دہلی فسادات: ہائی کورٹ نے آصف اقبال تنہا، دیونگنا کلیتا اور نتاشا نروال کی ضمانت منظور کی، رہائی کا راستہ صاف
نئی دہلی، جون 15: دہلی ہائی کورٹ نے آج فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد سے متعلق ایک کیس میں طلبا کارکنان دیونگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کی ضمانت منظور کر لی۔ ان تینوں کو، جو مئی 2020 سے زیر حراست ہیں، اب رہا کیا جائے گا، کیوں کہ انھیں تشدد سے متعلق دیگر معاملات میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔
کلیتا اور نروال پنجرا توڑ گروپ کی ممبر ہیں، جب کہ تنہا دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم ہیں۔
آج منظور شدہ ضمانت ایک ایسے مقدمے سے متعلق ہے جس میں دہلی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ یہ تینوں پچھلے سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد ہونے والے تشدد کی ایک ’’بڑی سازش‘‘ کا حصہ تھے۔ ان تینوں کارکنوں پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کیا گیا تھا۔
ضمانت کا حکم منظور کرتے ہوئے جسٹس سدھارتھ مردل اور انوپ جے بھمبھانی کے ڈویژن بنچ نے ’’اختلاف رائے کو دبانے‘‘ کے لیے حکومت کے اقدامات پر تنقید کی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کی بے چینی میں احتجاج کے حق کی آئینی ضمانت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے مابین لائن کچھ دھندلےپن کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جمہوریت کے لیے وہ ایک تکلیف دہ دن ہوگا۔‘‘
عدالت نے یہ بھی ذکر کیا کہ اشتعال انگیز تقاریر کرنا اور چکہ جام (سڑک کی ناکہ بندی) کا اہتمام کرنے جیسے اقدامات ایسے وقت میں غیر معمولی نہیں ہیں جب ’’حکومتی یا پارلیمانی اقدامات کی بڑے پیمانے پر مخالفت‘‘ ہوتی ہے۔
عدالت نے نروال، کلیتا اور تنہا سے 50،000 روپے کا ذاتی مچلکہ اور دو مقامی ضمانتیں پیش کرنے کو کہا ہے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنا پاسپورٹ جمع کر دیں اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں جن سے اس کیس میں رکاوٹ پیدا ہو۔
واضح رہے کہ پچھلے سال 23 اور 26 فروری کے درمیان شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ پولیس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ تشدد کی بعض واقعات میں زیادہ تر مسلم محلوں میں یا تو عدم فعالیت کا شکار تھی یا خود بھی تشدد میں شامل تھی۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے بعد دہلی میں یہ بدترین تشدد تھا۔
دہلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج منظم کیا تھا۔ پولیس نے یہ بھی دعوی کیا کہ مظاہرین کے پاس علاحدگی پسندانہ مقاصد تھے اور وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’’سول نافرمانی کا رخ‘‘ کر رہے تھے۔ پولیس نے ان ’’سازشی‘‘ الزامات کی بنا پر متعدد کارکنوں اور طلبا کو گرفتار کیا ہے۔
تاہم متعدد بیوروکریٹس اور اعلیٰ شہریوں نے پولیس کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے متعصبانہ قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں دہلی پولیس کے کردار پر شروع سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں۔