دلی کے معدوم ہوتے ہوئے قبرستان۔’دو گز زمین ملتی ہے ستر ہزار میں‘
مرنے سے پہلے ہی لاکھوں روپے دے کر قبروں کی اڈوانس بکنگ
افروز عالم ساحل
موجودہ دور میں ہر کسی کو زندہ رہنے سے زیادہ موت کا خوف ستا رہا ہے، لیکن اگر مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟ کیونکہ ملک کے دارالحکومت دلی میں جو حالات بن رہے ہیں ان میں مرنے کے بعد اب دو گز زمین کا ملنا بھی مشکل ہے کیوں کہ مُردوں کی زمین (قبرستان) پر کچھ مُردہ ضمیر زندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
دلی کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 50سال کے دوران یہاں مسلمانوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن قبرستانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ 1971کی مردم شماری کے مطابق دلی میں صرف ساڑھے 6فیصد مسلمان رہ گئے تھے اور اب تقریباً دو کروڑ کی آبادی والی دلی میں مسلمانوں کا فیصد بڑھ کر 12.78 ہو گیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ اس شہر میں دلی وقف بورڈ کے تحت 500 سے زیادہ قبرستان ہوا کرتے تھے لیکن آج ان کی تعداد 50 بھی نہیں رہ گئی ہے۔
کیا ہیں وقف بورڈ کے اعداد و شمار؟
جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے راقم الحروف کو حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے ذریعے ملے اہم دستاویز بتاتے ہیں کہ وقف بورڈ کے 1970 کے سرکاری نوٹیفکیشن میں 488 مسلم قبرستان درج ہیں۔ یعنی وقف بورڈ کے مطابق دلی میں آج بھی 488 قبرستان موجود ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
وقف بورڈ کی دستاویز کے مطابق اوکھلا کے جامعہ نگر میں چار قبرستان رجسٹرڈ ہیں لیکن یہاں صرف دو قبرستان دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک قبرستان اس وقت زیر استعمال ہے۔ اور ایک اس لیے مل پایا کیوں کہ راقم الحروف کے آر ٹی آئی کی اس انفارمیشن کے بنیاد پر چند مقامی نوجوانوں نے اس مہم کی شروعات کی تھی۔ لیکن یہاں کے باقی قبرستان کہاں ہیں، یہ تفتیش طلب معاملہ ہے۔
وہیں نظام الدین کے علاقے میں وقف بورڈ کی دستاویزات کے مطابق 25 قبرستان ہیں، لیکن موقع پر جا کر مقامی لوگوں سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس وقت صرف دو قبرستان ہی بچے ہیں۔ اسی وقف بورڈ کی دستاویز میں نجف گڑھ میں 30، پالم میں 30، شاہدرہ میں 33، نریلا میں 36اور مہرولی میں 41قبرستان درج ہیں۔ لیکن حقیقت میں لوگ یہاں صرف 5 تا 6 قبرستانوں پر ہی تکیہ کر رہے ہیں۔
دلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر حافظ محفوظ محمد سے اس سلسلے میں جب ہمارے نمائندے نے زیر استعمال قبرستانوں کے اعداد و شمار کے متعلق بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میری جانکاری کے مطابق دہلی میں اس وقت 25 تا 30 ہی ایسے قبرستان ہیں جہاں آپ تدفین کر سکتے ہیں‘‘۔ وجہ پوچھنے پر وہ بتاتے ہیں کہ سب سے مشکل امر یہ ہے کہ جن لوگوں کے لیے یہ قبرستان ہیں وہ چاہتے ہی نہیں کہ ان میں سدھار لایا جائے۔ وہ بس جب مر جائیں تو قبرستان میں دفن ہونا چاہتے ہیں، اپنی قبر کو پکا بنانا چاہتے ہیں اور زندہ ہیں تو قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہیں وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کی ویب سائٹ http//:wamsi.nic.in پر دلی کے قبرستانوں سے متعلق جو اعداد و شمار ہیں، وہ چونکا دینے والے ہیں۔ اس کے مطابق پوری دلی میں صرف ایک قبرستان ہے۔ وہ بھی ایسا تب ہے جب حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ’وقف کمپیوٹرائزیشن‘ کا کام اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ یعنی یہ کام مکمل ہونے والا ہے۔ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کا تو یہ دعویٰ ہے کہ وقف ڈیجیٹائزیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کی اس ویب سائٹ کے مطابق اس رپورٹ کے لکھے جانے تک دلی میں 1047 وقف جائیدادوں کی فہرست اس ویب سائٹ پر ڈالی جا چکی ہے۔
