جج نے پولیس کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ اس واقعے میں ’’کسی قسم کا کوئی قابل جرم عمل نہیں پایا گیا‘‘ اور کہا کہ الزامات کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالت نے یہ بھی اشارہ کیا کہ الیکٹرانک شواہد قابل قبول ہیں۔ جج نے مزید کہا ’’یہ الزامات بنیادی طور پر نہایت سنگین ہیں اور شکایت کنندہ کے جان ومال کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ یہ عدالت منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے شکایت میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر جعفر آباد کے ایس ایچ او کو قانون کی مناسب دفعات کے تحت جلد سے جلد ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔‘‘

>> 11؍ دسمبر 2020 کو دلی فسادات سے متعلق دو الگ الگ مقدمات میں ایک شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کڑکڑ ڈوما کورٹ نے مشاہدہ کیا، ’’ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس طرح کے اشتعال انگیز ماحول میں ’’غیر قانونی طور پر‘‘ جمع ہوئے لوگوں کے ساتھ جس میں خاص طور پر ہندو برادری کے لوگ شامل تھے، کندھے سے کندھا ملائے گا اور ایک مسلم لڑکے کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالے گا۔‘‘ آپ کو بتادیں کہ عارف پر دو نوجوانوں ذاکر اور اشفاق حسین کی موت کا ذمہ دار ہونے کا الزام تھا کہ وہ "غیر قانونی طور پر جمع ہونے والے ہجوم” کا حصہ تھے جس کا مشترکہ مقصد جائیداد، زندگی اور کسی دوسرے کمیونٹی کے افراد کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا۔

>> 22؍ جنوری 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے دلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں عمر خالد کے مبینہ اعترافی بیانات، بغیر یہ واضح کیے کہ ان کے بیانات ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہیں، شائع کرنے پر میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک حکم نامے میں چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ دنیش کمار نے کہا کہ ایک رپورٹر کو بنیادی معلومات ہونی چاہئیں کہ پولیس اہلکار کے سامنے اعترافی بیان دینا بطور ثبوت قابل اعتماد نہیں ہے اور قاری کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے دائیں بازو کی ترجمان ویب سائٹ اوپ انڈیا کے ایک مضمون کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جس میں عمر خالد کو ’’انتہا پسند، اسلام پسند اور ہندو مخالف دلی فسادات کا ملزم‘‘ کہا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’مذکورہ خبر میں پوری دلی کے ہنگاموں کو ہندو مخالف فسادات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے، کیوں کہ تمام برادریوں نے ان فسادات کے نتائج کو محسوس کیا ہے۔‘‘ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی میڈیا رپورٹ سے کسی کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت عمر خالد کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ میڈیا ٹرائل سے ان کے آزاد اور منصفانہ مقدمے کی سماعت کا حق متاثر ہورہا ہے۔

>>01؍ فروری 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے دلی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ دلی فسادات کے دوران شیو وہار میں واقع مدینہ مسجد کو آگ لگانے اور مسمار کرنے کے مبینہ واقعہ کی ایف آئی آر درج کرے۔ ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ میوری سنگھ نے کہا کہ واضح طور پر یہ قابل فہم جرم ہے اور اس معاملے کی مناسب تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے تھانہ کراول نگر کے ایس ایچ او کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی۔

>> 19؍ فروری 2021 کو دلی ہائی کورٹ نے دلی فسادات کے دوران ایک مسلمان کے قتل کے سلسلے میں تین مسلمانوں کو گرفتار کرنے پر دلی پولیس کی سرزنش کی۔ یہ معاملہ شاہد نامی شخص سے متعلق ہے جو سپتریشی عمارت کی چھت پر گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ہلاک ہوگیا تھا۔ پولیس نے چارج شیٹ میں جنید، چاند محمد اور ارشاد پر شاہد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ عدالت نے ان سب کو ضمانت دے دی۔

