دہلی فسادات: انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا کے خلاف تشدد پر اکسانے کے لیے ایف آئی آر کیوں نہیں، یو اے پی اے کے تحت گرفتار شفاٗ الرحمان نے عدالت سے پوچھا

نئی دہلی، اگست 25: جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انجمن طلبائے قدیم کے صدر شفاء الرحمن نے منگل کو دہلی کی ایک عدالت میں پوچھا کہ قومی دارالحکومت میں فروری 2020 کے فسادات کو مبینہ طور پر اکسانے کے لیے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی ہے۔

شفاء الرحمان نے، جنھیں دہلی فسادات کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اپنی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ انھوں نے انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا اور ایک اور بی جے پی لیڈر پرویش شرما اور جس شخص نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرین پر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے قریب گزشتہ سال گولی چلائی تھی اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔

واقعے کے وقت وہاں گولی چلانے والے شخص کی عمر 17 سال تھی اس لیے اس کی شناخت چھپائی گئی ہے۔

شفاء الرحمان کے وکیل ابھیشیک سنگھ نے پوچھا ’’کیا استغاثہ نے انھیں گواہ یا ملزم کے طور پر بلایا یا نوٹس جاری کیا کہ ہم کچھ جاننا چاہتے ہیں؟ کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ ’’xyz‘‘ کو گولی مارو، تو وہ (پولیس) جانتی ہے کہ وہ لوگ کون ہیں۔ ان کے پاس کم از کم کچھ ثبوت ہوں گے۔‘‘

سنگھ گزشتہ سال جنوری میں فسادات شروع ہونے سے پہلے دہلی میں ایک ریلی میں انوراگ ٹھاکر کے اشتعال انگیز نعروں کا ذکر کر رہے تھے۔ ٹھاکر کو ’’دیش کے غداروں کو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا جس کے جواب میں ہجوم نے ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس نعرے میں غدار شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا۔

منگل کی سماعت کے دوران شفاء الرحمان کے وکیل نے اتفاق کیا کہ ان کے موکل نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے لیے ’’کچھ مالی انتظامات‘‘ کیے، لیکن پوچھا کہ کیا کچھ مظاہرین کے لیے کچھ ادائیگی کرنا یو اے پی اے کے الزامات کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے؟

سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ انجمن طلبائے قدیم کا رکن بننا یا یہاں تک کہ احتجاج کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ’’ہر شخص اپنی رائے کا حقدار ہے۔‘‘

انھوں نے دلیل دی کہ مرکزی اور دہلی حکومت کی طرف سے دی گئی منظوری یو اے پی اے کی دفعات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نہیں کی گئی ہے۔ سنگھ نے کہا کہ ایکٹ کی دفعہ 45 کے تحت تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے شواہد کی آزادانہ تصدیق کے بعد ہی منظوری دی جا سکتی ہے۔

سنگھ نے پوچھا ’’اگر مشق مکمل نہیں ہوئی اور منظوری دی گئی تو کیا یہ منظوری یا چارج شیٹ درست ہوگی؟‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’یہ منظوری کے باطل ہونے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ منظوری کی ناکامی کا معاملہ ہے۔ اگر اس شرط کو پورا نہیں کیا گیا تو اس کی منظوری کالعدم ہو جائے گی۔ میرے خلاف یہ دلیل نہیں دی جا سکتی کہ منظوری ایک ایسی چیز ہے جسے مقدمے کے بعد کے مراحل میں میرے خلاف دیکھا جائے گا۔‘‘

عدالت اس معاملے کی اگلی سماعت 8 ستمبر کو کرے گی۔