عدالت میں عمر خالد کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے ایف آئی آر کے لیے بی جے پی لیڈر کے ذریعے ٹویٹ کیے گئے تراشیدہ ویڈیو کلپ پر انحصار کیا ہے
نئی دہلی، اگست 24: کارکن عمر خالد نے پیر کو دہلی کی ایک عدالت کے سامنے دلیل دی کہ پولیس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کی جانب سے ٹویٹ کی گئی اور نیوز چینلز کے ذریعے نشر کردہ ایک تراشیدہ ویڈیو کلپ پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے انحصار کیا ہے۔ عدالت دہلی فسادات کی سازش سے متعلق کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کے تحت درج ایف آئی آر کے سلسلے میں خالد کی درخواست ضمانت کی سماعت کر رہی تھی۔
خالد کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے کہا کہ واضح طور پر دہلی پولیس کے پاس ریپبلک ٹی وی اور نیوز 18 کی (ویڈیو کے) سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘
پیس نے کہا کہ انھوں نے نیوز 18 اور ریپبلک ٹی وی کو خط لکھ کر اس تقریر کی خام فوٹیج مانگی جو انھوں نے چینلز پر نشر کی تھی۔ جواب میں نیوز 18 نے کہا کہ اس کے پاس خام فوٹیج نہیں ہے اور یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کے ٹویٹ سے لی گئی ہے۔
پیس نے عدالت کومزید بتایا کہ ریپبلک ٹی وی نے کہا کہ ویڈیو حاصل کرنے کا کا ذریعہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ تھے۔ تردیپ پیس نے استدلال کیا ’’یہ ایک سیاستدان کی ٹویٹ کو کاپی کرنا اور اسے اپنی خبر کے طور پر دکھانے (کا کیس) ہے۔‘‘
واضح رہے کہ خالد کو ستمبر میں سخت یو اے پی اے کے تحت دہلی فسادات کی سازش سے متعلق کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے 22 نومبر کو خالد اور طالب علم کارکن شرجیل امام اور فیضان خان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی۔
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنھوں نے ترمیم شدہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مظاہرین کے علاحدگی پسندانہ مقاصد تھے اور وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’’سول نافرمانی‘‘ کا استعمال کر رہے تھے۔ پولیس نے ان ’’سازشی‘‘ الزامات کی بنیاد پر کئی کارکنوں اور طلباء کو گرفتار کیا ہے۔
خالد کے خلاف ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے دو تقریریں کیں جنھوں نے مظاہرین کو اکسایا اور خالد نے ان سے اپیل کی کہ وہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دلی کے سرکاری دورے کے دوران سڑکیں بلاک کریں۔
سماعت کے دوران ، پیس نے عدالت کے سامنے عمر خالد کی پوری تقریر پیش کی اور کہا کہ خالد نے ایسا تشدد کے لیے نہیں کہا تھا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے پوری تقریر پیش نہیں کی۔
سینئر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریریں ٹرمپ کے دورے کے بارے میں ہجوم کو اکسانے کے لیے کی گئی تھیں۔ انھوں نے دلیل دی کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ خالد اور دیگر ملزمان نے 8 جنوری کو مل کر اس سازش کی منصوبہ بندی کی لیکن مرکزی وزارت خارجہ نے 11 فروری کو ٹرمپ کے دورے کی خبر کا اعلان کیا تھا۔
پیس نے کہا کہ ’’وہ (پولیس) آپ کو بتاتے ہیں کہ میں 8 جنوری کو ہی ٹرمپ کے دورے کے بارے میں جانتا تھا، جس کا علم وزارت خارجہ کو بھی نہیں تھا۔‘‘
انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ چارج شیٹ مکمل طور پر من گھڑت ہے اور گواہوں کے بیانات ’’بنائے ہوئے‘‘ ہیں اور لائیو لاء کے مطابق کسی جسمانی شواہد پر مبنی نہیں ہیں۔
پیس نے دلیل دی کہ ایک گواہ نے پہلے کہا کہ جب 8 جنوری کی مبینہ میٹنگ ہوئی تو وہ اندر نہیں گیا تھا۔ تاہم بعد میں 29 جولائی کو اس گواہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملزم کے ساتھ مبینہ ملاقات میں شرکت کی تھی۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 3 ستمبر کو ہوگی۔