ضمانت دیتے ہوئے جسٹس سریش کمار کیت نے مشاہدہ کیا کہ ’’یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمین کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد کو اپنی ہی برادری کے کسی فرد کی ہلاکت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ تینوں مسلم ملزموں نے ہندو برادری کے ممبروں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ جج نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے کہا ’’اگر وہ واقعی اس فرقہ وارانہ فساد میں ملوث ہوتے اور دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تو وہ دوسری کمیونٹی کے مذکورہ بالا لوگوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش نہ کرتے۔‘

>>22؍ فروری 2021 کو دلی ہائی کورٹ نے آٹو رکشا ڈرائیور راشد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی آر لوکیشن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ راشد جائے وقوع پر موجود تھا۔

>> 5؍ مارچ، 2021 کو دلی ہائی کورٹ نے دلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں میڈیا کو ضمنی چارج شیٹ لیک کرنے پر پولیس کو کھری کھری سنائی۔ عدالت نے کہا کہ اس سے پہلے کہ عدالت اس کا بغور جائزہ لیتی اور جرم ثابت ہوتا، چارج شیٹ لیک کر دی گئی۔ جسٹس مکتا گپتا نے دلی پولیس کمشنر سے میڈیا کو معلومات لیک کرنے کے لیے ذمہ دار شخص کی شناخت ظاہر کرنے والا ایک حلفی بیان داخل کرنے کو بھی کہا۔ جج نے صاف طور پر کہا کہ ’’میڈیا میں آنے کے بعد یہ (چارج شیٹ لیک کرنا) ثابت شدہ الزام ہے۔ اب یہ محض ایک الزام نہیں رہا۔ آپ کو معلوم کرنا ہوگا کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔‘‘ تاہم دلی پولیس کے وکیل امت مہاجن نے اپنے دعوے کی تکرار کی کہ ضمنی چارج شیٹ کے مندرجات کو پولیس افسروں نے لیک نہیں کیا، لہذا انہیں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ لیکن ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’چارج شیٹ پولیس افسر کے ہاتھ میں ایک جائیداد تھی۔ اور اگر آپ کے افسر نے اسے لیک کیا ہے تو یہ طاقت کا غلط استعمال ہے، اگر منظوری کے لیے یہ کسی اور کے سپرد کیا گیا تھا تو یہ اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی ہے اور اگر میڈیا نے اسے حاصل کیا ہے تو یہ چوری ہے، لہٰذا کسی بھی صورت میں ہو جرم تو ہوا ہے۔‘‘ملحوظ رہےدلی ہائی کورٹ نے یہ باتیں تب کہیں جب عدالت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی درخواست کی سماعت کررہی تھی، جنہوں نے پولیس کے ذریعہ مبینہ مواد کو لیک کرنے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

>> 7؍ اپریل 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے سی ایم ایم کورٹ میں زیر سماعت کارروائی روک دی جس میں ہاشم علی نامی شخص نے پولیس سے ڈکیتی، آتش زنی اور شمال مشرقی دلی فسادات کے دوران اس کے گھر کو نقصان پہنچانے کی شکایت کی تھی، مگر بعد میں پولیس نے چوری، املاک کی تباہی اور آتش زنی کا الزام لگاتے ہوئے ایک دیگر ایف آئی آر کے ساتھ اس کی شکایت کو ٹیگ کرتے ہوئے اسی کو ملزم بنادیا تھا۔

>> 15 جون 2021 کو دلی ہائی کورٹ نے نتاشا نروال، دیونگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کی ضمانت کے حکم کو منظور کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ خود ساختہ اختلاف رائے کو دبانے کی بے چینی میں آئینی ضمانت یافتہ احتجاج کے حق اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے مابین لائن کچھ دھندلی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کے لیے یہ ایک تکلیف دہ دن ہوگا۔‘‘