اس سے قبل دلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر خورشید عالم فاروقی تھے۔ ایک رپورٹ لکھنے کے سلسلے میں آج سے قریب پانچ سال پہلے اس راقم الحروف نے ان سے معدوم ہوتے ہوئے قبرستانوں پر بات چیت کی تھی تب انہوں نے بتایا تھا کہ وہ پہلے کی دستاویز ہوں گے کیونکہ پہلے تکیوں (فقیروں اور درویشوں کے رہنے کی جگہ) یا خانقاہوں کو بھی لوگ قبرستان میں ہی شمار کرتے تھے۔ حالانکہ تب بھی ان کے مطابق دلی میں محض 70 تا 80 قبرستان ہی استعمال میں تھے۔
خورشید عالم فاروقی کے مطابق بیشتر قبرستان غائب ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر قبرستانوں پر غیر قانونی قبضے کر لیے گئے ہیں اور بعض قبرستانوں کی زمین کا استعمال حکومت دوسرے کاموں میں کر رہی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ محض پانچ سالوں میں زیر استعمال قبرستان بھی معدوم ہو کر آدھے سے کم کیسے ہو گئے؟
حیران کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ آج سے تقریباً دس سال قبل دلی وقف بورڈ سے راقم الحروف نے وقف جائیدادوں کی فہرست حاصل کی تھی، جب راقم الحروف نے جائیدادوں کی اس فہرست کی جانچ شروع کی تو پتہ چلا کہ قومی دارالحکومت میں 562 چھوٹے و بڑے قبرستان موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ درگاہ یا مسجد سے منسلک ہیں اور کچھ الگ ہیں۔ لیکن اب دلی وقف بورڈ صرف 488 قبرستان ہی بتا رہی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
کہ کاغذات میں قبرستانوں کی تعداد 562 سے کم ہو کر 488 پر کیوں آ گئی ہے؟ آخر کاغذوں سے ہی ہمارے 74قبرستان چوری کیسے ہو گئے؟ اور اس سے بھی بڑا سوال کہ ہم نے اب تک چوری ہوئے ان قبرستانوں کی ایف آئی آر پولیس تھانوں میں درج کیوں نہیں کرائی گئی؟
دہلی اقلیتی کمیشن کے اعداد و شمار
مذکورہ بالا اعداد و شمار سے آگے کے اعداد و شمار تو مزید چونکا دینے والے ہیں، کیوں کہ قبرستانوں سے متعلق دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ، دلی وقف بورڈ کے قبرستانوں کے اعداد و شمار تو کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ دلی اقلیتی کمیشن نے دلی میں قبرستانوں سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کو 22نومبر 2018کو دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے جاری کیا تھا۔
اس رپورٹ میں دلی اقلیتی کمیشن کا صاف طور پر کہنا تھا کہ اس وقت قبرستانوں میں جگہ کی بہت قلت ہے اور ایک سال بعد دلی کے مسلمانوں کو دفنانے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچے گی تاوقتیکہ کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا جائے۔ رپورٹ میں اس مسئلے کے پیش نظر یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ اراضی الاٹمنٹ اور غیر مستقل قبروں کی سہولت جیسے اقدام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دلی اقلیتی کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق دلی کے مختلف علاقوں میں 704 قبرستان ہیں، جن میں سے صرف 131 میں ہی میتوں کی تدفین ہو رہی ہے اور ان میں سے بھی 16 قبرستانوں پر مقدمے چل رہے ہیں اسی وجہ سے فی الحال میتوں کی تدفین ان میں نہیں ہو پا رہی ہے۔ وہیں 43 قبرستانوں پر مختلف اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ دلی اقلیتی کمیشن کی یہ رپورٹ دلی وقف بورڈ کے قبرستانوں کی تعداد 623بتاتی ہے۔ وہیں 28قبرستانوں کے بارے میں یہ رپورٹ کہتی ہے کہ یہ بھی وقف کے قبرستان ہیں، لیکن وقف بورڈ نے اسے اپنی فہرست میں درج نہیں کیا ہے۔ اس طرح دلی میں وقف بورڈ کے 651 قبرستان ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ وقف بورڈ آر ٹی آئی میں اپنے قبرستانوں کی تعداد محض 488 کیوں بتاتا ہے؟
وقف بورڈ کے 651قبرستانوں کے علاوہ دلی میں میونسپل کارپوریشن کے 11، ڈی ڈی اے کے 5، گرام سبھا کے 13 قبرستان ہیں۔ ساتھ ہی 13 قبرستان مسلم کمیونٹی کے خود کے ہیں۔ وہیں 11قبرستانوں کے مالکان کوئی اشخاص یا ادارے ہیں بعض کے نجی قبرستان ہیں۔ اس طرح سے دلی میں کل 704 قبرستان ہیں۔
دلی میں چل رہی ہے قبروں کی ایڈوانس بکنگ
