دہلی فسادات: ’’پولیس کو منصوبہ بندی کا علم تھا تو کارروائی کیوں نہیں کی؟‘‘ عمر خالد کے وکیل نے عدالت میں پوچھا
نئی دہلی، نومبر 30: کارکن عمر خالد کے وکیل نے پیر کو قومی راجدھانی کی ایک عدالت سے پوچھا کہ پولیس نے فروری 2020 کے شمال مشرقی دہلی کے فسادات کی اجازت کیوں دی، جب ایک گواہ نے انھیں تشدد بھڑکانے کے منصوبے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس گذشتہ سال 23 فروری سے 26 فروری کے درمیان شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق کیس میں عمر خالد کی ضمانت کی درخواست پر بحث کر رہے تھے۔
تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
عمر خالد پر شہر کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسٹی کے طالب علم میران حیدر اور طالبہ صفورا زرگر کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پچھلی چند سماعتوں میں خالد کے وکیل تردیپ پیس، محفوظ گواہوں کے بیانات پڑھتے رہے ہیں اور اکثر ان کی صداقت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
8 نومبر کو پچھلی سماعت کے دوران وکیل نے الزام لگایا تھا کہ خالد کو پھنسانے کے لیے ’’من گھڑت‘‘ بیانات تیار کیے گئے تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پیر کو ہونے والی کارروائی میں تردیپ نے دہلی کی عدالت کو بتایا کہ بیانات ’’پولیس کے ذریعے لکھے گئے تھے اور گواہوں کو تصدیق کے لیے دیے گئے تھے۔‘‘
وکیل خاص طور پر ایک محفوظ گواہ کے بارے میں بات کر رہا تھا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شمال مشرقی دہلی میں فسادات سے ایک ماہ قبل جنوری 2020 میں سیلم پور اسٹیشن ہاؤس افسر سے ملا تھا۔ گواہ نے مبینہ طور پر تشدد سے متعلق تمام معلومات پولیس کو دی تھیں۔
وکیل نے عدالت میں پوچھا ’’اگر آپ ایس ایچ او سے رابطے میں تھے تو آپ نے اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا کہ کچھ نہیں ہو؟ کیا ہوا؟ یہ ایسے مثالی شہری ہیں…یہ ایسے اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں…کیا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ گواہ تیار کیے گئے ہیں؟‘‘
پولیس نے عمر خالد پر الزام لگایا ہے کہ اس نے شمال مشرقی دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کے لیے سیلم پور میں خفیہ میٹنگ کی تھی۔
تردیپ نے مزید کہا ’’تو سیلم پور کے ایس ایچ او کو سب کچھ معلوم تھا تو ہم نے شہر میں فسادات کیسے کیے؟ یہ شان دار انٹیلی جنس اس کے پاس اس بارے میں تھی لیکن اس نے پہلی معلوماتی رپورٹ درج نہیں کی۔‘‘
عمر خالد کے وکیل نے پولیس اور مجسٹریٹ کو دیے گئے ایک اور گواہ کے بیانات میں تفرقے کی نشان دہی کی۔ تردیپ پیس کے مطابق گواہ نے پولیس سے سیلم پور کی مبینہ میٹنگ کے بارے میں بات نہیں کی تھی لیکن مجسٹریٹ کے سامنے ’’معجزانہ طور پر اسے سات دن کے بعد اس کے بارے میں یاد آیا تھا۔‘‘