>> 13 ؍جولائی 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے ان کی طرف سے دائر نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے دلی پولیس پر 25 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ در حقیقت دلی فسادات کے معاملے میں دلی پولیس کو ہدایت دی کہ ایک ناصر محمد کی علیحدہ ایف آئی آر درج کی جائے جو شمال مشرقی دلی فسادات میں زخمی ہوئے تھے۔ اس سمت کو چیلنج کرتے ہوئے دلی پولیس نے ایک نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ تفتیش مضحکہ خیز ہےاور مضحکہ خیز انداز میں کی گئی ہے۔ ناصر کو فسادات کے دوران بائیں آنکھ میں گولی لگی تھی۔

>> 20؍ جولائی 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے غفلت پر ابتدائی طور پر رائے قائم کرتے ہوئے، مدینہ مسجد انہدام میں پہلے سے درج ایک علیحدہ ایف آئی آر سے آگاہ نہ ہونے پر دلی پولیس کے’’بے حس رویے‘‘ پر سخت برہمی ظاہر کی ۔ عدالت نے مشاہدہ کیا،’’یہ ابتدائی طور پر تفتیشی ایجنسی کی طرف سے بے حسی اور غفلت ظاہر کرتا ہے، کیونکہ یہ مکمل مواد اے سی ایم ایم (شمال مشرق) کے سامنے رکھنے کے لیے پابند ہے۔ یہ عدالت تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اختیار کیے گئے ڈھیلے ڈھالے رویے کو دیکھ کر بہت اداس ہے۔‘‘

>> 25؍ اگست 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے دلی پولیس کے طرز عمل پر حیرت کا اظہار کیا کہ دلی فسادات کے دوران اپنے مدعا علیہ کے ذریعے ایک گھر پر حملے کا الزام لگانے والی شکایت کو اسی واقعہ کی ایک اور ایف آئی آر کے ساتھ جوڑنے کے بارے میں دلی پولیس کو جانکاری ہی نہیں ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ نے کہا، ’’اگرچہ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے، لیکن پولیس کو خود نہیں معلوم تھا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ پھر جب بتایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے جس کی تفصیلات کا خود اسے پتہ نہیں ہے۔‘‘

>> 28؍ اگست 2021 دلی کی ایک عدالت نے دلی پولیس کی دلی فسادات کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے سخت سرزنش کی۔ عدالت نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج (اے ایس جے) ونود یادو نے کہا کہ بڑی تعداد میں فسادات کے معاملے میں تحقیقات کی سطح بہت کم اور غیر معیاری ہے۔ زیادہ تر مقدمات میں تفتیشی افسر (آئی او) عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔ پولیس ادھوری چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچانے کی مشکل سے ہی پروا کرتی ہے جس کی وجہ سے کئی مقدمات میں نامزد ملزم جیل میں رہتا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی نوٹ کیا کہ’’یہ کیس ایک روشن مثال ہے جس میں متاثرین میں خود پولیس اہلکار ہیں، پھر بھی آئی او نے تیزاب کے نمونے جمع کرنے اور اس کا کیمیائی تجزیہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ تفتیشی افسر نے زخموں کی نوعیت کے بارے میں رائے جمع کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔‘‘

>> 2؍ ستمبر 2021 کو دلی کی ایک عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس فسادات کے معاملات میں منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ فسادات دلی پولیس کی ناکامی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں اپنے آپ کو اس مشاہدے سے نہیں روک سکا ہوں کہ جب تاریخ دلی میں تقسیم کے بعد بدترین فرقہ وارانہ فسادات پر نظر ڈالے گی، تو دیکھے گی کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی کی ناکامی ہے جو جدید ترین سائنسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی مناسب تفتیش نہیں کرسکی، یہ یقیناً جمہوریت کے حاکموں کو اذیت پہنچائے گا۔ پولیس نے جانچ کے نام پر عدالت کی آنکھوں میں پٹی باندھنے کا بھی کام کیا۔‘‘