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اس شعر ’کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے، دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں کے جواب میں مشہور مزاحیہ شاعر اسرارجامعی (مرحوم) نے لکھا تھا؎
دلی میں آ کے رہنے کی خواہش کریں نہ آپ
رنگون میں پڑے رہیں اپنے مزار میں
ظل الٰہی آپ کی دہلی میں آج کل
دو گز زمین ملتی ہے ستر ہزار میں
لیکن شاید اسرار جامعی صاحب کو بھی یہ نہیں پتہ ہوگا کہ دہلی میں قبر کے لیے 70 ہزار بھی اب کم پڑنے لگے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کا انتظام کرنے لگے ہیں۔ سیکڑوں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے لیے قبر کی ایڈوانس بکنگ کر رکھی ہے۔
دلی کے مولانا آزاد میڈیکل کالج کے کیمپس میں واقع مشہور ذاتی قبرستان ’مہندیان‘ بھی انہی قبرستانوں میں شامل ہے۔ کبھی اس قبرستان میں مہندی کا باغیچہ ہوا کرتا تھا، شاہجہاں آباد کے لوگ یہیں سے مہندی کے پتے توڑ کر لے جاتے تھے، اسی وجہ سے اس کا نام مہندیان پڑا۔ اس قبرستان میں 400سے زیادہ علماء مدفون ہیں اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ انہیں یہاں دفن کیا جائے۔ لیکن زمین کی قلت کے پیش نظر جن کے آبا و اجداد یہاں دفن ہیں صرف انہی کو یہاں دفن کی اجازت دی جاتی ہے۔ کبھی یہ قبرستان ڈیڑھ کلو میٹر تک پھیلا ہوا تھا لیکن اب سکڑ کر چھوٹا ہو گیا ہے۔ دلی کا یہ قبرستان منتخب قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ صوفی، پیر، شاعر اور تمام بڑی سیاسی شخصیات کی سنگ مرمر اور سرخ پتھروں سے بنی قبریں اس کی پہچان ہے۔ اسلامک اسکالر اور صوفی پیر شاہ ولی اللہ کا 400سال قدیم مقبرہ اسی قبرستان میں ہے۔ شاہ ولی اللہ کے کنبہ سے وابستہ درجنوں افراد کی قبریں یہاں موجود ہیں۔ اردو کے معروف شاعر حکیم مومن خان مومن بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔
ہو سکتی ہے قبر کی سالانہ فیس 10ہزار تک
2018 میں دلی وقف بورڈ نے دلی کے قبرستانوں میں تدفین سے متعلق ایک پالیسی تیار کی تھی۔ اگر اس پالیسی پر عمل درآمد کیا گیا تو شہر میں ہر قبر کو 3سے 30سال کے لیے الاٹ کیا جا سکتا ہے۔ ابتدا کے تین سالہ الاٹمنٹ کے لیے سالانہ فیس 5000 ہوگی، اس کے بعد ہر سال 10000روپے کی فیس ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ وقف بورڈ نے تب کہا تھا کہ یہ فیصلہ جگہ کی کمی اور زمین پر قبضے کی وجہ سے لیا جائے گا اور اصل مقصد یہ ہے کہ قبر کا دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اس پالیسی کو حضرت نظام الدین درگاہ سے متصل تیکونا پارک قبرستان میں بطور ماڈل نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کو شہر کے دیگر قبرستانوں میں بھی نافذ کیا جائے گا۔ اس پالیسی سے
متعلق جب دلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر حافظ محفوظ محمد سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وقف بورڈ ابھی اس پالیسی پر دوبارہ کام کر رہی ہے، جلد ہی اسے عوام کے سامنے لایا جائے گا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیسہ اقتدار اور طاقت کی ہوس ہمارے معاشرے کی تمام اقدار کو کھا گئی ہے لیکن معاشرے کو بگاڑنے والے یہ نہیں سوچتے کہ انہیں بھی مرنے کے بعد کسی قبر میں ہی جانا ہے۔ یقیناً قبرستانوں کی تعداد میں کمی اب دلی کے مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ کاش! ہمیں معدوم ہوتے ان قبرستانوں کی فکر ہوتی اور ہم انہیں بچانے کی کوئی مہم چھیڑتے تاکہ مرنے کے بعد ہمیں دو گز زمین نصیب ہو سکے۔
گزشتہ 50سال کے دوران دلی میں مسلمانوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن قبرستانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ 1971کی مردم شماری کے مطابق دلی میں صرف ساڑھے 6فیصد مسلمان رہ گئے تھے اور اب تقریباً دو کروڑ کی آبادی والی دلی میں مسلمانوں کا فیصد بڑھ کر 12.78 ہو گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس شہر میں دلی وقف بورڈ کے تحت 500 سے زیادہ قبرستان ہوا کرتے تھے لیکن آج ان کی تعداد 50بھی نہیں رہ گئی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21