دہلی فسادات پہلے سے طے شدہ سازش کا حصہ تھے، اچانک نہیں ہوئے تھے: ہائی کورٹ
نئی دہلی، ستمبر 28: دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو کہا کہ قومی دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر ہوا فرقہ وارانہ تشدد ’’اچانک‘‘ نہیں ہوا بلکہ امن و امان کو خراب کرنے کی ’’پہلے سے منصوبہ بند سازش‘‘ کا نتیجہ تھا۔
جسٹس سبرامنیم پرساد نے جھڑپوں کے دوران دہلی پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کی ہلاکت سے متعلق ایک کیس میں ایک حکم جاری کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا۔ جج نے اس کیس کے ایک ملزم کی ضمانت منظور کرلی اور معاملے میں درج دوسرے کو ریلیف دینے سے انکار کردیا۔
فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
لائیو لاء کے مطابق پیر کو دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’جھڑپوں کی ویڈیو فوٹیج میں مظاہرین کا طرز عمل واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حکومت کے کام کاج کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں لوگوں کی عام زندگی کو متاثر کرنے کی ایک منصوبہ بند کوشش تھی۔‘‘
جج نے نشاندہی کی کہ فسادیوں نے سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچایا اور کہا کہ اس عمہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شہر میں بدامنی پھیلانے کے لیے یہ ’’پہلے سے منصوبہ بند اور پہلے سے سوچی سمجھی‘‘ سازش تھی۔
جج نے مزید کہا ’’یہ اس حقیقت سے بھی واضح ہے کہ بے شمار فسادی بے رحمی کے ساتھ لاٹھیوں، بیٹس وغیرہ کے ساتھ پولیس افسران کی نا امید تعداد سے زیادہ تعداد میں اترے۔‘‘
اس خاص معاملے میں دہلی پولیس نے ایک فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 24 فروری 2020 کی سہ پہر وزیر آباد کے علاقے میں مرکزی سڑک پر لاٹھی، بیس بال بیٹ، لوہے کی سلاخوں اور پتھروں کو لے کر پرتشدد ہجوم جمع ہو گیا تھا۔
پولیس نے مزید کہا کہ جیسے ہی ہجوم پرتشدد ہوا پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور اسے منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ تاہم مظاہرین نے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران پر بھی حملہ کیا۔
جھڑپوں کے دوران دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل رتن لال، ضلع شاہدرہ کے ڈپٹی کمشنر پولیس اور گوکل پوری تھانے کے اسسٹنٹ کمشنر پولیس زخمی ہوئے۔ لال کو ہسپتال لے جانے کے بعد مردہ قرار دیا گیا۔
دہلی ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ ملزمان میں سے ایک محمد ابراہیم کو سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں تلوار اٹھائے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جج نے کہا ’’اس کی روشنی میں درخواست گزار کی تلوار کے ساتھ فوٹیج کافی خطرناک ہے اور یہی وجہ درخواست گزار کو حراست میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘
تاہم ایک اور ملزم محمد سلیم خان کو ضمانت مل گئی۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ہجوم کے ہر رکن پر قتل کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ اس کیس میں کچھ ملزمان کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے الیکٹرانک شواہد کی کمی ہے۔
اس سے قبل عدالت نے تین ستمبر کو پانچ ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مقدمے کی سماعت کے دوران کسی ملزم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کی اجازت دینا ہمارے آئین میں درج اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘
14 ستمبر کو عدالت نے دو ملزمان کو ریلیف دیا اور ان میں سے دو کی ضمانت مسترد کر دی۔
11 ملزمان میں سے، جنھوں نے اس کیس میں ضمانت کی درخواستیں دائر کی تھیں، آٹھ کو راحت مل چکی ہے۔