اس موقع سے عدالت نے یہ بھی بتایا کہ فسادات کی کارروائی کے دوران پولیس نے صرف چارج شیٹ داخل کرنے کی جلدبازی دکھائی، اصل معنوں میں کیس کی جانچ ہی نہیں ہوئی۔ یہ صرف وقت کی بربادی ہے۔ جج ونود یادو نے کچھ اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ دلی فسادات میں 750 معاملے داخل کیے گئے ہیں، ان میں سے بھی بیشتر کیسوں کی سماعت اسی (کڑکڑ ڈوما) کورٹ کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ صرف 35 معاملوں میں ہی الزامات طے ہو پائے ہیں۔ کئی ملزمین اس وقت صرف اس لیے جیل میں بند ہیں کیونکہ ابھی تک ان کے کیسوں کی سماعت شروع نہیں ہو سکی ہے۔

>> 6؍ ستمبر 2021 کو عدالت نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دلی پولیس کے سربراہ سے درخواست کی کہ تشدد سے متعلق مقدمات میں فوری تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے دلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ دلی فسادات کے مقدموں میں بار بار عدالت کے احکامات کے باوجود تحقیقات ختم نہ کرکے کوئی ذمہ داری لینے سے پرہیز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی سماعت میں تاخیر ہو رہی ہے۔

>> 12؍ ستمبر 2021 کو انڈین پولیس سروس کے سابق افسر جولیو ربیرو نے دلی کے کمشنر آف پولیس ایس این شریواستو کو خط لکھ کر دلی فسادات سے متعلق تحقیقات پر سوال اٹھائے۔ ربیرو نے کہا کہ دلی پولیس اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ عوامی تقاریر کرنے والے کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر جیسے بی جے پی لیڈروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’پرامن مظاہرین‘‘ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

ربیرو نے اپنے خط میں کہا ’’میں آپ کو افسردہ دل سے لکھ رہا ہوں۔ ایک سچے محب وطن اور ہندوستانی پولیس سروس کے سابق ممبر کی حیثیت سے میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ پرامن مظاہرین کے خلاف درج 753 ایف آئی آرز کی منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنائیں جو اقلیت کی برادری کے خلاف تعصب اور نفرت سے پیدا ہونے والی ناانصافیوں کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں‘‘ ربیرو ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ہیں اور انہوں نے پنجاب اور گجرات کے چیف آف پولیس کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

>> 17؍ ستمبر 2021 کو چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار گرگ نے دلی فسادات کے مقدمات کی کارروائی کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے ذریعے مقدمات کی کارروائی کے لیے اقدامات کرنے میں ناکامی مقدمے کی سماعت میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ اس لیے آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے ڈپٹی کمشنر آف پولیس، شمال مشرق کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔ مجسٹریٹ نے مزید کہا کہ ایسا نہ کرنے پر مزید موقع دیے بغیرعدالت کو مناسب حکم دینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

اس موقع پر عدالت نے صاف طور پر کہا کہ ’اگر پولیس مقدمات کی مؤثر کاروائی کو یقینی نہیں بناتی ہے تو اسے معاملات کے التوا کے لیے افسروں کی تنخواہوں سے کٹوتی کے علاوہ منفی احکامات دینے پڑیں گے، ‘ مجسٹریٹ نے یہ تنقیداس وقت کی جب تفتیشی افسر نے یہ کہہ کر التوا کی درخواست کی کہ کیس کی فائلوں کو انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس لیے وہ عدالت کے سوالوں کے جوابات دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے دلی پولیس کمشنر سے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔

>> 25؍ ستمبر 2021 کو دلی کی ایک عدالت نے دلی فسادات کے انکوائری میں لاپروائی کی روش کے لیے پولیس افسر کی تنخواہ سے 5 ہزار روپے کاٹنے کا حکم دیا۔اپنے حکم میں چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار گرگ نے مشاہدہ کیا کہ ’’خصوصی پبلک پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر مقررہ تاریخوں پر سماعت کے لیے پیش نہیں ہوتے اور جب وہ سینئر افسروں کی پیشی کے بعد آتے ہیں تو فائلوں کا معائنہ کیے بغیر آتے ہیں۔‘‘

جج نے مزید کہا کہ اس کے بعد حکام انتہائی آرام دہ انداز میں کیس میں التوا چاہتے ہیں۔ گرگ نے یہ جرمانہ اس وقت لگایا جب پولیس پچھلے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہی جس میں اس نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ملزم کومل مشرا کو ای چالان کی کاپی فراہم کرے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مشرا کو یہ دستاویز نہیں دی گئی کیوں کہ وہ 12 اپریل کے حکم سے واقف نہیں تھا اور اس نے اس کیس میں التوا کی درخواست کی۔ جج نے کہا ’’پولیس کے ساتھ ساتھ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز کے مذکورہ بالا طرز عمل کو پہلے ہی سینئر پولیس افسروں بشمول ایس ایچ اوز، اے سی پیز، ڈی سی پیز اور پولیس کمشنر، دلی کے نوٹس میں لایا جا چکا ہے، تاہم وہ اس بات کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات اب نہ ہوں۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ عدالت اس حقیقت سے غافل نہیں ہے کہ اس لاگت کا بوجھ سرکاری خزانے پر پڑے گا اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ کمشنر آف پولیس، دلی کو انکوائری کرانے اور مذکورہ اخراجات کی اطلاع کے ذمہ دار افسر کی تنخواہ سے کٹوتی کا حکم دیا جائے اور اس کی چار ہفتوں کے اندر رپورٹ دی جائے۔‘‘ تاہم عدالت نے جرمانہ عائد کرنے کے بعد کیس میں التوا کی درخواست منظور کرلی۔ یہ رقم متعلقہ افسر کی تنخواہ سے کاٹ کر وزیر اعظم کے قومی ریلیف فنڈ میں جمع کرائی جائے گی۔

>> 28 ؍ستمبر 2021 کو دلی کی ایک عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے دلی فسادات سے متعلق جون میں درج کیس میں کوئی پیش رفت نہ کرنے پر سٹی پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور صاف طور پر کہا کہ یہ واقعی افسوسناک صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلی پولیس کمشنر یا نو تشکیل شدہ خصوصی تفتیشی سیل کی طرف سے اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی ہے جسے فسادات کے معاملات کی تحقیقات کی نگرانی کا کام سونپا گیا تھا۔ جج نے کہا ’’پولیس کی طرف سے فسادات کے دیگر معاملات میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فسادات کے دوران اور اس کے تقریباً چار ہفتوں کے بعد کے حالات واقعی مشکل تھے اور پولیس مقدمات کی صحیح تفتیش نہیں کر سکی۔ اس کے بعد دلی کورونا وائرس کی وبا میں پھنس گئی اور اس طرح اس معاملے میں معیاری تحقیقات نہیں ہو سکیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس اسی عذر کو موجودہ کیس میں استعمال کر سکتی ہے؟ عدالت نے کہا ’’جواب واضح طور پر ’نہیں‘ ہونا چاہیے۔‘‘

بتادیں کہ عدالت کےیہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ’جن لوگوں کے نام شکایت میں درج ہیں ان سے ابھی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ہے۔‘ دراصل دلی کے بھاگیرتھی وہار کے رہائشی ناصر احمد نے اس کے معاملے میں کوئی کارروائی نہ ہونے کی صورت میں ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ پولیس کو ہدایت دی جائے کہ وہ اس کی شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لے۔ عدالت نے 26 اکتوبر کو اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ناصر احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دو سے ڈھائی سو افراد کے ہجوم میں سے کئی لوگوں کی شناخت کی جو گزشتہ سال 24 فروری کو گوکل پوری ٹول ٹیکس عمارت کے قریب ہنگامہ آرائی کر رہے تھے۔ 13 مارچ 2020 کو اپنی شکایت میں انہوں نے الزام لگایا کہ ہجوم نے لاؤڈ اسپیکر لگائے تھے اور ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کو جا کر توڑ پھوڑ کرنے اور دیگر کمیونٹی کے لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے پر اکسا رہے تھے۔

ناصر کے مطابق 25 فروری 2020 کو ان کے گھر میں بھی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی تھی اور گودام میں آگ لگائی گئی تھی۔ اس نے پولیس کو مدد کے لیے بلایا تھا جب اس کے گودام کو آگ لگائی گئی تھی لیکن پولیس اس کی مدد کو نہیں پہنچی۔ اس کے بعد پولیس میں کئی شکایات درج کرائی گئی تھیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ناصر کی درخواست پر عدالت نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرے، پولیس نے اس حکم کو بھی چیلنج کیا لیکن ایڈیشنل جج ونود یادو نے اسے 26 اپریل 2021 کو خارج کردیا۔ مجبوراً پولیس نے عدالت کی ہدایت کے تقریباً دو ماہ بعد جون میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

اب دلی فسادات کی تحقیقات کی نگرانی کے لیے دلی پولیس چیف نے خصوصی سیل تشکیل دیا ہے

عدالت کی مسلسل تنقید اور سرزنش کے بعد اب دلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے دلی فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی سیل تشکیل دیا ہے۔19 ستمبر 2021 کو استھانہ نے ایک خصوصی انویسٹی گیشن سیل تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تاکہ مقدمات کی تیز اور مناسب جانچ پڑتال کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس کمیٹی کی سربراہی اسپیشل کمشنر آف پولیس (سنٹرل زون) راکیش کھرانا کریں گے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ زیر التوا مقدمات کا جائزہ لیں اور پراسیکیوشن میں تیزی لانے کے لیے وقت کی حکمت عملی طے کریں۔ وہیں پینل میں جوائنٹ کمشنر آف پولیس (مشرق)، ڈپٹی کمشنر پولیس (نارتھ ایسٹ) اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ایسٹ) بھی شامل ہوں گے۔ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کے جی تیاگی کو عدالت میں مقدمات کی نگرانی کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔ اپنے حکم میں استھانہ نے یہ بھی کہا کہ ان 14 پولیس افسروں کو جو فسادات کے وقت شمال مشرقی دلی میں تعینات تھے، تحقیقات میں شامل کیا جانا چاہیے۔

اس کمیٹی کو عدالت میں ضمنی چارج شیٹ دائر کرنی ہوگی۔ وہیں پینل کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ خصوصی پبلک پراسیکیوٹر تشدد سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود ہوں۔ یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ گواہ اور تفتیشی افسر وقت پر عدالت میں پیش ہوں۔ اگر تفتیشی افسر ناگزیر حالات کی وجہ سے سماعت میں حاضر ہونے سے قاصر ہوں تو اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا یا ایک ذمہ دار افسر کو بھیجنا پڑے گا جو مقدمات کے حقائق جانتا ہو۔

 

***

 2 ستمبر 2021 کو دلی کی ایک عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا کہ پولیس فسادات کے معاملات میں منصفانہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو انصاف ملنے کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ فسادات دلی پولیس کی ناکامی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں اپنے آپ کو اس مشاہدے سے نہیں روک سکا ہوں کہ جب تاریخ دلی میں تقسیم کے بعد بدترین فرقہ وارانہ فسادات پر نظر ڈالے گی، تو دیکھے گی کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی کی ناکامی ہے جو جدید ترین سائنسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی مناسب تفتیش نہیں کرسکی، یہ یقیناً جمہوریت کے حاکموں کو اذیت پہنچائے گا۔ پولیس نے جانچ کے نام پر عدالت کی آنکھوں میں پٹی باندھنے کا بھی کام کیا۔‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021